جموں سرینگر شاہراہ ، جو وادی کشمیر کو نہ صرف جموں خطہ بلکہ بیرونی دنیا سے ملانے والا واحد زمینی رابطہ ہے، پر سفر کی حالت ہر گز رنے والے دن کے ساتھ ابتر اور تکلیف دہ بنتی جارہی ہے کیونکہ کوئی ایسا دن دیکھنے کو نہیں ملتا جب اس شاہراہ پر گھنٹوں بدترین ٹریفک جام پیش نہ آتا ہو۔خاص کر موسم کی خرابی کے دوران اس شاہراہ پر سفر مسافروں کےلئے جانگسل بن جاتا ہے۔ حالیہ ایام میں پیر پنچال کے آر پار برفباری کی وجہ سے مختلف وجوہات کی بنا پر بار بار شاہراہ کے بند ہونے کے سبب مسافروں اور صوبۂ کشمیر میں رہنے والے لوگوں کو زبردست ذہنی و جسمانی پریشانیوں اور مالی نقصانات کا سامنا کرنا پڑا ہے۔ ایسی صورتحال ایک دن کا مسئلہ نہیں بلکہ ابتر موسمی حالات میں یہ ایک ایسا معمول بن چکا ہے، جسے عام لوگ برداشت کرنے پر مجبور ہیں۔ لیکن انتظامیہ کی جانب سے اس معاملے پر کسی طرح کی سنجیدہ توجہ مرکوز نہیں ہو رہی ہے۔ بھلے ہی وہ منتخب حکومتیں ہو ں یا موجودہ گورنر انتظامیہ، اس صورتحال کی بنیادی وجوہات کا احساس کرکے انکا ازالہ کرنے کی کوئی کوشش نہیں ہو رہی ہے۔ شاہراہ کا رام بن سے بانہال تک کا حصہ ایک سوہان روح بن چکا ہے، جو 21ویں صدی کے اس ترقی یافتہ دور میں، جب انسان سیاروں پر بستیاں آبا دکرنے کے منصوبے بنا رہا ہے، کشمیر خطے کو بیرونی دنیا سے منقطع رکھنے کا ایک بڑی وجہ بنا ہوا ہے۔ یہ کوئی معمول بات نہیں کہ گزشتہ 60دنوں کے دوران 21مرتبہ شاہراہ بند رہی ہے۔ ایک انداز ے کے مطابق شاہراہ بند رہنے سے ایک دن کے اندر کشمیر خطے کو 95کروڑ روپے کے تجارتی نقصان کا سامنا کرناپڑ رہا ہے۔ اس طرح اگر یہ کہا جائے کہ شاہراہ کے تئیں حکومت کا غیر سنجیدہ رویہ کشمیر کو اقتصادی طور پر دیوالیہ کرنے کے درپے ہے تو شاید غلط نہ ہوگا۔ شاہراہ کو چار گلیارہ بنانے کے منصوبے کا ہدف ختم ہونے کو آرہا ہے مگر منصوبے کی تکمیل کا نام و نشان کہیں نہیں ہے اور ماہرین کا ماننا ہےکہ جس رفتار اور اندازسےیہ کام چل رہاہے مستقبل قریب میں بھی اسکی تکمیل دور دور تک دکھائی نہیں دے رہی ہے۔ اس تاخیر کےلئے تعمیری منصوبے کی ذمہ دار ایجنسیوں سے جواب طلبی کیوں نہیں ہو رہی ہے، یہ ایک سوال ہے جو عوام کی طرف سے انتظامیہ سے کیا جارہاہے۔ اگر چہ شاہراہ کو جموں سے ادھمپور تک چہار گلیارہ بنا نےکا کام مکمل ہوا ہے اور اب اس سے آگے بانہال تک کا کام جاری ہے اور لوگ یہ امید کر رہے تھے کہ اس عمل سے شاہراہ پر سفر کا عمل نہ صرف آسان ہوگا بلکہ وقت میں بھی خاطر خواہ بچت ہوگی لیکن فی الوقت صورتحال اس سے اُلٹ ہے اور بعض اوقات طویل ترٹریفک جاموں کی وجہ سے آٹھ گھنٹے کا یہ سفر بارہ سے پندرہ گھنٹوںتک کھینچ جاتا ہے اور گزشتہ دنوں پچیس گھنٹوں کے سفر کے بعد ہی مسافر اپنی منزلوںکو نہیں پہنچ پائے۔