خطہ پیر پنچال کی تعمیروترقی اور اس خطے کے وادی کشمیر کے ساتھ روابط کیلئے مغل شاہراہ کے بعد لورن ۔ٹنگمرگ سڑک کوخاصی اہمیت کی نگاہ سے دیکھاجارہاہے لیکن یہ اہم پروجیکٹ سست روی کاشکار بن کر رہ گیاہے اور اس کی موجودہ رفتار کو دیکھ کر ایسا لگتاہے کہ اسکی تکمیل میں ابھی برسہابرس درکار ہوں گے۔42کلو میٹر لورن ۔ٹنگمرگ سڑک کی تکمیل کا اگرچہ بارڈر روڈ آرگنائزیشن نے 2018ہدف رکھاہے لیکن حقیقت حال یہ ہے کہ ابھی تک دو سال میں صرف 9کلو میٹر کاکام ہی ہوسکاہے ۔اب ایک سال کے اندر مزید 33کلو میٹر کا کام ہوپانا مشکل ہی نہیں بلکہ ناممکن بھی ہے ۔واضح رہے کہ اس روڈ کا سنگ بنیاد سال 2015 میں اس وقت کے وزیر اعلیٰ مرحوم مفتی محمد سعید نے رکھاتھاجس کے ساتھ ہی تعمیری کام شروع کردیاگیا اوراس پروجیکٹ کو 2018 میں مکمل کرنے کا ہدف طے ہوالیکن دو سال میںبمشکل 9کلو میٹرحصہ ہی تیار ہو پایا۔اس سڑک کی تعمیر سے قبل ریاستی حکومت نے خطہ پیر پنچال کو وادی سے جوڑنے کے لئے مغل شاہراہ کی تعمیر عمل میں لائی لیکن لورن ٹنگمرگ سڑک مغل شاہراہ سے بھی کم مسافت والی روڈہے اوراس کا ایک فائدہ یہ بھی رہے گاکہ یہ سال کے بیشتر حصہ میں قابل آمدرفت ہوگا۔خیال رہے کہ مغل شاہراہ موسم سرما کے دوران برفباری کے باعث کم از کم چار سے پانچ ماہ بند رہتی ہے جس دوران خطہ پیر پنچال کے لوگوں کو کشمیر پہنچنے کیلئے جموں کار استہ اختیار کرناپڑتاہے جو نہ صرف طویل اور تھکادینے والاسفر ہے بلکہ اس پر ہزاروں روپے خرچ ہوتے ہیں اور قیمتی وقت بھی صرف ہوتاہے ۔یہ روڈ جہاں حویلی ، منڈی اور دیگر علاقوں کے لوگوں کیلئے کشمیر پہنچنے کی خاطر سب سے آسان اور کم مسافت والا راستہ بنے گاوہیںاس سے نئے نئے سیاحتی مقامات کی بھی نشاندہی ہوگی اور اس طرح سے سیاحتی ترقی کےساتھ اس سڑک سےمنسلک دور دراز مقامات میں روزگار کے نئے مواقع پید اہوںگے ۔مغل روڈ کی طرح اس کی تعمیر بھی خطے کی اقتصادی و سماجی ترقی میں نئےابواب کا اضافہ کرے گی ۔سب سے اہم بات یہ ہے کہ مغل شاہراہ کی بہ نسبت لورن ۔ٹنگمرگ سڑک موسم سرما کے دوران بہت کم عرصہ بند رہے گی اور خطے کے لوگوںکو آنے جانے میں زیادہ دقت پیش نہیں آئے گی۔یہاں مغل شاہراہ کی اہمیت سے انکار نہیں کیاجاسکتا،جس کی اپنی ایک تاریخ اور پہچان ہے، لیکن لورن ۔ٹنگمرگ سڑک کی تعمیر بھی ناگزیر ہےجو ترقی کے نئے دروازے کھولنے پر منتج ہوگی۔اگرچہ حکام کا دعویٰ ہے کہ کام میں سست روی کی وجہ سڑک کا مشکل حصہ ہے اور اب آگے کے کام میں اتنا زیادہ وقت نہیں لگے گاکیونکہ اگلا حصہ تعمیری لحاظ سے آسان ہوگاتاہم علاقہ کتنا بھی دشوار گزار کیوں نہ ہو ، دو سال میں صرف نو کلو میٹر کی تعمیر سے یہ خیال کیاجاسکتاہے کہ کام کی رفتار بہت ہی سست رہی ہے ۔ضرورت اس بات کی ہے کہ اس اہم اور وقاری پروجیکٹ کی رفتاری میں سرعت لائی جائے اور کم سے کم وقت میں اس کی تکمیل کو یقینی بنایاجائے ۔