لکڑی پر نقش نگاری کا منفرد کشمیری فن زوال پذیر ہونے کے قریب

سرینگر//لکڑی کی نقاشی پتھر کے زمانے سے آرٹ کی قدیم ترین شکلوں میں سے ایک ہے ۔پہلے پہل ہندوستان سے لکڑی کی دستکاری اپنی خوبصورتی اور پائیداری کی وجہ سے پوری دنیا میں مشہور رہی،جسے مندر کے فن اور محلات کو سجانے کے ایک ذریعہ کے طور پر کیا جاتاتھا۔ وقت کے ساتھ ساتھ لکڑی کے نقش و نگار کے مختلف پہلو اپنے الگ انداز اور نمونوں کے ساتھ ابھرے اور کشمیر ان سب میں سب سے مشہور ہے۔کشمیر اسکے روایتی اور حیران کن دستکاری کیلئے اپنا کوئی ثانی نہیں رکھتا۔ وادی میں دستکاری کے متعارف ہونے کے بارے میں کہا جاتا ہے کہ میر سید علی ہمدان ؒنے جب پہلی بار کشمیر کا دورہ کیاتو لوگوں کی معاشی حالت دیکھ کر مایوس اور پریشان ہوئے۔ کشمیریوں کو غربت سے نکالنے کے لیے شاہ ہمدانؒ نے ایران سے700کاریگروں کو لاکر پوری وادی میں پھیلایا اور لوگوں کودستکاری کی ہنرسکھائی، جن میں اخروٹ کی لکڑی کی تراشی ایک حصہ تھی۔ اخروٹ کی لکڑی پر نقش و نگار ایک آرائشی اور نازک دستکاری کا عمل ہے جو اس خطے میں اخروٹ کے درختوںکی بڑی تعداد کی وجہ سے منفرد ہے۔یہ بھی کہا جارہا ہے کہ بعد میں اخروٹ کے لکڑی کی نقش و نگاری کو شیخ حمزہ مخدومؒ نے 15ویں صدی میں زین العابدین کے دور میں متعارف کرایا۔ وادی کے معاشی حالات کو بہتر بنانے کے لیے اس فن کو بادشاہوں نے بھی فروغ دیا۔ یہ دستکاری شروع میں وسیع محلات اور مکانات کی تخلیق تک محدود تھی۔ تاریخ میں زین العابدین کے عظیم رازدانی محل کی لکڑی کے نقش و نگار کو ریکارڈ کیا گیا ہے۔ کشمیر میں پیچیدہ تراشی ہوئی عمارتوں، مزاروں اور مقبروں کی کئی عمدہ مثالیں اب بھی باقی ہیں۔ اخروٹ کی تراش خراش کو (GI) ٹیگ کے تحت تحفظ دیا گیا ہے۔ یہ حکومت ہند کے جی آئی ایکٹ 1999 کے "کشمیر اخروٹ ووڈ کارونگ" کے بطور آئٹم 182 میں درج ہے جس کی تصدیق ٹریڈ مارکس کے کنٹرولر جنرل کے ذریعہ کی گئی ہے۔اخروٹ کی لکڑی کا کام کشمیر کی سب سے اہم دستکاریوں میں سے ہے۔ اخروٹ کے درخت کی لکڑی انتہائی سخت اور پائیدار ہوتی ہے۔یہ انتہائی مشکل کام ہوتا ہے لیکن کشمیری کاریگر پیچیدہ اور متنوع ڈیزائن تراشنے میں خوش ہیں۔ چھتوں، محرابوں اور دروازے کیلئے آرائشی لکڑی کے پینل کشمیر کے خاص دستکاریوں میں سے ایک ہیں، جسے خاتمبند کہا جاتا ہے۔ کئی دیگر مصنوعات جیسے کھلونے، پیالے، تھالیاں، زیورات کے ڈبے، دیوار کی تختیاں اور ٹیبل لیمپ، پلنگوں اور پیچیدہ نقش نگاری کے ساتھ فرنیچر کی بڑی چیزیں بھی تیار کی جاتی ہیں،جس میں اعلیٰ درجے کی مہارت ہونی چاہیے۔اخروٹ پر کی گئی باریک نقش و نگاری بہت ہی نفیس اور حتمی مہارت کا ثبوت ہوتا ہے اور اسکی خوبصورتی کا کوئی ثانی نہیںہے۔لکڑی کی نقاشی کا فن کا مرکز سری نگر شہر ہے۔ سرینگر کے ڈاون ٹاؤن علاقے میں اخروٹ کی لکڑی کے ورکشاپ نظر آتے ہیں جہاں کاریگر، اپنی نقش و نگار کی مہارت کے لیے مشہور، لکڑی پر جھکتے، چھینی اور پالش کرتے ہیں۔ لیکن کئی برسوں سے اخروٹ کی لکڑی سے تراشنے والے کاریگروں کو بہت سے مسائل کا سامنا ہے۔ جیسے دستکاری کا کام انکے لئے روزی روٹی مکمل طور پر مہیا نہیں کررہا ہے۔اس لیے مقامی کاریگروں کے لیے دستکاری کی مشق کو جاری رکھنا بہت مشکل ہوتا جا رہا ہے اور ساتھ ہی، کاریگر دستکاری کے مستقبل کے لیے پریشان ہیں۔ کشمیر میں اخروٹ کی تراش خراش میں تربیت حاصل کرنے والوں کی کم ہوتی ہوئی تعداد اور فعال کاریگروں کی کم تعداد کے ساتھ، موجودہ کاریگروں کے لیے لکڑی سے تراشی ہوئی مصنوعات کی مانگ کو پورا کرنا مشکل ہے۔ بڑھتی ہوئی مانگ کو پورا کرنے کے لیے، کشمیر کے تاجر سہارنپور میں لکڑی کی تراشی کے کاریگروں سے طلب اور رسد کے درمیان خلا کو پر کرتے ہیں۔ وادی میںلکڑی پر نقش نگاری کرنے والوں میں’’ ڈبلہ ‘‘ نام سے مشہور روف بٹ نے کشمیر عظمیٰ کو بتایا کہ نقش نگاری کرنے والے مزدوروں و ملازمین کو دن میں 500روپے کی اجرت ملتی ہے جس سے انکے گھریلو اخراجات پورے ہونا نا ممکن ہے۔انکا کہنا ہے کہ یہی وجہ ہے کہ لکڑی پر باریک نقش نگاری کرنے والے کاریگر نایاب ہورہے ہیں۔محکمہ ہنڈی کرافٹس کے اسسٹنٹ ڈائریکٹر شارق اقبال لون نے بتایا کہ مشین سے بنی چیزوں کو مارکیٹ میں آنے سے نہیں روکا جاسکتا ۔ انہوں نے کہا کہ اس فن سے وابستہ کاریگروں کو ڈیجیٹل مارکیٹنگ میں رہنمائی کی جارہی ہے، نیز کاریگروں کیلئے مختلف سکیمیں بھی رائج کی گئی ہیں۔نہوں نے کہا کہ ڈیجیٹل مارکیٹنگ کیلئے GEMکی رجسٹریشن کی ضرورت ہوتی ہے اور اس رجسٹریشن کو کرنے میں محکمہ ہنڈی کرافٹس رجسٹریشن فیس پر 50فیصد سبسڈی دیتا ہے۔ انہوں نے کہا کہ ڈیجیٹل پلیٹ فارموں فیس بک، وٹس ایپ اور دیگر ویب گاہوں پر اپنے  چیزوں کی مارکیٹنگ کرنے سے کافی فائدہ ہوتا ہے اور کئی کارخانہ دار ایسا کرتے ہیں۔