مالیا ۔۔۔ بدعنوانی مخالف مہم بے اثر کیوں ؟

 سیاست  اور کرپشن یا بدعنوانی کے رشتے پر اگر بات کی جائے تو وہ لامتناہی گفتگو ہوگی ۔خاص طور پر آج کے دور میں سیاست کو کرپشن سے یا کرپشن کو سیاست سے الگ نہیں کیا جا سکتا۔اگر کوئی دونوں کے میل سے انکار کرتا ہے تو وہ حد درجہ جھوٹا ہے۔یہ اور بات ہے کہ وہ اِس کرپشن کو کرپشن ہی نہ سمجھے اور اپنے جھوٹ کو جھوٹ نہ مانے لیکن بہر حال ایک پیمانہ ہے جس سے یہ بات ایک عام آدمی کی بھی سمجھ میں آجاتی ہے کہ یہ سب کیا ہے؟ممکن ہے کہ اپنے اس کرپشن کو وہ’شہری نکسل‘ اور ’فائیو اسٹار ایکٹی وِسٹ‘ کی طرح’کرپشن سے مبرا کرپشن ‘کا نام دے دے اور ماننے والے (بھکت) اسے تسلیم بھی کر لیں۔ملک کے حالات کے بگڑنے کی ایک انتہا ہو گئی ہے لیکن بھکتی کا یہ عالم ہے کہ ابھی بھی بخار نہیں اُترا ہے۔ ایک عام آدمی کو بھی پتہ ہے کہ مودی کی حکومت ،کانگریس یعنی یو پی اے کے دور میں ہوئے کرپشن کو اُجاگر کر کے اور بڑھا چڑھا کر پیش کر کے اقتدار میں آئی تھی۔مثلاً ٹوجی گھوٹالا،کوئلہ گھوٹالا،کامن ویلتھ گیم گھوٹالا اوررابرٹ وڈرا کے ذریعے زمینوں کی خریداری کے معاملات کو عوام کے سامنے رکھ کرمودی جی نے اپنے گردن خوب ہلائے اور عوامی ریلیوں میں جس طرح  کے دعوے کئے تھے وہ ابھی تک لوگ بھولے نہیں ہیں ۔حکمرانی کو ساڑھے ۴؍ برس پورے ہونے کو ہیں لیکن آج تک مودی کے ذریعے بتائے گئے گھوٹالوں میں کسی ایک فردکو بھی جیل نہیں ہوئی اور نہ ہی کسی طرح کی کوئی قانونی پیش رفت دیکھنے کو ملتی ہے۔اب یہی دیکھئے ! وجے مالیا کا اتنا بڑا بیان آیا کہ وہ ہندوستان چھوڑنے سے پہلے(اسے بھاگنے سے پہلے بھی پڑھ سکتے ہیں) وزیر خزانہ ارون جیٹلی سے ملا اور اس نے اپنے قرضاجات کے نپٹارے کے سلسلے میں بات چیت کی لیکن پرائم ٹائم پر مذاکرے میں ٹی وی چینلوں پر کیا چل رہا ہے؟ایک جگہ یہ چل رہا ہے کہ نیشنل ہیرالڈ کے معاملے میں راہل گاندھی نے انکم ٹیکس کی چوری کی اور اسے عدالت سے راحت نہیں ملی جب کہ بات صرف اتنی ہے کہ معاملہ انکم ٹیکس اور راہل گاندھی کے درمیان ہے اور انکم ٹیکس کو جواب دینا ہے۔اب اس میں زبردستی ’حوالے‘ کا ذکر ٹی وی پر چھڑا ہوا ہے کہ اس میں حوالے سے لین دین ہوا ہے اور اسے سچ ثابت کرنے پر تلے ہیں۔دوسرے چینل پر دکھایا جا رہا تھاکہ ندیم جاوید جو کانگریس کے اقلیتی شعبے کے سربراہ ہیں ،سرِ بازار ان سے جو مارپیٹ ہوئی اور مارنے والا شخص مارتے ہوئے یہ کہہ رہا تھا کہ’’ہمارے ۱۰؍کروڑ کب واپس دوگے؟‘‘ارنب گوسوامی کے مطابق یہ ویڈیو میں قید ہے جس سے انکار کی گنجائش نہیں ہے۔اُس مذاکرے میں وہ مارنے والے شخص ’قریشی‘ کو بھی بٹھائے ہوئے ہے اور اُس سے پوچھ رہا ہے کہ تو آپ نے ۱۰؍کروڑ روپے ندیم جاوید کو کیش میں دیئے؟کس لئے دیئے؟ وہ جواب دیتا ہے کہ کام کروانے کیلئے دیئے۔تو یہ تو گھوس(رشوت) ہوا نا؟ارنب نے پورے مذاکرے میں ایک بار بھی نہیں پوچھا کہ یہ ۱۰؍کروڑ کیش آپ کے پاس کہاں سے آئے؟یا یہ نہیں کہا کہ اگر رشوت لینا جرم ہے تو دینا بھی جرم ہے!اس درمیان بار بار راہل کے ساتھ ندیم جاوید کی تصویر اسکرین پر دکھائی جاتی رہی۔ اس سے یہی ثابت ہوتا ہے کہ بیشتر ٹی وی چینل والوں کا ایک ہی ایجنڈا ہے کہ کس طرح راہل کو نقصان پہنچایا جائے اور مودی کو بچایا جائے۔اس میں وہ اب حدوں کو بھی پار کرنے لگے ہیں۔
