آج پوری دنیا کے ساتھ ساتھ اہلیاں کشمیر بھی ایک بے قابو جراثیم یعنی کرونا وائرس کی زد میں ہیںاوراحتیاطی تدابیر کے تحت اس وائرس سے بچنے اور اس کے پھیلائو پر قابو پانے کے لئے بدستور لاک ڈائون میں ہیں۔ جموں وکشمیر میں لوگوں کی اکثریت غریب محنت کشوںپر مشتمل ہے جن میں زیادہ تر وہ لوگ شامل ہیں ،جو جتنادن میں کماتے ہیںاور اُسی پر گزر بسر کرتے ہیں۔اب یہاں مسئلہ یہ ہے کہ کرونا وائرس کا مقابلہ کرتے ہوئے دنیا کی بڑی معیشتیں تباہ ہوچکی ہیں اور بڑے بڑے سرمایہ دار لوگ گھٹنوںپرآچکے ہیں تو ایسے میں بیچارے غریب محنت کش لوگوں کی حالت کیا ہوگی؟ ۔دیکھا جائے تو کرونا نامی یہ وبائی بیماری ہمارے لیے ایک بڑی آزمائش بھی ہے ،نہ صرف خود اور دوسروں کو اس بیماری سے محفوظ رکھ کر اس بیماری سے لڑنا ہے بلکہ ان مشکل حالات میںجب کہ دنیا کی ساری رنگینیاں ، کاروبار ی تگ و دو ،دوڑ دھوپ اور زندگی کی ساری چہل پہل ٹھپ پڑی ہیںتو ظاہر ہے اس صورت حال سے غریب محنت کش لوگوں کیلئے روزگار کے تمام دروازے بھی بند ہوچکے ہیں۔اْن کے لئے روزانہ کی کمائی کا معاملہ انتہائی پیچیدہ بن گیا ہے اور وہ زبردست آزمائش سے دوچار ہوگئے ہیں۔بیشتر لوگوں کو دو وقت کی روٹی کے لالے پڑے ہیںاور بہت سے لوگوںکے چولہے بھی ٹھنڈے پڑے ہوئے ہیں ۔
اس مبارک ماہ کے فیوض سے مستفید ہونے کے لئے ہم پر کتنی ذمہ داریاںعائد ہوتی ہیں ،اُن سے کسی کو مفر نہیں ،خاص طور پر وہ طبقہ جو صاحب ِ ثروت اور مالدار ہے ،جنہیں اللہ تعالیٰ نے اپنے فضل و کرم سے دولت عطا کردی ہے جبکہ متوسط طبقہ پربھی فرض ہے کہ وہ بھی اپنی حیثیت کے مطابق اپنے اُن غریب پڑوسیوں کاخیال رکھیں جو لاک ڈاون کے باعث لاچارگی کا شکار ہوئے ہیں۔ روزہ رکھنے کے پیچھے جو فلسفہ ہے وہ یہی ہے کہ ہمیں تقویٰ حاصل ہو اور اس کے ساتھ ساتھ بھوک کی شدت کا بھی احساس ہوجائے ،تاکہ ہمیں اُن لوگوں کا خیال رہے جو غربت کی وجہ سے بھوکے رہتے ہیں۔ماہِ رمضان ہمیں یہی یاد دلاتا ہے کہ ایسے لوگوں کا خیال رکھا جائے، جن کے گھروں میں چولہے نہیں جلتے اور جہاں کے چھوٹے بچے کھانے کے انتظار میں خالی پیٹ ہی سو جاتے ہیں اور جب ان کی آنکھ کھلتی ہے ، تب بھی کھانے کے ہی انتظار میںہی دن گزارتے ہیں۔ایسی صورتحال اُن والدین کیلئے کتنی اذیت ناک ہے جن کے بچے کھانا مانگتے ہیں تو وہ انہیں کھانے کے لئے کچھ نہیں سکتے۔ حضرت محمدؐنے اپنی امت کو اپنے غریب ہمسائیوں کا خیال رکھنے اور ان کا حق ادا کرنے کی ذمہ داری رکھی ہے کیونکہ ْان کا حق ہم پر بہت زیادہ ہے۔اگر انکی مدد نہ کی جائے تو قیامت کے دن وہ غریب ہمسایہ آسودہ حال ہمسایہ کیلئے جہنم کا باعث بن سکتا ہے۔اگر ایک مسلمان رات دن عبادت میں مصروف رہتا ہے لیکن ہمسایہ کا حق ادا نہیں کرتا ہے ،تو اس کی ساری عبادت رائیگاں ہو جائے گی۔
آج ہماری یہ ذمہ داری دوگنی ہو جاتی ہے، کیونکہ معمول کی زندگی میں یہ لاچار لوگ تو خود بھی کچھ نہ کچھ تو کما ہی لیتے تھے لیکن جب سے اس وبائی بیماری کی وجہ سے لاک ڈائون نافذالعمل ہے، ایسے لوگوں کی حالت بد سے بدتر ہوگئی ہے۔ہمارے سماج میں ماشااللہ یہ کام بڑے ہی خوش اسلوبی سے بہت سارے غیر سرکاری رضاکارانہ ادارے انجام دے رہے ہیں۔ایسے ادارے یتیموں ،بیوائوں، معذوروں، مفلسوں وغیرہ کی کفالت کرتے ہیں۔ضرورت اس بات کی ہے کہ ایسے اداروں کی حوصلہ افزائی کے ساتھ ساتھ ان کی بھر پور مالی معاونت کی جائے تاکہ زیادہ سے زیادہ راحت مستحق لوگوںکوپہنچائی جاسکے۔اسلام میں بیت المال کا جو تصور موجود ہے وہ بھی ایسے لوگوں کیلئے بہت ہی فائدہ مند ہے۔لوگ اپنے صدمات، ذکات اور خیرات اپنے اپنے علاقوں میں قائم بیت المال میں جمع کرائیں۔مذکورہ ادارے اچھے انداز میں پوشیدہ طریقے سے مستحقین کی مدد کرکے کرتے ہیں ،لیکن جہاں تک انفرادی امداد کا تعلق ہے ،آج کل بہت سارے لوگ غریبوں کی مدد کیلئے آگے آئے ہیں جو خوش آئند بات ہے،لیکن بدقسمتی سے کچھ لوگ یہ کام دکھاوے کیلئے کرتے ہیں اور وہ ان لاچار لوگوں کے عزتِ نفس کا خیال نہیں کرتے۔ نتیجہ یہ نکلتا ہے کہ مستحق لوگ امداد لینے سے ہچکچاتے ہیں۔ہمیں یہ کام صرف اور صرف رضائے اللہ کیلئے کرنا ہوگاتو بیشک اللہ ہی اس کا اجر بھی عطا کرے گا۔ ؎
ہو میرا کام غریبوں کی حمایت کرنا
دردمندوں سے ضعیفوں سے محبت کرنا
رابطہ : ستورہ ،ترال پلوامہ کشمیر