ماتحت ملازموں سے حُسنِ سلوک کی اہمیت

قرآن ِ کریم میں اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے: ترجمہ: ’’ہم نے ہی ان میں دنیاوی زندگی کی روزی تقسیم کی ہے اور ایک کو، دوسرے پر رفعت دے رکھی ہے، تاکہ ایک، دوسرے سے کام لیتا رہے (اور عالم کا انتظام قائم رہے)۔‘‘(سورۃ الزخرف) اللہ عزوجل نے اس کارخانۂ عالم کے نظام کو چلانے اور انسانی ضروریات کی آپس میں تکمیل کے لئے خود انسانوں کے مابین فرقِ مراتب رکھا ہے ، کوئی حاکم ہے تو کوئی محکوم، کوئی آقا ہے تو کوئی غلام ، کوئی بادشاہ ہے تو کوئی رعایا، کوئی غنی ہے، تو کوئی فقیر، لیکن انسانوں کے مابین یہ فرقِ مراتب اور یہ درجات اور مقام کے لحاظ سے یہ اونچ نیچ صرف اس لئے ہے کہ ہر ایک کی ضرورت کی تکمیل دوسرے سے ہوجائے، مقام ورُتبے کا یہ فرق اس لئے نہیں کہ اسےبڑائی اور برتری کا پیمانہ قرار دیاجائے کہ جو بڑے رتبے اور مقام کا حامل ہے، وہ کمتر اور بے حیثیت شخص کو حقیر سمجھے ، خصوصاً اسلام کی تعلیمات اس حوالے سے نہایت واضح ہیں کہ خادم ومخدوم ،آقا وغلام کے مابین اس طرح کا فرق کہ مخدوم اور آقا تو اپنے آپ کو نہایت مہذب اور اونچی شان والے گردانیں اور غلاموں اور خادموں کے ساتھ حقیر اورکمتر قسم کا برتاؤ کریں ،اس کی اسلام ہرگز اجازت نہیں دیتا ۔
اس سلسلے میں معتدل اور درمیانی راہ وہی ہے جو نبی کریمؐ نے اپنے ماتحتوں اور غلاموں اور خادموں کے ساتھ برتی اور ان کے ساتھ جوبہتر سلوک اور حسن معاملہ آپ ؐنے فرمایا اور آپؐ کے اصحاب نے خادموں سے جو حسن سلوک روا رکھا، آپؐ کی تعلیمات اور ارشادات جو اس سلسلے میں موجود ہیں۔ نبی کریمؐ نے خادموں اور غلاموں کے حقوق کی اہمیت پر اس قدر زور دیا کہ آپؐ نے اپنے مرض الوفات اور زندگی کے آخری لمحات میں بھی نماز جیسے اہم اسلامی رکن کے ساتھ ساتھ غلاموں اور خادموں کے حقوق کی ادائیگی کی تلقین اور وصیت فرمائی۔حضرت امّ سلمہؓ سے روایت ہے کہ رسول اللہؐ اپنے مرض وفات میں فرماتے رہے ،نماز کا اہتمام کرنا اور غلاموں کا خیال رکھنا اور مسلسل یہی فرماتے رہے، حتیٰ کہ آپؐ کی زبان مبارک رکنے لگی ۔(ابن ماجہ:(
نبی کریم ﷺ نے خادموں اور غلاموں کے طبقے کو جو اس وقت بالکل حقیر اورکمتر سمجھا جاتا تھا، ان کے مقام کو بلند کر کے آپؐ نے بھائیوں کے درجے تک پہنچایا ، یعنی ایک انسان جس طرح اپنے بھائی کے ساتھ مساوات اور برابری کا برتاؤ کرتا ہے، غلاموں کے ساتھ اسی طرح کا سلوک کرنے کی تاکید فرمائی۔ نبی کریم ؐ کا ارشاد گرامی ہے: تمہارے خدمت گزار تمہارے بھائی ہیں، جنہیں اللہ تعالیٰ نے تمہارے ہاتھوں (قبضہ) میں دے دیا ہے، اس لیے جس کا بھائی اس کے قبضے میں ہو تو اسے وہی کھلائے جو خود کھاتا ہے اور اسے ویسا ہی پہنائے ،جیسا خود پہنتا ہے ،انہیں ایسے کام کی تکلیف نہ دو جو ان سے نہ ہو سکے اور اگر انہیں زحمت دو تو ان کی مدد کرو۔(صحیح بخاری)
