اللہ تعالیٰ نے قرآن کریم کی سورۃالفجر میں ذی الحجہ کی دس راتوں کی قسم کھائی ہے "والفجر ولیال عشر" جس سے معلوم ہوا کہ ماہ ذی الحجہ کا ابتدائی عشرہ اسلام میں خاص اہمیت کا حامل ہے۔حج کا اہم رکن وقوف عرفہ اسی عشرہ میں ادا کیا جاتا ہے، جو اللہ تعالیٰ کے خاص فضل وکرم کو حاصل کرنے کا دن ہے۔ غرض رمضان کے بعد ان ایام میں اخروی کامیابی حاصل کرنے کا بہترین موقع ہے۔ لہٰذا ان میں زیادہ سے زیادہ اللہ کی عبادت کریں، اللہ کا ذکر کریں، روزہ رکھیں، قربانی کریں۔ احادیث میں میں ان ایام میں عبادت کرنے کے خصوصی فضائل وارد ہوئے ہیں۔
حضرت عبداللہ بن عباس رضی اللہ عنہما سے روایت ہے کہ حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: کوئی دن ایسا نہیں ہے جس میں نیک عمل اللہ تعالیٰ کے یہاں ان دس دنوں کے عمل سے زیادہ محبوب اور پسندیدہ ہو۔( صحیح بخاری)
تاریخ
حضرت ابراہیم علیہ السلام کو خواب میں دکھایا گیا کہ وہ اپنے بیٹے (اسماعیل علیہ السلام)کو ذبح کر رہے ہیں۔نبی کا خواب سچا ہوا کرتا ہے، چنانچہ اللہ تعالیٰ کے اس حکم کی تعمیل کے لیے حضرت ابرہیم علیہ السلام فلسطین سے مکہ مکرمہ پہنچ گئے۔جب باپ نے بیٹے کو بتایا کہ اللہ تعالیٰ نے مجھے تمہیں ذبح کرنے کا حکم دیا ہے تو فرمابردار بیٹے اسماعیل علیہ السلام کا جواب تھا:" ابا جان ! جو کچھ آپ کو حکم دیا جارہا ہے،اسے کر ڈالئے۔ان شاء اللہ آپ مجھے صبر کرنے والوں میں پائیں گے‘‘۔( سورۃ فصلت102)
بیٹے کے اس جواب کے بعد حضرت ابراہیم علیہ السلام اپنے بیٹے حضرت اسماعیل علیہ السلام کو جب مکہ مکرمہ ذبح کرنے کے لیے لے کر چلے تو شیطان نے منی میں تین جگہوں پر انہیں بہکانے کی کوشش کی، جس پر انہوں نے سات سات کنکریاں اس کو ماریں جس کی وجہ سے وہ زمین میں دھنس گیا۔ آخر کار رضائے الٰہی کے خاطر حضرت ابرہیم علیہ السلام نے اپنے دل کے ٹکڑے کو منہ کے بل زمین پر لٹا دیا،چھری تیز کی،آنکھوں پر پٹی بندھی اور اس وقت تک چھری اپنے بیٹے کے گلے پر چلاتے رہے جب تک اللہ تعالیٰ کی طرف سے صدا نہ آئی۔ " اے ابراھیم! تونے خواب سچ کر دکھایا،ہم نیک لوگوں کو ایسا ہی بدلہ دیتے ہیں"۔(سورۃ فصلت )
چنانچہ حضرت اسماعیل علیہ السلام کی جگہ جنت سے ایک مینڈھا بھیج دیا گیا جسے حضرت ابراھیم علیہ السلام نے ذبح کر دیا:" وفدیناہ بذبح عظیم‘‘ ( سورۃ فصلت :108)
اس واقعہ کے بعد اللہ تعا ٰ لیٰ کی رضا کے لیے جانوروں کی قربانی کرنا خاص عبادت میں شمار ہو گیا۔چنانچہ حضور صلی اللہ علیہ کی امت کے لیے بھی ہر سال قربانی مشروع کی گئی،بلکہ اس کو اسلامی شعار بنایا گیا اور حضرت ابراھیم علیہ السلام کی اتباع میں حضور صلی اللہ علیہ وسلم کے طریقہ پر جانوروں کی قربانی کا یہ سلسلہ قیامت تک جاری رہے گا ان شاء اللہ۔
حقیقت روح اور پیغام
قربانی کا تصور تمام آسمانی مذاہب میں پایا جاتا ہے۔ قرآن کریم میں حضرت آدم علیہ السلام کے دو بیٹوں کے واقعے سے یہی حقیقت سامنے آتی ہے کہ انسانیت کی ابتدا میں ہی قربانی بطور عبادت زندگی کا حصہ بنادی گئی تھی۔اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے: " اور اے محمد صلی اللہ علیہ وسلم ان کو آدم کے دو بیٹوں ( ہابیل اور قابیل) کے حالات ( جو بالکل) سچے ( ہیں)پڑھ کر سنا ئو کہ جب ان دونوں نے خدا ( کی جناب میں) کچھ نیازیں چڑھائیں ، تو ایک کی نیاز قبول ہوگئی اور دوسرے کی قبول نہ ہوئی۔ ( تب قابیل،ہابیل ) سے کہنے لگا کہ میں تجھے قتل کروں گا اس نے کہا کہ خدا پرہیزگاوں ہی کی(نیاز) قبول فرمایا کرتا ہے"(سورہ المائدہ :27)