اس تاخیر سے مسافروں کے معمولات اور منصوبے درہم برہم ہو کر رہ جاتے ہیں۔ سرینگر سے جموں جانے والے یا وہاں سے واپس آنے والے مسافر کئی وجوہات کی بنا پہ ان مشکلات کے خوگر ہو چکے ہیں، لیکن بانہال اور رام بن کے درمیان روزانہ سفر کرنے والے ملازمین، تاجروں اور طلاب کے معمولات بُری طرح متاثرہونے کی وجہ سے انہیں روزانہ پریشانیوں کا سامنا کرنا پڑتا ہے۔ ملازمین کے وقت پر اپنی ڈیوٹی پہ نہ پہنچنے کی وجہ سے سرکاری دفاتر خاص کر صحت عامہ کے مراکز میں دور دراز علاقوں میں آئے ہوئے مریضوں کو سخت مشکلات اور تکالیف اُٹھانا پڑتی ہیں جبکہ طلبہ کے تعلیمی معمولات بھی متاثر ہوجاتے ہیں، جو بالآخر انکے کیرئیر پر منفی اثرات کا باعث بن جاتے ہیں اور وہ امتحانات میں خاطر خواہ کارکردگی کا مظاہرہ کرنے سے قاصر رہتے ہیں۔ اسکے علاوہ تاجروں کا ایساطبقہ جسے روزانہ سفر کرنے کی ضرورت پڑتی ہےمالی نقصانات سے دو چار ہو رہاہے لیکن جس عنوان سےشاہراہ بند ہونے سے ٹریفک کی آمد ور فت میں خلل ایک معمول بنتا جا رہا ہے اُ س سے ایسا لگ رہا ہے کہ انتظامیہ اسے معمول کی صورتحال تصور کرنے لگی ہے اور اسکا ازالہ کرنے کےلئے بلندبانگ دعاوی کے باوجود زمینی سطح پر کوئی کاروائی دیکھنے کو نہیں ملتی۔شاہراہ پر جاری تعمیراتی کاموں کے بہ سبب ایک درجن سے زائد مقامات پر سڑک تنگ ہوگئی ہے، جبکہ تعمیراتی سرگرمیوں کے نتیجہ میں جابجا ملبے کے ڈھیر جمع ہو جانے کے ناطے بھی شاہراہ کئی مقامات پر سکڑ کر رہ گئی ہے اور ان مقامات پر دو طرفہ ٹریفک کی آمد ورفت سے گاڑیوں کی رفتار سست ہو جاتی ہے اور آہستہ آہستہ جام کی صورت پید اکرتی ہے۔ فی الوقت شاہراہ پر کیلا موڑ، سیری، چند ر کورٹ اور پنتھال کے مقامات پر ٹنل تعمیر کرنے کا کام جاری ہے، جوجب تیار ہونگے تو مسافت میں خاطر خواہ کمی آئیگی لیکن فی الوقت ان مقامات پر بھی جام لگنےکے بہ سبب مسافروں کے لئے گھنٹوں اپنی گاڑیوں کے اندر بیٹھ کر کسمساتے رہنے کے سوا کوئی چارہ نہیں رہتا ۔اب جبکہ حالیہ موسم سرما کے دوران بار بار راستہ بند ہو جانے کی وجہ سے وادیٔ کشمیر میں ضروری سپلائز بُری طرح متاثر ہوئی ہیں اور بازاروں میں اشیائے ضروریہ کی قیمتوں میں بے پناہ اضافہ ہوا ہے، اُس کا خمیازہ عام لوگوں کو بھگتنا پڑرہا ہے۔ اس کے علاوہ وادی سے باہر بھیجے جانے والے فروٹ سے وابستہ تاجروں کو بھی بے پناہ نقصانات کا سامنا کرنا پڑا ہے۔ اور تو اور عام مسافروں کو مجبور ہو کر بیسیوں کلو میٹر دشوار گزار سفر پیدل کرنے پر مجبورہونا پڑا۔ یہ ایک افسوسناک امر ہے، جس کی جانب اگر حکومت توجہ نہ دیگی تو کون ایساادارہ ہے جو اسے دیکھے گا؟۔