چند دن قبل حکام نے جنوبی کشمیر میں ممنوعہ پولی تھین کی درآمد ،تیاری ،تقسیم یا استعمال کے خلاف سخت جرمانے اور پولی تھین سے منسلک اداروں کو سیل کرنے کا انتباہ دیا ہے۔ حکام نے ایک عوامی نوٹس کے ذریعےتمام ڈیلروں،دکانداروںاور تقسیم کاروںکو ایسے کسی بھی عمل کو روکنے کے لئے دس دن کی مہلت فراہم کی ہے تاکہ وہ پولی تھین کے متبادل میں کوئی غیر مضر صحت اور ماحول مفافق چیز کا استعمال عمل میں لائیں۔بظاہر تو حکام کا یہ قدم قابلِ سراہنا قرار دیا جاسکتا ہے لیکن اس حکم نامے پر کس حد تک اور کتنی دیر تک عملدرآمد ہوگا یا ہو سکے گا ،یہ تو آنے والا وقت ہی بتا دے گا۔کیونکہ آج تک وقفہ وقفہ کے بعد وادیٔ کشمیر کے مختلف اضلاع ،خصوصاً شہر سرینگر میں بھی حکام کی طرف سے اسی طرح کے کئی حکم نامے جاری ہوتے رہے ،جن کے تحت پولی تھین لفافوں کی تیاری ،درآمد ،خریدو فروخت اور استعمال کے خلاف سخت سے سخت کاروائیاں کرنے کی باتیں کی گئی تھیں۔اُن حکم ناموں پر کہاں تک عمل درآمد ہوتا رہا اور زمینی سطح پر اس کی درآمد،خریداری اور استعمال میں کتنی کمی آئی یا لائی گئی ہے ، وہ ساری صورت حال بخوبی ہمارے سامنے ہے۔جبکہ تا ایں دَم تک بلا کسی خوف کھٹکےکھلے عام ،شہر و دیہات کی ہر بستی ، ہر گلی، ہر نکڑ اورہر بازار سمیت یہاں کے سیاحتی مقامات میںپولی تھین کا بڑے پیمانے پر استعمال جاری و ساری ہے۔گویا پولی تھین اور پلاسٹک انسانوں کی ضرورت بن کر ان کی زندگیوں میں بہت دور تک داخل ہوچکا ہے اور اس کے مضر اثرات اور نقصانات سے واقف ہونے کے باوجود فی الوقت ہر فرد غفلت میں ہے۔ایسا صرف اپنے اس کشمیر میں ہی نہیں ہورہا ہے بلکہ اس وقت دنیا بھر میںایک منٹ میں ایک ملین پلاسٹک کی بوتلیں خرید ی جاتی ہیں۔ ماہرین کا دعویٰ ہے کہ دنیا کے دس بڑے دریا اپنےنوے فیصد کا کوڑا ہرروز سمندروں میں ڈال رہے ہیں۔ اس سے بھی خطرناک بات یہ ہے کہ جو پلاسٹک برتن کھانے پینے میں استعمال ہوتے ہیں، اس کے ذریعہ ہرروز ستر ہزار مائیکرو پلاسٹک کھا یاجاتا ہے۔ اس کے علاو ہ غذائی مصنوعی اجناس کا بھی استعمال بڑھتا جا رہا ہے۔تلخ سچائی یہ ہے کہ دنیا ترقی کر رہی ہے، ترقی کے چرچے ہیں، مگراس کے ساتھ بتدریج تنزلی اور مختلف خطرات سے بھی دوچار ہوتی جا رہی ہے۔ اصل مسئلہ یہ ہے کہ جدید زندگی، آسائشات کی بھرمار، حرص اور طمع انسان کو سدھارنے کے بجائے بگاڑ کی طرف لے جا رہی ہے۔اس کے باوجود حکومت اور عوام دونوں ہی اس کو اہمیت نہیں دے رہے ہیں،جس کا یہ نتیجہ بھی ہمارے سامنے ہے کہ پہلے خشک سالی کا عذاب جھیلنا پڑتاتھا اور اب معمول سے زیادہ بارشوں کی وجہ سے ملک بھر میں سیلابی کیفیت ہے۔ بہت سے گھر سیلاب کی نذر ہورہے ہیںاور بڑے پیمانے پر جانی و مالی نقصان بھی ہورہا ہے۔ادھرجدید خلائی تحقیق کے ہوشربا انکشافات سے بھی انسان کی عقل حیران ہے اور ہم اپنی اپنی گلیوں میں پالی تھین اورپلاسٹک کچرے کے ڈھیر ٹھکانے لگانے سے قاصر ہیں۔ ایک طرف انسانیت قدرتی ماحول سے پریشان ہے اور ہم اپنے معاشروں کے ماحول سے حیران ہیں۔حالانکہ یہ تو طے ہے کہ ساز گار ماحول پر نہ صرف انسان بلکہ کرۂ ارض میں موجود تمام حیوانات ،نباتات و موجودات ِ عالم کی بقاء کا انحصار ہے، جس کو انسان نے ترقی کی دوڑمیںپامال کرکے رکھ دیا ہے اور ابھی تک ماحول کو صاف و سازگار رکھنے کا معاملہ ایک پریشان کُن مسئلہ بنا ہوا ہے۔ بے شک بارش کاپانی، سمندر، دریا،ندی نالے، کنویں، تالاب انسان کے لئے قدرت کی عطا کردہ نعمتیںہیں،جن کے پانیوں کے بغیر نہ تو انسان کی زندگی کرہ ٔارض پر باقی رہ سکتی ہے اور نہ ہی جانور اور پیڑ پودے باقی رہ سکتے ہیں۔لیکن انسان نے ان پانیوں کو پراگندہ کرنے میں کوئی کسر نہیں چھوڑی ،آج بھی انسان انہی پانیوں میں پالیتھین،پلاسٹک ،کوڑا کرکٹ اور دوسری غلاظت ڈالنے سے گریز نہیں کررہا ہے،جو نہ صرف افسوس ناک بلکہ تشویش ناک فعل ہے۔ہمیں جہاں سنجیدگی کے ساتھ اپنے اس فعل پر غور و فکر کرنے کی ضرورت ہے وہیںان کا سدباب کرنے کی ہر ممکن کوشش کرنا ہمارا فرض ہے۔اس لئے اگر ریاستی حکام کی طرف سے ماحول کو سازگار بنانے کے لئےکسی چیز کے استعمال پر قدغن لگائی جاتی ہےتو ہمارے لئےمعاشرتی فریضہ کے تحت اس پر عمل کرنا لازمی ہے۔