اس پورے معاملے پر غور کریں تو یہ اندازہ کرنے میں مشکل نہیں کہ سڑک پر کوئی سی سی ٹی وی کیمرہ تو نصب نہیں تھا بلکہ اُنہیں میں سے کسی نے ویڈیو بنالیا ۔اس سے یہ شبہ بھی ہوتا ہے کہ یہ سب ایک منصوبے کے تحت ہوا جس میں چینل بھی شامل ہو۔شبہ یوں بھی ہوتا ہے کہ ایک’عام آدمی‘علی الاعلان یہ اعتراف کر رہا ہے کہ ہم نے ۱۰؍ کروڑ روپئے کیش فلاں شخص کو دیئے ۔۔۔اس کے باوجود ابھی تک انکم ٹیکس حرکت میں نہیں آیا اور نہ ہی کوئی نوٹس اُس قریشی نامی شخص کو بھیجا گیا۔یہ کہانی بہت کچھ کہتی ہے جس سے فائدہ اٹھانے والوں کی ملی بھگت کا اندازہ لگایا جا سکتا ہے۔راہل اور کانگریس یا ندیم جاوید نے کیاکیا؟اس کی بھی کوئی تفصیل نہیں مل سکی ہے اور یہ کریں گے بھی کیا؟ ان کے پاس اتنے سارے موضوعات ہیں مودی حکومت کے خلاف ،لیکن ان کا استعمال ہی نہیں کر پا رہے ہیں یہ لوگ؟ کہیں نہ کہیں تو ’ذہانت کا خلا ‘ہے جو بار بار دکھائی دیتا ہے اور صاف محسوس ہوتا ہے۔اب تو دسیوں موضوعات ہیں۔۔۔۔۔رافیل،مالیا،نیرو مودی اور چوکسی،للت مودی،پٹرول و ڈیزل کی آسمان چھوتی قیمتیں،روپے کی عالمی بازار میں گرتی قدروغیرہ کے علاوہ لنچنگ،افراتفری،جی ایس ٹی ،نوٹ بندی وغیرہ وغیرہ۔اب اور کیا چاہئے کانگریس کو۔یہ سب تو طشتری میں سجا کر مل رہے ہیں۔اس میں کانگریس کی اپنی تو کوئی محنت نہیں اور اسی کو تو ’حکومت مخالف رجحان‘ کہتے ہیں جو برسراقتدار حکومت فراہم کرتی ہے۔اب کانگریس کو کچھ اور کا انتظار ہے تو پھر انتظار ہی رہے گا کیونکہ تجزیہ نگار کانگریس کی ’کارکردگی‘ سے مایوس ہیں۔۲۰۱۳ء میں حالات اتنے خراب نہیں تھے جتنے آج ہیں لیکن اُن تھوڑے کو مودی نے ایک بڑے موقعے میں تبدیل کر دیا اور ایسی مہم چلائی کہ کانگریس دو عدد میں سمٹ کر رہ گئی۔آج ایسا موقع ہے کہ کانگریس بی جے پی کو ایک عدد میں سمیٹ سکتی ہے لیکن اُس پائے کی محنت وہ کر نہیں رہی ہے جس پائے کی محنت نریندر مودی اور ان کی ٹیم نے نے کی تھی۔جب امیت شاہ کی جانب سے راجستھان کی ایک ریلی میں ،جو غالباً اسمبلی الیکشن کی مہم کے آغاز کے سلسلے میں تھی جب یہ بات کہی جاتی ہے کہ ’’ہم دادری اور ایوارڈ واپسی کے بعد بھی جیتے اور اسی طرح آگے بھی جیتیں گے‘‘،تو اُس ہٹ دھرمی پر کانگریس کا کوئی مذمتی بیان نہیں آتا۔دیکھئے،وہ اعلانیہ طور پر لنچنگ کی حمایت کر رہا ہے۔ملک کی دوسری پارٹیاں بھی منہ تاک رہی ہیں۔کوئی قانونی ادارہ بھی نوٹس نہیں لیتا اور نہ ہی ’حقوق انسانی‘ کی دہائی دینے والی کوئی تنظیم عدالت کا دروازہ کھٹکھٹاتی ہے۔گویا سب کو سانپ سونگھ گیا ہے۔اس سے جمہوریت کیا شرمسار نہیں ہو رہی ہے؟۔اور کیاآئین کے ساتھ ساتھ عدالت کی دھجیاں نہیں اُڑائی جا رہی ہیں۔ ’ایوارڈ واپسی ‘کی بات کہہ کر وہ شاعر،ادیب،دانشوراور پڑھے لکھوں پر ضرب کاجا رہا ہے ۔یہ تمام موضوعات کانگریس کے پاس ہیں لیکن راہل گاندھی کی ’مان سروور یاترا‘ بھی ضروری ہے!
