بچپن میں جب دادی اماں سے کہانیاں سنتے سنتے پریشان ہو گئی تو ایک دن معصومیت سے دریافت کیا :.یہ کہانیاں آتی کہاں سے ہیں ؟
— پرستان سے ..
— پرستان ؟
— ہاں .یہاں پریاں رہتی ہیں ..پریاں روز مجھے تمہیں سنانے کے لئے نئی نئی کہانیاں بھیجتی ہیں ..
دادی اماں کو گزرے ہوئے زمانہ ہو گیا ۔وقت نے لمبی چھلانگ لگائی ،پھر وہ دن بھی آیا جب میں کہانیوں کی دنیا میں داخل ہو گی ۔پرستان کا خیال کبھی کبھی آتا تو ہونٹوں پر مسکراہٹ دوڑ جاتی ۔پھر دیکھتے ہی دیکھتے بیس پچیس برسوں میں ہماری ادبی دنیا کو بھی گہن لگ گیا ۔ہم مریخ پر جانے کی باتیں کرنے لگے اور ہماری ننھی سی دنیا سازش اور سیاست کی بھینٹ چڑھ گئی ۔بیس پچیس برسوں میں بار بار یہ سننے کو ملا کہ ہماری زبان بس کچھ دنوں کی مہمان ہے ،یہ زبان ختم ہو جائے گی لیکن نہ زبان ختم ہوئی نہ اس پیاری زبان کے چاہنے والوں میں کوئی کمی آئی بلکہ پچھلے کچھ برسوں میں اردو کے لئے فروغ کی کوششوں کو دیکھ کر احساس ہوتا ہے کہ یہ خبر کسی دشمن نے اڑائی ہوگی ،اردو شان سے زندہ ہے اور اردو زبان سے جنوں کی حد تک محبت کرنے والے کبھی بھی اس زبان کو مرنے نہیں دیں گے ۔ممتاز شیخ کے رسالہ’’ لوح‘‘ کا شاندار تحفہ ملا تو وادی پرستان کی یاد تازہ ہو گئی ،دادی اماں کے الفاظ یاد آئے ،یہاں کہانیاں آباد ہیں ،پریاں ان کہانیوں کو بھیجا کرتی ہیں ۔اردو افسانے کے سو برس کے تاریخی سفر کو محفوظ کرنا کیا کوئی آسان کام ہے ؟ میاں فرہاد کا تیشہ اُٹھانا یاد آ گیا ، مجنوں ،رانجھے کے عشق کی کہانیوں نے دل پر دستک دی ،حسین بن منصور حلاج کا عشق خدا یاد آیا کہ خدا کی ذات کے سوا انھیں کچھ بھی منظور نہ تھا ،حضرت رومی اور ان کی مثنوی کے صفحات آنکھوں کے پردے پر روشن ہو گئے ۔حقیقت کے زمانے میں قدم رکھا تو دور حاضر کا فرہاد مانجھی یاد آ گیا ،جس نے بیوی کی محبت میں چٹانوں کو کاٹ کر سڑک تیار کر دی تھی ۔عشق کے ہزاروں افسانے لیکن ہر افسانے کی انتہا عشق ؎
عشق کی ایک جست نے طے کر دیا قصّہ تمام
اس زمین و آسمان کو بیکراں سمجھا تھا میں
’’لوح‘‘ کے مطالعہ سے گزری تو یہاں ایک پرستان آباد تھا ،عشق کی حیران کرنے والی دنیا سامنے تھی ۔جہاں رسائل دم توڑ رہے ہوں ،قارئین کی تعداد کم ہو گئی ہو ۔’’نقوش‘‘ ،’’نگار ‘‘جیسے رسائل کو بند ہوئے زمانہ ہو چکا ہو ،جہاں وسائل محدود ہوں ،وہاں صرف ایک شخص اپنی محنت سے تنہا اردو افسانوں کے سو برس کو کھنگال ڈالے ،انتخاب کی دشوار گزار راہوں سے گزرے پھر اس طویل سفر کو کئی ابواب اور خانوں میں تقسیم کرے اور ہر مرحلہ اس آسانی سے طے ہو کہ اردو زبان میں بکھرے افسانوں کو عشق کی ایک جست زور جادو سے’’ لوح ‘‘کے صفحات میں قید کر دے تو یہی خیال حاوی ہو جاتا ہے کہ عشق کی راہ میں کچھ بھی نا ممکن نہیں ….ہماری نیم وا آنکھوں کو ممتاز شیخ پہلے خواب سراب کی وادی میں لے گئے پھر اعلان کے چار پانچ ماہ بعد ہی خواب کی تعبیر کو سامنے رکھ دیا تو اسے عشق کا معجزہ ہی کہنا ہوگا ۔