قرآن کریم کی اس آیت سے آج بھی آپ یہ معلوم کرسکتے ہیں کہ قربانی کی قبولیت کا ربائی پیمانہ کیا ہے۔جانور میں کوئی نقص نہ ہو،یہ تو ہر مسلمان کو معلوم ہے، مگر نیت کا اخلاص، رزق روزی اور ذرائع آمدنی کا حلال ہونا اوراب سے بڑھ کر تقوی کی صفت قبولیت قربانی کا معیار اصلی ہے۔قران پاک میں قربانی کا تفصیلی ذکر سورۃ الحج میں ہے اور وہاں پر اللہ تعالیٰ نے تقوی کے اسی مضمون پر پورے تذکرہ کا اہتمام فرمایا ہے۔ ارشادِ باری تعالیٰ ہے ؛ " اور نہ ان ( جانوروں) کے گوشت اللہ کو پہنچتے ہیں نہ خون ، مگر اسے تمہارا تقوی پہنچتا ہے۔ اس نے ان کو تمہارے لیے اس طرح مسخر کیا ہے، تاکہ اس کی بخشی ہوئی ہدایت پر تم اس کی تکبیر بلند کرو، ایے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم بشارت دے دے نیکوکار لوگوں کو۔" ( الحج :37)
قربانی کا اصل فلسفہ یہی ہے، بلکہ ہر عبادت کا فلسفہ یہی ہے۔ کسی بھی عبادت کا ایک ظاہری ڈھانچہ ہے ایک اس کی روح ہے۔ظاہری ڈھانچہ اپنی جگہ اہم ہے اور وہ اس لیے ضروری ہے کہ اس کے بغیر اس عبادت کا بجا لانا ممکن نہیں، لیکن یہ ظاہری پیکر اصل دین اور اصل مقصود نہیں ہے کسی بھی عبادت سے اصل مقصود اس کی روح ہے۔ اس نکتہ کو علامہ اقبال نے ان اشعار میں واضح کیا ہے ؎
رہ گئی رسم اذاں،روح بلالی نہ رہی
فلسفہ رہ گیا،تلقین غزالی نہ رہی
اور نماز ورزہ وقربانی وحج یہ سب باقی ہیں،تو باقی نہیں ہے!
چنانچہ قربانی کا اصل مقصود ہمارے دلوں کا تقویٰ اور اخلاص ہے۔ اللہ تعالیٰ کے ہاں جو چیز اہم ہے وہ یہ ہے۔ جو شخص قربانی دے رہا ہے وہ اپنی معمول کی زندگی میں اس کی نافرمانی سے کتنا ڈرتا ہے؟ وہ اپنے روزمرہ کے معمولات میں اللہ کے احکام و قوانین کا کس قدر پابند ہے؟ کس قدر وہ اپنی توانائیاں ، اپنی صلاحیتیں اور اپنا مال اللہ کی راہ میں صرف کر رہا ہے؟ کیا قربانی کے جانور کا اہتمام اس نے رزق حلال سے کیا ہے ؟ اس قربانی کے پیچھے اس کا جذبہ اطاعت و ایثار کس قدر کارفرما ہے؟ یہ اور اس نوعیت کی دوسری شرائط جو قربانی کی اصل روح اور تقوی کا تعین کرتی ہیں اگر موجود ہیں تو امید رکھنی چاہئے کہ قربانی اللہ کے حضور قابلِ قبول ہوگئی۔لیکن اگر یہ سب کچھ نہیں تو ٹھیک ہے آپ نے گوشت کھالیا،کچھ غریبوں کو بھی اس میں سے حصہ مل گیا، اس کے علاوہ شاید قربانی سے اور کچھ فائدہ حاصل نہ ہو۔
بہرحال قربانی کے لفظ سے واضح ہے کہ یہ اللہ تعالیٰ کا قرب حاصل کرنے اور اس کے نزدیک جانے کا ذریعہ ہے۔ قربانی کی مختلف صورتیں اور درجات ہیں۔ان میں پہلا درجہ خواہشات کی قربانی ہے۔اور آخری درجہ جان کی قربانی ہے۔ اس کے درمیان میں مال، اوقات اور صلاحیتوں کی قربانی کے مراحل آتے ہیں، مگر لفظ قربانی جب مطلق، یعنی اکیلا بولا جاتا ہے، تو اس سے مراد وہ قربانی ہوتی ہے، جو حضرت ابراھیم علیہ السلام کی عظیم قربانی کی یاد کے طور پر عید الاضحی کے موقع پر جانور ذبح کرنے کی صورت میں دی جاتی ہے۔ قربانی صرف اس لیے واجب نہیں کی گئی ہے کہ یہ تسخیر حیوانات کی نعمت پر اللہ تعالیٰ کا شکریہ ہے، بلکہ اس لیے بھی واجب کی گئی ہے کہ جس کے یہ جانور ہیں اور جس نے انہیں ہمارے لئے مسخر کیا ہے، اور اس کے حقوق مالکانہ ہم دل سے بھی اور عملاً بھی اعتراف کریں، تاکہ ہمیں کبھی یہ بھول لاحق نہ ہو جائے کہ یہ سب کچھ ہمارا اپنا مال ہے۔ اس مضمون کو وہ فقرہ ادا کرتا ہے جو قربانی کرتے وقت کہا جاتا ہے کہ" اللہ منک ولک " یعنی خدایا تیرا ہی مال ہے اور تیرے ہی لیے حاضر ہے۔