آپ ؐنے ارشاد فرمایا، غلاموں (خادموں ، ملازموں ) کے ساتھ خوش خلقی کا برتائو کر نا برکت کا موجب ہے اور بد خلقی کا برتائو کر نا بے برکتی کا سبب ہے۔(سنن ابودائو )
خادم چونکہ وہ بھی انسان ہیں، ان کے بھی اہل وعیال ہیں، ان کی اپنی ذاتی ضروریات ہیں ، اس لئے ان کی اجرت اور محنتانہ کو وقت مقررہ پر ادا کریں، ٹال مٹول نہ کریں،نبی کریم ؐ نے اجرت اور محنتانہ کی ادائیگی بعجلت ادا کرنے کو یوں فرمایا:مزدور کی اجرت اس کا پسینہ خشک ہونے سے پہلےدے دو ۔(سنن ابن ماجہ) مطلب یہ ہے کہ کام کی تکمیل پر یا وقتِ مقررہ پر اجرت کی ادائیگی کا اہتمام کیاجائے ۔
اجرت کی ادائیگی میں ٹال مٹول پر نبی کریم ﷺنے سخت وعیدیں ارشاد فرمائی ہیں:آپ ؐنے فرمایا: تین شخص ایسے ہیں قیامت کے دن میں ان کا دشمن ہوں گا، ان میں سے ایک وہ شخص ہے جو کسی مزدور کو اجرت پر رکھے ، اس سے پورا کام لے اور اسے اجرت نہ دے۔ (صحیح بخاری(: ساتھ ہی ساتھ کام کی مقدار بھی متعین ہونی چاہئے ، نہ کہ خادم اور مزدور سے اس کی وسعت اور طاقت سے زیادہ کام لے کراسے گراںبار اور بوجھل کردیاجائے ، اسی کو نبی کریم ؐنے فرمایا: غلام سے ایسا کام نہ لو جو ان کی طاقت اور قوت سے باہر ہو۔ مثلا ً اصول صحت کے اعتبار سےجن کاموں کو چھ گھنٹے کیا جاسکتا ہے، ان کے چھ گھنٹے اور جن کاموں کو آٹھ گھنٹے کیا جاسکتا ہے، ان ملازمین کوآٹھ گھنٹے کی ڈیوٹی ہوگی، مستقل ملازمین کے لئے ہفتہ میں ایک دن تعطیل اور رشتے داروں سے ملاقات کے لئے بھی رخصت ہونا چاہئے ۔(رد المحتار )
انسان غلطی کا پتلا ہے ، انسان ہونے کے ناطے اس سے غلطی سرزد ہوجائے تو اس سے درگزر سے کام لیا جائے ، نہ کہ اسے ہدفِ تنقید بنایاجائے اور اسے کھری کھری سنادی جائے ، ذرا ذرا سی معمولی معمولی سے غلطی پر اس کی گرفت کی جائے ۔ حضور نبی کریم ؐ کا عمل اس حوالے سے ہمارے لئے اُسوہ ٔ حسنہ اور روشن نمونہ ہے ۔اسی لئے نبی کریم ؐنے فرمایا: ’’ برتنوں کے ٹوٹنے پر اپنے خادموں کو نہ مارو، کیوں کہ تمہاری عمر کی طرح برتنوں کی بھی عمر ہوتی ہے ‘‘۔نبی کریم ؐ نے یہاں خادموں سے کسی غلطی کے سرزد ہونے پر انہیں مارنے پیٹنے پر تنبیہ فرمائی اور خود مخدوم کی تسلی کا سامان یوں فرمایا : اس سے کہا: تمہیں افسوس اس برتن کے ٹوٹنے پر نہیں کرناچاہئے کہ یہ برتن اپنی مدت عمر کے ختم پر ٹوٹ گیا ہے۔
