بغور جائزہ لیا جائے تو یہ حقیقت کھل کر سامنے آجاتی ہے کہ کائنات میں کثافت پیدا کرنے والی اشیاء ازل ہی سے موجود اور سرگرم عمل ہیں۔ جہاں ان کثافتوں میں بول و برازاور مُردہ اجسام ایک فطری کثافتیں ہیںوہاں ان فطری کثافتوں کے ساتھ غیر فطری اور انسانوں کی اپنے ہاتھوں پیدا کردہ کثافتیں ،فطری کثافتوں سے کئی گنا زیادہ خطرناک ، ماحول دشمن اور انسانیت کش ہیں۔ یہ غیر فطری کثافتیں صنعتی ترقی کا انسانیت کو مہلک تحفہ ہے۔ صنعتی ترقی نے فیکٹریوں اور کارخانوں سے خارج ہونے والے ماحول دشمن فضلوں اور مختلف گیسز کے ذریعے کرۂ ارضی پر ہر جاندار کی زندگی کو ہلاکت خیز مسائل سے دوچار کیا ہوا ہے۔ ہر چند کہ نت نئی ، جدید ترین ، خوبصورت و آرام دہ سبک رفتار و تیز گام کاروں، بسوں اور اسی نوع کی دیگر ذرائع آمد و رفت اور رسل و رسائل نے انسانی زندگی کو بے شمار سہولتوں سے فیض یاب کیا ہے، لیکن دوسری طرف انسانی زندگی کو ہلاکت خیز ماحولیاتی بحران میں بھی مبتلا کیا ہے۔
اس بات سے بھی ہم سبھی واقف ہیں کہ زمین کے ہر علاقے یا خطے کا ایک Eco-system ہوتا ہے۔ جس کے زیر اثر یہ نظام ِ کائنات فطرت کے اصولوں کے مطابق سر گرم عمل ہے۔ جدید سائنس اور صنعتی ترقی سے جہاں بہت سی سہولتیں انسان کے تصرف میں آئیں، وہاں اس ترقی سے کرہ ٔارضی کے اس معاون و مددگار Eco-system میں تباہ کن اور مہک تبدیلیاں رونما ہوئیں۔ حالانکہ خالق کائنات نے انسانوں کو حکم دیا تھا کہ دنیا کے نظام فطرت میں توازن برقرار رکھا جائے، لیکن اشرف المخلوقات نے ترقی کی بے ہنگم دوڑ میں اس اصولِ فطرت کو یکسر فراموش کر دیا۔ جس کا فطری نتیجہ یہ ظاہر ہوا کہ آج ہم ہلاکت خیز ماحولیاتی آلودگی میں سانس لینے پر مجبور ہیں اور تمام ترقی یافتہ ممالک کے سائنسی ماہرین مل کر بھی اس خرابی کا کوئی قابلِ عمل حل تلاش اوراس کا ممکنہ تدارک نہیں کر پا رہے ہیں۔ مادیت اور بے لگام سرمایہ کاری کے نظام نے اس فطری توازن کو بگاڑنے میں اہم کردار ادا کیا ہے۔ اگرچہ دین اسلام جدید علوم اور سائنسی ترقی کے ہر گز خلاف نہیں ،لیکن اسلام دنیا اور انسانیت کے لئے زندگی آمیز فائدہ مند فطری وسائل کے تحفظ کی بھی سختی سے تاکید کرتا ہے۔چناچہ آج ماحولیاتی تحفظ کے ماہرین اس ماحولیاتی آلودگی سے محفوظ رہنے کی جو تجاویز اور تدابیر انسانوں کے سامنے پیش کر رہے ہیں، اسلام نے وہ سب کچھ ڈیڑھ ہزار سال پہلے انسانیت کی امانت کے طور پر مسلمانوں کے حوالے کر دیئے تھے، لیکن مسلمان اپنے محدود تصور ِدین کے سبب سے نہ تو خودان ماحول دوست فطری اصولوں سے کوئی استفادہ کرسکے اور نہ ہی انسانیت کو ان اصولوں سے آشنائی عطا کر سکے ۔ ظاہر ہے کہ پانی زندگی کی اساس اور اصل قوت ہے۔ پانی کے بغیر زمین پر نہ توانسانی حیات باقی رہ سکتی ہے اور نہ ہی جنگلی حیات کا کوئی تصور ممکن ہے۔ یہی وجہ ہے کہ اسلام پانی پر کسی بھی قسم کا شخصی تسلط یا ملکیت کو تسلیم نہیں کرتا۔ قرآن و سنت کی تعلیمات میں پانی وہ نعمت خداوندی ہے جس پر سب کا حق ہے اور ساری ہی انسانیت معاشرتی طور پراس کی حفاظت کی ذمہ دار بھی مقرر کی گئی ہے۔لیکن ہمارے مسلم معاشرے میں دریا یا نہروں کے کناروں پربھی زیادہ ترگندگی کے ڈھیرملتے ہیں ، غلاظت کی نالیاں بہتی ہوئی ندی ،نہروں اور دریاؤں میں چلی جاتی ہیں،جبکہ گلی کوچوں کے کونے کھدروں میں پیشاب کرنا، گھروں کا گندہ پانی گلیوں میں بہانا، گھروں کی گندگی اور کوڑا کرکٹ عام جگہوں پر ڈالنا، تعمیراتی کامو ں کے دوران گرد و غبار روکنے کی تدابیر اختیار نہ کرنابھی تو ہمارا روز مرہ کا وطیرہ بن چکا ہے،جس سے ماحولیاتی آلودگی پیدا ہوتی ہے۔یہ سب کچھ تو دین فطرت کی فطری تعلیمات کے خلاف ہے لیکن ہمارے معاشرے کے زیادہ ترلوگ جنہیں ظاہر پرستی اور محدود تصورِ دین نے گھیر لیا ہے،اِن افعال کو دین کے کاموں میں سے نہیں سمجھتےاوراس طرح اُن کے ہاتھوں پیدا کردہ ماحولیاتی تبدیلیوں کا اثر نہ صرف ہماری زمین پر پڑ رہا ہے بلکہ خلا ءمیں بھی اس کے اثرات دیکھے جاسکتے ہیں۔اس لئے وقت اور حالات کا تقاضا ہے کہ ہم اسلام کے فطری نظام کو عملاً انسانیت کے سامنے پیش کریںاور ماحول کے تحفظ ، آلودگی سے بچنے اور بہترین صاف ستھرے ماحول میں زندہ رہنے کے لئے صاف و شفاف اورحیات بخش ماحول کوپیدا کرنے کی ہر ممکن کوشش کریں،ورنہ مستقبل میں ہماری زندگی کی بقا ءکے لیے فضا سازگار نہیں رہے گی اور ہم سب کے لئے مہلک ثابت ہوگی۔