بانہال// لکھنو کے ایک کنبے کا کشمیر سفر کے دوران لاپتہ ہونے کا معاملہ ایک دردناک کہانی پر اختتام پذیر ہوا ہے اور اس کنبے کا سفاکانہ قتل لکھنو میں ان کے بڑے بیٹے نے کیا ، حالانکہ مہلوکین کبھی سیر وتفریح کیلئے جموں و کشمیر آئے ہی نہیں تھے۔ اپنے والدین اور چھوٹے بھائی کے مبینہ قاتل سرفراز خان نے رشتہ داروں اور پولیس سمیت دیگر ایجنسیوں کو گمراہ کرنے کیلئے ان کے کشمیر سفر کے دوران ان سے کوئی رابطہ نہ ہونے اور ان کے دوران لاپتہ ہونے کی ایک الگ کہانی بنائی اور لکھنو میں قتل کرکے مرحوم والد کے فون سے واٹس ایپ کے ذریعے رشتہ داروں سے چیٹنگ کی ۔ رشتہ داروں نے مبینہ لاپتہ افراد کی شناخت محمود علی خان (65)اسکی اہلیہ درخشاں اختر(52)اور بیٹاشاویز خان (26) کے طور پر کی ہے ۔16جنوری کو رام بن سے تعلق رکھنے والے سینئر صحافی رحمتہ اللہ رونیال نے مہلوک کنبے کے تین افراد کی تصاویر کے ساتھ ان کے جموں کشمیر کے سفر کے دوران ان سے رابطہ منقطع ہونے کے بارے میں فیس بک پر ایک پیغام تحریر کیا۔اس میں انہوں نے مہلوک محمود علی خان کے قریبی رشتہ دار محمد سلیم خان کا حوالہ دیا تھا، جو اتفاق سے رونیال کے دوست ہیں ۔ فیس بک پوسٹ وائرل ہوا اور اس کے بعد رامسو پولیس ، ایس ڈی آر ایف ، کیو آر ٹی رامسو اور بانہال والنٹیرز نے شاہراہ کے ساتھ ساتھ زبردست تلاشی کاروائیاں کیں انہیں اس سیکٹر سے مسافر گاڑی سمیت کنبے کے لاپتہ ہونے کے کوئی آثار نہیں ملے اور یوں بھی رامسو بانہال سیکٹر میں کوئی گاڑی حادثہ کے شکار ہونے کے بعد نظروں میں نہ آنا ناممکن ہے۔ رونیال نے کشمیر عظمیٰ سے بات کرتے ہوئے کہا کہ 16 فروری کو میرے دوست محمد سلیم خان نے مجھے بتایا کہ انکی سالی ، ان کے شوہر اور ان کا بیٹا کشمیر کی سیر و تفریح کے سفر پر گئے ہیں لیکن ان سے کوئی رابطہ نہیں ہے۔ لکھنو سے سلیم خان نے انہیں مزید بتایا کہ 14 جنوری کو مہلوک محمود علی خان کے فون سے لکھنو میں اپنے رشتہ داروں کو کئی واٹس ایپ مسیج کئے گئے ہیں اور یہ مسیجز محمود علی خان کے ساتھ گھر سے سفر پر نکلے چھوٹے بیٹے شاہویز خان کی طرف سے کی گئی تھیں ۔ ان مسیجز میں وہ لکھتا ہے کہ پاپا کی طبیعت بہت خراب ہے اور لینڈ سلائیڈنگ کی وجہ سے ایک ہی جگہ اٹک گئے ہیں۔ رونیال نے محمود علی خان کے رشتہ دار اور دوست سلیم خان کا حوالہ دیتے ہوئے کہا کہ دراصل باپ بیٹے اور بھائی کے قتل کی لرزہ خیز داستان 5 جنوری 2022 کو اسی دن انجام دی گئی تھی جس دن مہلوکین کو مبینہ سیر و تفریح کیلئے جموں کیلئے لکھنوسے ریل گاڑی پکڑنی تھی۔ انہوں نے کہا کہ کشمیر جانے کے بجائے انہیں اپنے بیٹے سرفراز نے لکھنو میں ہی قتل کر ڈالا اور تینوں لاشوں کو ایک ایک کرکے ٹھکانے لگایا گیا تھا ۔ انہوں نے کہا کہ لکھنو پولیس کو ابتدائی تفتیش سے پتہ چلا کہ ملزم سرفراز خان نے لاشوں کو ٹھکانے لگانے کے بعد پولیس اور خاندان کے دیگر رشتہ داروں کو گمراہ کرنے کے بجائے ایک گہری سازش کی اور قاتل سرفراز نے اپنے والد محمود خان کے فون سے بظاہر اپنا چھوٹا بھائی شاہویز بن کر واٹس ایپ مسیجز کئے جس میں لینڈ سلائیڈنگ کی وجہ سے شاہراہ پر پھنس جانے اور والد کی طبیعت بہت خراب ہونے کی باتیں اور کچھ فوٹو پوسٹ کئے گئے تھے ۔ انہوں نے کہا کہ اس کے علاہ جو مسیجز لکھے گئے تھے ان میں لکھا تھا کہ کشمیر نہیں پہنچے ،یہاں پھنس گئے ہیں، SIM بیکار ہے اور کسی مسافر سے ہاٹ سپاٹ لیکر مسیجز بھیج رہا ہوں اور ہاٹ سپاٹ والے کی بیٹری بھی ختم ہونے والی ہے۔ 14 جنوری کو کی گئی ان مسیجز سے معلوم ہوتا ہے کہ قاتل اب فون کو تاحیات بند کر دینا چاہتا تھا اور غالباً شاہویز کی طرف سے اپنی بہن کو کی گئی ان مسیجز میں والد کی تکلیف ، نیٹ ورک کی کمی کا بہانہ جوڑا گیا تاکہ اب فون کو بند رکھکر اس باب کو بن کیاجائے لیکن اترپریش پولیس نے قتل کا معمہ حل کیا۔ انہوں نے کہا کہ لکھنو میں تین لاوارث لاشوں کے ملنے اور مہلوکین کی مسلسل گمشدگی اور رام بن ضلع میں شاہراہ کے ساتھ ان کی تلاش اور تینوں کی وائرل ہوئی تصاویر کی کڑیاں جڑ جانے کے بعد پولیس نے ملزم سرفراز خان کو اترپریش پولیس نے اپنے والدین اور بھائی کے قتل کے الزام میں گرفتار کیا۔ بتایا جاتا ہے کہ جرم کی اس لرزہ خیز داستان کے پیچھے جائیداد کی ہوس ہے جو ایک کنبے کی مکمل تباہی کا باعث بن گئی ہے۔