ماہرین ماحولیات نے ایک بار پھر خبردار کیا ہے کہ یہاں کے گلیشئر بڑی تیزی سے پگھل رہے ہیں ، جسکی وجہ سے مستقبل میں یہاں کی ماحولیات خطرناک اثرات مرتب ہونے کا قوی احتمال ہے۔گلیشئروں کے سرعت کے ساتھ پگھلنے کے نتیجے میں نہ صرف یہاں کے آبی ذخائر متاثر ہورہے ہیں بلکہ اسکے اثرات یہاں کی زرعی پیداوار اور اقتصادیات پر بھی مرتب ہورہے ہیں۔ ماہرین کا کہنا ہے کہ سال 1972سے اب تک وادی میں پانی کی قلت کے نتیجے میں تقریباً 1200مربع کلومیٹر زرعی زمین کو میوہ باغات میں تبدیل کیا جاچکا ہے۔حقیقت تو یہ ہے کہ عالمی حدت یا موسمی تغیرات کا معاملہ ایک عالمی مسئلہ ہے لیکن اسکے باوجود ہر خطے میں اس مسئلے کی مقامی وجوہات کارفرما ہوتی ہیں۔عام طور سے گلیشئروں کے پگھلنے کی رفتار میں تیزی کے کلیدی اسباب میں اور باتوں کے علاوہ ماحولیاتی کثافت میں اضافہ اور جنگلات کے حجم میں کمی قرار دیئے جاتے ہیں۔ ماہرین کے مطابق درجہ حرارت میں مسلسل اضافہ کے سبب جموں کشمیر میں واقع گلیشئر دنیا کے دیگر حصوں کے مقابلے میں زیادہ تیزی کے ساتھ پگھل رہے ہیں، جس کے نتیجے میں آنے والے وقت میں پانی کی شدید قلت ہوگئی اوراگر گلیشئروں کے پگھلنے کی یہی رفتار رہی تو کشمیر کے لہلہاتے کھیت بنجروں میں تبدیل ہوسکتے ہیں۔چند سال پہلے کشمیر یونیورسٹی کے ماہرین کی ایک ٹیم نے انکشاف کیا تھا کہ گزرے40برس کے عرصہ میں مشہور برفانی ذخیرہ ’کولہائی گلیشئر‘ کا18فیصدحصہ کم ہوگیا ہے جبکہ لداخ خطے کے کرگل ضلع میں72مربع کلومیٹررقبہ پر مشتمل دریا سورو کے طاس میںکم و بیش300 گلیشئرموجود ہیں جن کا16فیصد حصہ پگھل چکا ہے۔جموںوکشمیر کے گلیشئرسالانہ0.8مربع کلومیٹر کی شرح سے پگھل رہے ہیں۔ قابل ذکر ہے کولہائی گلیشئر دریائے جہلم کے لئے پانی کے وسیلے کا ایک اہم حصہ ہے جبکہ ’’سورو گلیشئر‘‘سے دریائے سورو کے ذریعہ کرگل اور زانسکار وادیوںکو پانی میسر ہوتا ہے۔ماہرین کے مطابق 1976میں کولہائی گلیشئر13.87مربع کلومیٹر تک پھیلا ہوا تھا جو اب سکڑ کر 11.24مربع کلومیٹر رہ گیا ہے۔اسی طرح سورو طاس کے علاقہ میں گلیشئروں کے پگھلنے کی شرح مختلف نہیںہے جہاں5کلومیٹر سے زیادہ رقبہ پر محیط گلیشئر اوسطاً 11.6فیصد پگھل گئے ہیں جبکہ 2کلومیٹر سے کم رقبہ پر پھیلے گلیشئرپہلے ہی 31فیصد کم ہوگئے ہیں۔اب تو ماحولیاتی و ارضیاتی ماہرین کی جانب سے یہ تازہ انکشاف کیاگیا ہے کہ عظیم ہمالیائی سلسلہ میں ہرموکھ سے لیکر درنگدرنگ تک بیشتر گلیشئر جن میں تھجواس،کولہائی ،مچوئی ،کنگریز اور شفاعت گلیشئر شامل ہیں،تیزی سے پگھل رہے ہیں اور ان کے مجموعی رقبہ میں 4سے5ہزار میٹر کی کمی واقع ہوئی ہے۔ قدرت نے جموں کشمیر کو آبی ذخائر ، جنگلات اور گلیشئروں کی صورت میں بے پناہ وسائل سے مالا مال کیا ہے لیکن اب اسکا تحفظ کرنا ہم سب کا فرض ہے۔ جموںوکشمیر کے آبی وسائل،جنگلات اورگلیشئروں کو انسانی کھلواڑ کی وجہ سے زبردست خطرات لاحق ہوگئے ہیں اور المیہ تو یہ ہے کہ حکومت خود ایڈونچر ٹورازم اورپلیگرمیج ٹور ازم کے نام پر حساس ماحولیاتی علاقوں میں انسانی مداخلت کی حوصلہ افزائی کرکے ماحولیاتی توازن درہم برہم کرنے پر تلی ہوئی ہے ۔جب حکام بے پرواہ ہوں تو عام لوگوں کی فہمائش کون کرے گا؟۔اس لئے ضرورت اس امر کی ہے کہ پہلے سرکار خود اپنی خبر لی اور اس کے بعد لوگوں کو بھی اس بات کا مکلف بنایا جائے کہ وہ ماحولیات کا تحفظ یقینی بنائیں تاکہ ہماری یہ وادی لہلہاتی رہے۔