لیہہ اورکرگل خودمختارپہاڑی ترقیاتی کونسلیں

سرینگر//کمپیٹرولر اینڈ آڈیٹر جنرل آف انڈیا کا کہنا ہے کہ لیہہ اور کرگل اضلاع کیلئے لداخ خود مختار پہاڑی ترقیاتی کونسلیں اپنے قیام کے بعد سے ہی آڈٹ کے لئے کھاتوں کو پیش کرنے میں ناکام رہی ہیں، جو ایک ’’سنگین مالی بے ضابطگی‘‘ہے۔کیگ کا کہنا ہے کہ جموں و کشمیر میں 8 دیگر خود مختار اداروں بشمول شیر کشمیر یونیورسٹی برائے زرعی سائنس وٹیکنالوجی (کشمیر اور جموں)کے دونوں ونگ ، جموں و کشمیرریاستی ہاؤسنگ بورڈ اور ریاستی قانونی خدمات اتھارٹی ،کی آڈٹ رپورٹس بھی کئی سال سے التواء میں ہیں۔CAGنے حال ہی میں پارلیمنٹ میں  پیش کردہ رپورٹ میں کہا ہے کہ لداخ خود مختار پہاڑی ترقیاتی کونسل  لیہہ اور لداخ خود مختار پہاڑی ترقیاتی کونسل کرگل سمیت 10 خود مختار اداروں کا آڈٹ ہونا ضروری ہے کیونکہ انہوں نے سالانہ اکاؤنٹس پیش نہیں کیے تھے۔جموں وکشمیر کو اگست 2019 میں دو مرکزی زیرانتظام علاقوں جموں و کشمیر اور لداخ میں تقسیم کیا گیا تھا۔’سی اے جی نے کہا کہ لداخ خود مختار پہاڑی ترقیاتی کونسل ، لیہہ اپنے قیام 1995-96کے بعد سے ہی آڈٹ کے لئے اکاؤنٹ جمع کروانے میں ناکام رہی ہے حالانکہ کونسل کو کافی فنڈز جاری کئے جارہے ہیں اور سال کے آخر میں غیر تصرف بقایاجات کو  ناقابل واپسی فنڈ والے پبلک اکاؤنٹ میں جمع کیا جاتا ہے۔کیگ کا کہنا ہے کہ پہاڑی ترقیاتی کونسل کرگل کے سلسلے میں جو 2004-5میں معرض وجود میں آیا جو پوزیشن اس وقت تھی وہی آج بھی ہیں اور شروع سے ہی اس کے اکاؤنٹس بقایا ہیں۔ اس بیان میں کہا گیا ہے کہ ان اداروں کوریاستی بجٹ سے خاطر خواہ مالی اعانت وصول کرتی ہے۔ کے ذریعہ اکاؤنٹ پیش کرنے میں تاخیر ایک سنگین مالی بے ضابطگی ہے جو برسوں سے جاری ہے۔سی اے جی کا کہنا ہے کہ لداخ خود مختار پہاڑی ترقیاتی کونسل کو 2018-19میں 546.24 کروڑ روپے کی گرانٹ ملی ، جبکہ اسی مالی سال کے دوران  لداخ خود مختار پہاڑی ترقیاتی کونسل کرگل کو 597.95 کروڑ روپے ملے۔انہوں نے کہا کہ اس عدم تعمیل کے پیش نظر ، ان قانونی اداروں کے آڈٹ شدہ اکاؤنٹس ابھی تک ریاستی قانون سازیہ کے سامنے پیش نہیں کیے جاسکے ہیں جس قانون کے تحت یہ قانونی ادارے تشکیل میں لائے گئے تھے۔ اس سے ریاستی  قانون سازیہ کو ان کی مالی کارکردگی اور سرگرمیوں کا اندازہ کرنے کے مواقع سے محروم کردیا گیا ہے۔کیگ کا کہنا ہے کہ معاوضہ برائے شجر کاری منیجمنٹ اور منصوبہ بندی اتھارٹی (کمپنسیٹری انوسٹریشن مینجمنٹ اینڈ پلاننگ اتھارٹی جے اینڈ کے) ،جسکو2018-19میںکوئی بھی اعانت  نہیں دی گئی،تاہم یہ ادارہ گزشتہ10برسوں سے اپنے کھاتے کیگ کے سامنے پیش کرنے میں ناکام ہوگیا۔ رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ زرعی یونیورسٹی (کشمیر) کے آڈٹ کے اکاؤنٹس نو سالوں سے زیر التوا ہیں حالانکہ اسے 2018-19میں 228.60 کروڑ روپے کی گرانٹ ملی تھی اور اسی طرح ، زرعی یونیورسٹی (جموں) کو جو 2018-19میں 101 کروڑ روپے کی گرانٹ ملی تھی ، تین سال تک اپنا اکاؤنٹ پیش کرنے میں ناکام رہا۔سی اے جی نے کہا کہ اسٹیٹ لیگل سروس اتھارٹی کو 2018-19میں 12.48 کروڑ روپئے کی گرانٹ ملی ، لیکن وہ اپنے اکاؤنٹ آڈٹ کے لئے پیش کرنے میں ناکام رہی ، جبکہ کھادی اور ولیج انڈسٹریز بورڈ کو 2018-19میں 23 کروڑ روپے کی گرانٹ ملی اور اس کے اکاؤنٹ کی تفصیلات چار سال سے یر التواء ہیں۔اس رپورٹ میں مزید کہا گیا ہے کہ جن اداروں نے آڈٹ کے لئے اپنے اکاؤنٹ جمع نہیں کروائے ان میں جموں و کشمیر اسٹیٹ ہاؤسنگ بورڈ (سات سال) ، بلڈنگ اور دیگر تعمیراتی ورکرز ویلفیئر بورڈ (چھ سال) اور ملازمین پروویڈنٹ فنڈ بورڈ ، سری نگر (چار سال) شامل ہیں۔ کیگ کے مطابق ان میں سے کسی کو بھی 2018-19کے دوران کوئی گرانٹ نہیں ملا ہے۔