اب آتے ہیں مالیا کے دعوے کی طرف۔حزب مخالف کو جانے دیجئے ،خود سبرامنیم سوامی نے مالیا کے فرار پر سوال اٹھایا ہے اور وزیر اعظم سے اپیل کی ہے کہ اس کی اعلیٰ سطحی جانچ کرائیں۔ارون جیٹلی سے ان کی پرخاش کوئی نئی بات نہیں ہے۔وہ شروع ہی سے جیٹلی کو اس لائق نہیں سمجھتے جس پر انہیں بٹھا یاگیا ہے۔وہ اس میںکس حد تک حق بجانب ہیں،اس کا فیصلہ عوام کریں گے تاہم بہت کچھ ظاہر ہو چکا ہے اور دنیا کا ایک بڑا طبقہ جان چکا ہے۔ہندوستان کی معیشت تباہ ہو چکی ہے ۔بی جے پی اور مودی کو جاننے والے یہ بات اچھی طرح جانتے ہیں کہ سوامی کی خواہش کبھی پوری نہیں ہوگی کیونکہ موجودہ حکومت کسی الزام کو اپنے سر لینے کی قائل نہیں ہے۔دال میں کچھ کالا تو ہے ورنہ سی بی آئی اپنے نوٹس میں تبدیلی نہیں کرتی۔وہ اپنا کام انجام دے رہی تھی اور اس نے مالیا کے خلاف’لُک آؤٹ نوٹس‘بھی جاری کر دیا تھا جس کی رو سے مالیا کو گرفتار کرنا تھا لیکن ٹھیک اُسی دن جس روز مالیا یہاں سے لندن فرار ہوا،اُس لُک آؤٹ نوٹس کے شق ’حراست‘ کو محض ’مطلع کرنے‘ سے بدل دیا گیا۔اس کا یہ مطلب ہوا کہ جب مالیاملک سے باہر جائے یا ملک کے اندر آئے تو اسیحراست میں نہیں لیا جائے بلکہ ایئر پورٹ کا عملہ اب سی بی آئی کو صرف مطلع کرے۔اس شق کا فائدہ اُٹھاتے ہوئے مالیا نکل گیا لیکن اب سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ یہ شق کس کے حکم سے جوڑاگیا۔سی بی آئی کا یہ کہنا کتنا مضحکہ خیز ہے کہ ایسا کلرک کی غلطی سے ہوا۔کیا یہ بات تسلیم کی جاسکتی ہے؟کیااتنا بڑا فیصلہ کسی اعلیٰ اتھاریٹی کے حکم کے بغیر ممکن ہے؟اس سے پہلے نیرو مودی اور چوکسی بھی حکومت کی لاپرواہی سے بھاگ گئے اور اس سے بھی پہلے للت مودی وزیر خارجہ شسما سوراج اور وزیر اعلیٰ راجستھان کے خاص رحم و کرم سے ہمیشہ کیلئے لندن پہنچ گئے۔للت کی حوالگی کی بھی بات اب نہیں ہوتی۔اِن سب کے فراڈ کو اگر یکجا کیا جائے تو ۳۵-۴۰؍ہزار کروڑ روپے کے آس پاس ہوتے ہیںاوریہ سب مودی کے دورِ حکومت میں انجام پایا ہے۔
اس لئے مودی اور مودی کے وزراء اب کرپشن کی بات نہیں کر سکتے۔۲۰۱۹ء کے عام چناؤ میں کرپشن بی جے پی کی طرف سے کوئی موضوع نہیں ہوگا ۔ممکن ہے کہ کانگریس بنائے۔مودی جی کو یہ اچھی طرح معلوم ہے کہ بغیر کرپشن کے کارپوریٹر کا ایک الیکشن نہیں لڑا جا سکتا،ایم پی اور ایم ایل تو دور کی بات ہے۔آج سب سے زیادہ اُنہیں کی پارٹی کے پاس روپے ہیں اور مزید جڑنے والے ہیں۔کیا وہ سب ’شفاف‘ روپے ہیں؟کاغذ پر بھلے ہی وہ ایسا بتا دیں لیکن ایک عام آدمی سمجھتا ہے کہ وہ کیسے روپے ہیں؟
 نوٹ :مضمون نگار ماہنامہ تحریرِ نو، نئی ممبئی کے مدیر ہیں  
رابطہ9833999883