حضرت ابن عمر ؓسے روایت ہے کہ ایک آدمی رسول اللہؐ کی خدمت میں حاضر ہوا اورعرض کیا کہ یا رسول اللہؐ ! اپنے خادم کی غلطیاں کس حد تک ہمیں معاف کرنی چاہییں ؟ اس نے دو مرتبہ پوچھا: آپ ﷺنے خاموشی اختیار کی ، پھر جب اس نے تیسری مرتبہ عرض کیا تو آپ ؐنے فرمایا : ہر روز ستر مرتبہ۔ (سنن ابوداؤد(: خدام سے اگر غلطی سرزد ہوجائے تو واقعی غلطی پر انہیں تنبیہ کی جاسکتی ہے، لیکن تنبیہ کا انداز یوں ہو کہ اس کی اصلاح بھی ہوجائے اور اسے تکلیف بھی نہ ہو، چہرے یا نازک جگہوں پر نہ مارے۔(کنزالعمال )
آج ہماری صورت حال یہ ہے کہ ہم جب خادموںسے کوئی غلطی سرزد ہوجاتی ہے تو عفو ودرگزر تو دور کا رہا، ہم اسے طعن وتشنیع کا نشانہ بناتے ، زدوکوب کرتے ہیں ، پھر تھوڑی دیر بعد اسی سے خدمت لیتے ہیں ، یہ کہاں کا انصاف ہے کہ ہم اسے ماریں بھی ،پھر تھوڑی دیر بعد اس سے خدمت کے بھی خواہاں ہوں۔ وہ بھی انسان ہے بشر ہے ، اس کے بھی جذبات ہیں، وہ بھی اپنے دل میں درد اور کسک رکھتا ہے ، اس کے دل کو ٹیس پہنچتی ہے ، اس کاجسم بھی درد محسوس کرتا ہے۔ انسان ہونے کے ناطے اس کے ساتھ حسن سلوک روا رکھیے ۔
بہت سارے گھروں میں خادم اور خادمائیں کام کرتے ہیں ، محنت وجستجو سے ، گرمی کو سہہ کر ، آگ کی تپش کو برداشت کر کے وہ اپنے مالک اور اس کے اہل وعیال کے لئے لذیذ اور مزیدار مرغن غذائیں تیار کرتے ہیں، انہیں بھی اس میں کچھ ضرور کھلایئے ،انہیں بھی شریک طعام کرلیا کیجئے ،ورنہ کچھ نہ کچھ اس میں سے انہیں مرحمت کیجئے۔
خلاصہ یہ کہ خادموں کو حقیر نگاہ سے نہ دیکھا جائے ، ان کے ساتھ بھی بھلائی اور حتی المقدور مساوات اور برابری کا برتاؤ کیا جائے ، ان کی ضروریات اور حاجات کا خیال رکھا جائے ، ان کے کھانے پینے ،پہننے اوڑھنے کے نظم وانتظام کی بھی نگرانی رکھے ، ہوسکے تو جو کھانا خود کھائیں، وہ انہیں کھلائیں ،جو کپڑا خود پہنیں ،انہیں پہنائیں،کم ازکم انہیں اپنے ساتھ کچھ نہ کچھ کھلائیں ضرور، ان پر کاموں کا اس قدر بوجھ نہ ڈالیں جو ان کی ہمت اور طاقت سے باہر ہو۔
اگر وہ کسی مشقت آمیز کام میں مصروف ہوں تو ان کا ہاتھ بٹائیں ، انہیں ماریں نہیں ، انہیں برا بھلا نہ کہیں ،انہیں لعن طعن نہ کریں، ان پر لعنت وملامت کے تیر ونشتر نہ چلائیں، ان کی ہمت افزائی کریں،ان کی غلطیوں کو نظر انداز کریں ، ان کی عیب جوئی اور نکتہ چینی سے باز آئیں، انہیں برے اور حقیر القاب سے نہ پکاریں، انہیں دعاؤں سے نوازتے رہیں، ان کے لئے بد دعا نہ کریں۔ ان کا محنتانہ اور مزدوری وقت پر ادا کریں۔ اسلام کی یہ وہ روشن تعلیمات ہیں جو اسلام میں حقوق العباد کی عظمت واہمیت کو اجاگر کرنے کے ساتھ ساتھ اس حقیقت کی ترجمانی کرتی نظر آتی ہیں کہ اسلام احترام انسانیت کا علم بردار اور انسانی مساوات کی تعلیم دیتا ہے۔ اس حوالے سے اپنے خادموں، ملازموں اور ماتحتوں سے حسن سلوک اسلام کی بنیادی تعلیم ہے جسے کبھی فراموش نہیں کیا جاسکتا۔