میں ایسے موقع پر’’ لوح‘‘ کی باتیں کر رہی ہوں جب ایک دنیا پر خوف اور خطرے کے بادل منڈلا رہے ہیں ۔میری حالیہ نظم کا ایک ٹکرا ہے ؎
مارے جانے والے لوگ کسی بھی مذہب کے ہو سکتے ہیں
مارے جانے والے لوگوں کی صرف ایک ہی شناخت ہے کہ وہ مار دئے گئے
تاریخ کے بے رحم صفحوں پر مارنے والوں کی کوئی شناخت نہیں
لیکن ان کی شناخت کا راستہ اقتدار سے نوبل انعام تک جاتا ہے
اور یہ ایسی شناخت ہے جہاں تمام بڑی مچھلیاں ایک دوسرے کے ساتھ رقص میں مشغول ہیںتاریخ کے جدید صفحات پراب مارے جانے والوں کی نئی شناخت لکھ دی گی ہے
اب مذہب کا ڈی این اے بمباری کرنے والوں کے راستے کو آسان کر رہا ہے
روتے بلکتے ہوئے لوگوں کا ایک جم ِغفیر ہے
عالمی سیاست خامشی سے ان کی قبر تیار کرنے میں جٹی ہے
سیاست کے اداس صفحات پر
عالمی سیاست خاموشی سے انسانیت کی قبر تیار کرنے میں جٹی ہے
تہذیبوں اور زبانوں کو مارا جا رہا ہے ،اردو پر بھی خطرے کے بادل منڈلا رہے ہیں لیکن جب کوئی ایسا دستاویزی یا تاریخی شمارہ سامنے آتا ہے تو ہم دیر تک اس کے سحر میں گم خوف کی وادیوں سے دور نکل آتے ہیں کیونکہ ممتاز شیخ جیسے اردو سے محبت کرنے والے اس بات کا بھی احساس دلا دیتے ہیں کہ اردو زندہ ہے ،اردو کبھی مر نہیں سکتی ۔ ’’لوح ‘‘کے اس انتخاب میں سو افسانے شامل ہیں ۔موجودہ عہد کے اہم افسانہ نگاروں کو بھی شامل کیا گیا ہے ۔اردو کی عالمی بستی کے تمام بڑے افسانہ نگار اس تاریخی شمارے میں شامل ہیں ۔ایک مدت سے ایسے کسی بڑے انتخاب کی ضرورت محسوس کی جا رہی تھی ۔ممتاز شیخ نے ایک کارنامہ اور بھی کیا کہ فکشن پر کسی مضمون کو شامل نہیں کیا ۔ہمارے سامنے ہر دور کے افسانے رکھ دئے کہ نتیجہ ہم خود سے قائم کریں ،پیش لفظ اور آخری چند صفحات میں انہوں نے اپنے اردو افسانے کے سو سالہ سفر پر بے لاگ تبصرہ کیا ہے ۔ میں مانتی ہوں کہ ہمارے نقاد گروپ اور تحریکوں کے شکار رہے ہیں ۔ہر نقاد نے فکشن کے نام پر صرف اپنے پیمانے گڑھے ہیں ۔ اس لئے یہاں یہ آزادی ہے کہ ہم خود ہر دور کے جائزہ سے گزریں اور فکشن کے نقادوں کے گمراہ کن بیانات کو خارج کریں کہ اردو افسانہ کمزور ہے یا اردو میں اچھے افسانے نہیں لکھے جا رہے ۔اردو میں آج بھی اچھا ادب تخلیق ہو رہا ہے ۔ اس کے لئے ممتاز شیخ جیسی پارکھی نگاہ کا ہونا ضروری ہے ۔مجھے خوشی ہے کہ موجودہ عہد میں ہندوستان سے خواتین افسانہ نگاروں میں ذکیہ مشہدی کے ساتھ مجھے بھی شامل کیا گیا ہے ۔ یہ میرے لئے کسی ا عزاز سے کم نہیں ہے ۔ اردو افسانے نے آغاز سے اب تک ایک لمبا سفر طے کیا ہے ۔سوبرسوں کے اس سفر میں شامل کہانیوں میں آپ بدلتے وقت کی گونج بھی سن سکتے ہیں ،سیاسی و سماجی و ثقافتی سطح پر ہونے والے بدلاؤ کو بھی محسوس کر سکتے ہیں۔یہاں ہرکہانی اپنے وقت کا استعارہ ہے ۔ اس تاریخی اور دستاویزی شمارے کو اردو کے ہر عاشق کے پاس ہونا چاہیے ۔اس شمارہ کے مطالعہ کے بعد ایک بار پھر یہ کہہ سکتی ہوں ع
سارے جہاں میں دھوم ہماری زبان کی ہے
ڈی تاج انکلیو ، گیتا کالونی ،دلی
����