شام کے دارالحکومت دمشق کے قریب ہی غوطہ کا قصبہ اور دریائے بردی نظر آتے ہیں۔ یہ شاداب علاقہ ہے۔ اب ہر لمحہ یہاں آتش و آہن کی برسات جاری ہے اوریہاں کے مظلوم باسی اب انسانیت سے اتنے مایوس ہیں کہ اُن کا کہنا ہے کہ وہ بس اب موت کا انتظار کررہے ہیں۔انسانی دنیا دکھ درد پر تڑپتے والا دل کھوچکی ہے۔ تقریباً سو مربع کلو میٹر کے علاقے میں پانچ لاکھ کے قریب لوگ محصور ہیں۔ اشیائے خوردونوش کی قلت ہے۔ حد یہ کہ اگر کسی ملک یا کسی ادارے نے ان مصیبت زدوں کے لئے کچھ ایشائے خوردنوش بھیج دے تواُس پر بشاری فوج پل پڑتی ہے اور اسے متاثرین تک پہنچنے نہیں دیتی ۔اس قیامت صغریٰ کے عالم میں بھی قابضین یہاں کی عفت مآب خواتین کی بھوک و گرسنگی کا ناجائزفائدہ اُٹھا کر اُن کا جنسی استحصال کرنے سے بھی نہیں ہچکچاتے ۔اس نوع کی اطلاعات حساس لوگوں کی نیند یں اڑا دیتی ہیں۔ بہت سارے امدادی کارکنوں نے BBC کو بتا یا کہ کہ امدادی اداروں میں جنسی استحصال اس حد تک بڑھ گیا ہے کہ بھوک و کرب سے نڈھال خواتین وہاں جانے سے کتراتی ہیں۔ ابھی چند روز پہلے سوشل میڈیا پر وائرل ہونے ولی اُن تصاویر نے ہر سُو صف ِماتم بچھادی جن میں اس جنگ زدہ شہر کے کئی ایک مصیبت زدہ محاصرہ توڑ کرقافلوں کی صورت میں ریگستان کے راستے اردن جاتے ہوئے دیکھے جاتے ہیں۔ اسی اُردن کی جانب جہاں اس سے پہلے ہی دس لاکھ شامی پناہ گرینوں کی حیثیت سے زندگی گذار رہے ہیں۔ ریگستانوں سے گذرتے ہوئے ان لٹے پٹے قافلوں سے کلی طور الگ ، تنہائی او ربے بسی کے عالم میں ایک چار سالہ بچہ بھی نامعلوم منزل کی جانب رواں دواں ہے ، خطرات سے نامانوس یہ معصوم کلی یہ تک نہیں جانتی کہ کہاں اور کس کے پاس جارہا ہے۔ بچے کا نام مروان ہے۔غوطہ کی اِن قیامت خیز یوں میں وہ اپنے والدین اور بہن بھائیوں کو کھوچکا ہے، بے بسی اور بے کسی کی اس سے بڑھ کر ہولناک اور کیا تصویر ہوسکتی ہے کہ کوئی اس معصوم کے آنسو پونچھنے والا بھی باقی نہیں رہا ۔ دلاسا دینے والا تو دور اُس کا اپناکوئی ہاتھ پکڑنے والا بھی درماندگی کے عالم میں نہیں ۔ یہ معصوم دنیا کی ہر شئے سے بے نیاز اور ہرجانب سے خوف زدہ ہوکر اکیلے اپنا راستہ بنا رہاتھا۔ خراماں خراماں جارہا ں تھا اور ہاتھ میں ایک تھیلا لئے آسمان کی جانب دیکھ رہا تھا کہ اب نصرتِ خداوندی عالم بالا سے ہی آسکتی ہے، آنسووں سے تر اُس کی آنکھیں پژمردہ چہرہ، کپکپاتی ٹانگیں دنیائے انسانیت کی حمیت و غیرت کو پکار رہی تھیں لیکن کون اس کی شنوائی کرے۔ویڈیوکیمرہ نے اُس کی حالت ِزار کی عکس بندی کی اور پھر جب یہ تصویر وائرل ہوئی تو انسانی دِل پاش پاش ہوکررہ گئے لیکن خون کا سوداگر ی سے اپنے اقتدار کو دوام بخشنے والا بشار الاسد ، روس ، امریکہ اور دیگر نادیدہ ہاتھ شاید اپنی بہادری پر اترا رہے ہوں گے کہ کس طرح مروان معصوم کو بے موت مار دیا ۔ جبUNO کی ایک ٹیم نے اس معسوم ومظلوم بچے کوروک کر پوچھا : بیٹا اس بیگ میں کیا ہے تو ننھے نے ہر سننے والے کا دل یہ کہہ کر پارہ پارہ کردیا کہ اِس میں ماما پا پا کے کپڑے ہیں اور بہنا کے بھی۔۔۔ کتنا کرب چھپاہے ان الفاظ؟؟؟ یہ کوئی صاحب ِاولاد ہی جان سکتا ہے ۔ بچہ کو اللہ کو بچانا ہو تو آتش و آہن کی بارشوں میں بچا سکتا ہے لیکن ان سفاک لوگوں کو جو ہوس ملک گیری اور اپنی سلطانی کو قائم رکھنے کے لئے شام میں خوں آشامیوں کے ذمہ دار ہیں کیا وہ اللہ کا یہ حکم نہیں سن چکے کہ یہ زمین میں کیوں نہیں پھرتے اور دیکھتے کہ ان سے پہلے ہی بہت سارے لوگ اِس دنیا میں آئے اور اُن کا کہنا تھا کہ اُن سے زیادہ اس دنیا میں کوئی قوت و طاقت والا نہیں [القرآن ] لیکن آج اُن کا سر غرور کہاں؟ وہ تخت تاج کہاں ؟ وہ عیش و نشاط ، محلات ہٹوبچو کی صدائیں نابود ہیں، فرشی سلامیں کہاں ہیں ؟ مٹی میں مل کے مٹی ہیں ۔آج بھی انسانیت اُن کا نام جب سنتی ہے تو ماتھے پر بل پڑجاتے ہیں۔ عاقل و دانش مند تو وہی لوگ ہیں تو حاکم و محکوم دونوں صورتوں میں آخرت کی جواب دہی کے احساس سے لرزاں ہوں اور خلق خدا کے لئے وہ سراپا شفقت و رافت ثابت ہوتے ہوں، بہرحال بچہ پر یو این او کی ٹیم کی نگاہ پڑی اُسے اپنی تحویل میں لیا مگر یہ محض ایک مروان نہیں بلکہ ہزاروں مروان اسی شام میں بلک بلک کررو رہے ہیں کہ اُن کے والدین سمیت اُن کے سبھی قرباء اِن دنیاکو دنیا میں یکہ و تنہا چھوڑ چکے ہیں۔ تصویر کا ایک اور رُخ بھی دیکھئے۔ بات اِن ستم رسیدوں بچوں کی چلی تو اسی شام میں اسی نوع کی مصیبت کے شکار ایک او رننھے منے کو دیکھئے ،وہ بھی اپنا سب کچھ کھوچکا ہے، عمر زیادہ سے زیادہ دوبرس کی ہوگی، پتہ نہیں پلیٹ میں کچھ کھانے کا دال چاول رکھا ہے کہ اسی اثناء میں ایک فوٹو گرافر اُس کی تصویر لینے کی کوشش کررہا ہے لیکن دنیا ئے انسانیت یہ دیکھ کر دنگ رہی کہ بچے کی اُس جانب جب نظر گئی تو بھوک سے نڈھال اس معصوم کے ہاتھ میں جو کھانے کا لقمہ تھا وہ اُس کیمرہ مین کی جانب بڑھا رہا ہے کہ پہلے وہ کھائے ۔یہ اور ایسے مناظر دِلوں کی دنیا کو تہہ و بالا کرکے رکھ دیتے ہیں۔
کہاں اسلام کا یہ درس شریں کہ اپنے دشمنوں تک سے جنگ کے دوران اس بات کا بطور خاص خیال رکھنا کہ آپ کے ہاتھ کی زد میں کوئی درخت ، شاداب زمین اور پھل پھول نہ آئیں، قابل کاشت زمین کو نقصان نہ پہنچے، کوئی عورت یا بوڑھا، معصوم بچہ تمہارا نشانہ نہ بنے بلکہ یہ تاکید ی حکم ہے کہ کسی معصوم بچے پر تمہارا ہاتھ نہ اُٹھے، اُدھر یہ احکام ہیں اور ادھر شام، لبنان، کشمیر اور فلسطین کس طرح بے گناہ لوگوں پر آتش و آہن کی یورشیں جاری ہیں اور دنیا کھلی آنکھوں سے دیکھ رہی ہے مگر مصلحتوں او رمفادات کے دائرے میں محصور زیادہ سے زیادہ بیان بازیوں کی مرہم پٹی کررہی ہے اور عملی امداد کے لئے کوئی آگے نہیں آتا!!!کیا معصوم مروان کو دیکھ کر کوئی مسیحا کوئی حاتم سامنے آئے گا ؟۔