لمبی جدائی

’’السلام علیکم حاجی صاحب آج آپ سویرے ہی آن پہنچے ہیں ‘‘۔میں ذرا کپڑے بدلتا ہوں پھر آپ کے ساتھ بات چیت ہوگی۔قیصر صاحب ڈیوٹی سے لوٹ کر آئے اور کپڑے بدل کر میڈم سے چائے کا مطالبہ کرنے لگے ۔
میڈم نے باہر لان میں رکھی میز پر قیصر صاحب کے لیے چائے کررکھ دی اور ساتھ ہی حاجی صاحب کے لیے بھی ۔حاجی صاحب ایک عمر رسیدہ شخص تھا۔ بچپن سے محنت و مشقت کرتے کرتے کمر میں خم آگیا تھا۔مگر ہمت اور سکت کو ہاتھ سے نہ چھوڑا تھا ۔دراصل قیصر صاحب کے لان میں پھول پودے اور باڑی میں اُگائی جانی والی سبزیوں کے درمیان پیدا ہونے والی فالتوگھاس کی صفائی کے لیے حاجی صاحب ہمیشہ اس موسم میں آیا کرتے تھے۔
قیصر صاحب اور حاجی بابا اکثر آپس میں سماجی ،معاشرتی اور دیگر سیاسی حالات سے متعلق باتیں کیا کرتے ۔حاجی صاحب پیشے سے ایک حمال تھے مگر جہاں دیدہ تھے اور تجربہ کار تھے۔بچپن سے بازار میں کام کرتے زندگی گزاری تھی ،بازار کے تقریباََ سبھی تاجر اسے جانتے تھے ۔حاجی صاحب نے اس محنت شاقہ سے کمائے ہوئے پیسوں سے دو مرتبہ حج کا مریضہ انجام دیا تھا۔بڑی بڑی بوریاں اٹھا کر اور وزنی اشیا ء ریڑی میں ڈھوتے ڈھوتے اس کی کمر میں خم آگیا تھا۔ وہ سیدھی کمر کھڑا نہیں ہو سکتا بلکہ جھک کر ہی چلا کرتا ۔پنجگانہ نمازوں کا پابند تھا ۔عُمر رسیدہ ہونے کے باوجود بھی رمضان کے مہینے میں پیہم روزہ رکھتا اور حد تو یہ ہے کہ روزانہ صف اول ِ میں تراویح ادا کرتا ۔لوگ حاجی صاحب کی ہمت اور ایمانی قوت کی داد دیا کرتے تھے۔
قیصر صاحب نے میز پر رکھی چائے کے لیے حاجی صاحب کو بلایا اور چائے پینے کو کہا ۔چائے کی چسکیاں لیتے لیتے قیصر صاحب کی میڈم نے حاجی صاحب سے پوچھا’’حاجی صاحب سنا ہے کہ آپ دونوں میاں بیوی جیتے جی زندگی کے یہ آخری دن الگ الگ گزار رہے ہو ،کیا وجہ ہے کہ آپ ایک بیٹے کے پاس اور آپ کی اہلیہ دوسرے بیٹے کے پاس رہ رہی ہیں؟‘‘
حاجی صاحب نے تُرش لہجے میں کہا میڈم صاحبہ بلا مارو جی اُس کتیا کو۔ مت چھیڑو اُس کی بات جو اپنے شوہر کے ساتھ بھی نباہ نہ کر سکی وہ بیٹوں کے ساتھ بھلا کیا کرے گی۔بہر حال حاجی صاحب دوبارہ گھاس کاٹنے میں لگ گئے۔ قیصر صاحب اور ان کی بیوی دیکھتے رہے کہ کس طرح عمر رسیدہ شخص اب تک بھی محنت و مشقت کر رہا ہے ۔کئی روز بعد میرا حاجی صاحب کے یہاں سے گزر ہوا تو دیکھا کہ کچھ لوگ جمع ہیں اور آپس میں کہہ رہے ہیں ’’ارے یار کیا کر رہے ہو ذرا مسجد کمیٹی والوں کو بلائیں تو صحیح‘۔ بڑ بڑا کر چند افراد مسجد کے سامنے برِ لب سڑک آپس میں سرگو شیاں کررہے تھے‘‘۔دراصل ایک عمر رسیدہ عورت اپنی ایک دو پوٹلیاں سامنے رکھ کر آہ وزاری کر رہی تھی اور چلا چلا کر کہہ رہی تھی کہ’’ میرے حال پر رحم کرو اور ترس کھاؤ میں کہاں جاؤں ،کیا کروں ؟سارے راہ گیر اور محلہ دار جمع ہوکر اس کی آہ وزاری پر نالاں تھے اور افسوس کر رہے تھے ۔آخر کا رمسجد کمیٹی کے اراکین نے اس عورت کے بیٹوں کو بلایا اور ڈانٹا کہ تم اپنی ماں کو پناہ کیوں نہیں دے رہے ہو ـــــ‘‘۔یہ عورت اُسی حاجی صاحب کی بیوی تھی جو قیصر صاحب کے لان کی گھاس کٹائی کر تا تھا ۔
میاں بیوی کی آپس میں ان بن سے جیتے جی ان کی جدائی ہو گئی تھی۔ ان کے پانچ بیٹے تھے اور ایک بھی بیٹا اپنی ماں کو پنا ہ دینے کے لیے تیار نہ تھا ۔معلوم کرنے پر پتہ چلاکہ یہ اپنی بہوؤں کے ساتھ تُرش کلامی اور بد زبانی کرتی رہتی ہے۔ بات بات پر تنقید کرتی اور ڈانٹتی ہے،ہر گھریلو کام میں مداخلت کرتی ہے ۔کہا جاسکتا ہے کہ ایسی عورت کسی بھی جگہ ٹک نہیں سکتی ہے ،نہ کسی کے ساتھ نباہ اور سمجھوتہ کر سکتی ہے ۔آخر کار ایک پوتے کو لوگوں کی باتیں سن سن کر جذبہ پیدا ہوگیا اور وہ اپنی دادی کو اپنے گھر لے گیا ۔دو سال بعد یہ عورت اس دارِ فانی سے کوچ کر گئی ۔کفن دفن کا سامان پوتے اور لوگوں نے تیار کیا۔لوگ جنازہ ادا کر کے تعزیت پُرسی کی غرض سے آئے تو کیا دیکھا کہ اس عورت کے سبھی بیٹے الگ الگ جگہوں پر اپنی کوٹھیوں میں بیٹھے ملنے والوں کا انتظار کر رہے تھے۔ نا اتفاقی کی وجہ ان کے والدین تھے ،جیتے جی کسی بھی بیٹے نے ان کو خوشی خوشی پنا ہ نہ دی نتیجتاََ بھائیوں کی آپس میں ناچاکی ہوتی رہی ۔لوگ منتشر تھے کہ کہاں اور کس جگہ تعزیت پُرسی کے لیے جایا جائے؟ سبھی لوگ اس پر افسوس کر رہے تھے کہ ماں باپ کے مرنے پر بھی یہ لوگ متفق نہیں ہوئے ۔ان کی سوچ پر سبھی نالاں تھے ۔پانچ بیٹوں کے ماں باپ زندگی بھر پریشان رہے کہ کون انہیں پناہ دے گا اور مرنے کے بعد بھی انہیں کوئی اپنا وارث نہ سمجھا ۔لوگ طرح طرح کی باتیں کرتے رہے اور تین روز گزرنے کے بعد سب ہی اپنے اپنے کام کاج میں محو ہوگئے۔جیتے جی والدین کی زندگی اجیرن بن گئی تھی اور بعدِ مرگ جیسے کوئی ان کا وارث ہی نہیں تھا۔۔۔۔
 
���
محلہ قاضی حمام بارہمولہ 
موبائل نمبر؛9469447331