سرینگر//جموں کشمیر پولیس نے جمعہ کو لاوے پورہ انکاونٹر میں جاں بحق افراد کے لواحقین کے دعووں کو مسترد کرلیا۔
ایک بیان میں پولیس نے کہا کہ مذکورہ انکاونٹر جنگجوﺅں کی موجودگی کی مصدقہ اطلاع کے بعد شروع ہوا تھا۔بیان کے مطابق عمارت کے اندر موجود جنگجوﺅں نے فورسز پر گرینیڈ اور گولیاں چلائیں۔اس کے بعد بھی اہلکاروں نے محصور جنگجوﺅں کو شام کے وقت اور بعد میں اگلی صبح سرنڈر کی پیشکش کی جس کو انہوں نے مسترد کیا اور نتیجے کے طور وہ فورسز کے ساتھ فائرنگ کے تبادلے میں جاں بحق ہوگئے۔
جاں بحق اعجاز مقبول گنائی کے لواحقین کے اس دعویٰ کہ وہ فارم داخل کرنے کیلئے یونیورسٹی گیا تھا، پولیس ترجمان نے اپنے بیان میں کہا کہ جدید طریقوں سے اس دعویٰ کی جانچ کرائی گئی ، جس میں ٹیلی کام محکمہ کے ریکارڈ کی جانچ بھی شامل ہے، سے یہ دعویٰ صحیح ثابت نہیں ہوا ہے۔
پولیس بیان کے مطابق”اس کے برعکس ساری تفاصیل حاصل کرنے کے بعد اس بات کا انکشاف ہوا ہے کہ اعجاز اور اطہر لاوے پورہ پہنچنے سے قبل حیدر پورہ گئے تھے“۔بیان کے مطابق ”اسی طرح زبیر پہلے پلوامہ ، پھر اننت ناگ،شوپیان اور بعد میں پلوامہ گیا تھا اور آخر پر وہ لاوے پورہ پہنچا تھا“۔
پولیس کے مطابق پس منظر کا جائزہ لینے کے بعد اس بات کا انکشاف ہوا ہے کہ اعجاز اور اطہر ، جو بالائے زمین کارکن تھے، نے جنگجوﺅں کی ہر صورت مدد فراہم کی ۔پولیس ترجمان بیان میں دعویٰ کیا گیا کہ لشکر طیبہ (جسے اب ٹی آر ایف کہا جاتا ہے) جنگجوﺅں کے سخت گیر حمایتی تھے۔
پولیس نے مزید کہا کہ ایک زیر حراست بالائے زمین کارکن نے بھی اعجاز کے بارے میں اس بات کی تصدیق کی ہے کہ وہ لشکر کے فیصل مشتاق بابا نامی جنگجو کا ساتھی تھا جو گذشتہ برس نیج پانپور میں ایک معرکہ آرائی کے دوران جاں بحق ہوا۔
پولیس کے مطابق اطہر حزب کمانڈر رئیس کاچرو کا رشتہ دار اور بالائے زمین کارکن تھا جو 2017میں جاں بحق ہوا ۔
پولیس ترجمان کے مطابق اس کے باوجود وہ کیس کے ہر ممکن پہلو کی تحقیقات کررہے ہیں۔
یاد رہے کہ پولیس کے مطابق لاوے پورہ سرینگر میں بدھ کو ایک معرکہ آرائی کے دوران تین جنگجو جاں بحق ہوگئے جن کی شناخت، اطہر، اعجاز اور زبیر کے طور کی گئی تھی۔ مہلوکین کا تعلق پلوامہ اور شوپیان اضلاع سے تھا۔ اُسی روز مہلوکین کے گھروالوں نے دعویٰ کیا کہ اُن کے رشتہ دار جنگجو نہیں بلکہ عام شہری تھے ۔انہوں نے لاوے پورہ معرکہ آرائی کو جعلی قرار دیا ۔