قرآن مجید میں سائنسی حقائق کی طرف اشارہ کرنے کا اصلی اور حتمی مقصد انسان کی تفہیمِ کائنات کے ساتھ ساتھ ہدایت ہی ہے کیونکہ ہدایت ایک ایسا انعام ہے ،ایک ایسی شاہ کلید ہے جس کے لگتے ہی انسان کے جملہ مسائل حل ہوجاتے ہیں۔عبادت کے علاوہ مسائل کا حل تلاش کرنابھی اس دنیا میں انسان کو بھیجے جانے کا ایک مقصد ہے اور یہ انسان کی فطرت ہے کہ وہ مسائل کا حل بآسانی حاصل کرنا چاہتا ہے لیکن خدا کا وضع کردہ قانون یہ ہے کہ انسان کو مشقت اٹھانے کے بعد ہی مسائل کا حل حاصل ہوتا ہے اوریہ کائنات انسان کو کچھ ایسے مسائل سےبھی دوچار کرتی ہےجن کا حل انسان کے پاس بمشکل ہے جیسے انسان کے لئے ایک بہت بڑا مسئلہ اس کی موت اور مابعد موت کی حقیقت ہے ۔موت کیوں آتی ہے اور موت کے بعد انسان کا کیا ہوتا ہے ؟ یہ ایسے سوالات ہیں جو ہر انسان کو زندگی کے کسی نہ کسی موڑ پر ضرور پریشان کرتے ہیں ۔موت کا تصور کرتے ہی انسان موت کا مقابلہ کرنے کی تیاری میں لگ جاتا ہے ،انسان کا ہر قدم اس سانحہ کا مقابلہ کرنے کی نیت سے ہوتا ہے اورانسان مادی وسائل سمیٹنے میں پوری زندگی وقف کرتا ہے تاکہ ایک خوشحال زندگی گذار کر موت کے امکانات کو کم کردے لیکن ایسا ہوتا نہیں بلکہ موت آکر ہی رہتی ہے اور اس کی تمام کوششوں پر پانی پھیر دیتی ہے ۔میں یہ سمجھتا ہوں کہ آج کی حیرت انگیز ترقی بھی آخرکار موت کے مقابلے میں انسان کا ساتھ دینے کے طور پر سامنے آتی ہے لیکن نتیجہ یہ نکلتا ہے کہ موت ناقابلِ تسخیرہے اور انسان کو ہر حال میں موت کے سامنے جھک جانا پڑتا ہے ۔تاریخ سے ہمیں یہی سبق ملتا ہے کہ موت سے کسی کو فرار ممکن نہیں لیکن انسان کی یہ بھول ہوتی ہے کہ آخری سانس تک بھی وہ موت کو قبول نہیں کرتا تاآنکہ موت اس کو قبول کرتی ہے ۔ موت ایک ایسا موضوع ہے جو فنا کے تمام جزئیات کو اپنے اندر سمیٹے ہوئے ہے اور اس کے مقابلے میں حیات ایک ایسا موضوع ہے جو زندگی کےتمام عناصر و جزئیات کو قلعہ بند کئے ہوئےہے ۔جتنا حیات کو سمجھنا ضروری ہے اس کہیں بڑھ کر موت کوسمجھنا لازمی ہے کیونکہ اگر ہم حیات کے متعلق اتنی کوشش کرتے ہیں تو موت جو کہ حیات کی ضد ہے اس کو کیوں کر نظرانداز کیا جائے ۔موت و حیات کی تفہیم کے حوالے سےجب تک نہ ایک توازن قائم کیا جائے تب تک اس دنیا میں امن کو بحال نہیں کیا جاسکتا ہے ۔جدید سائنس موت کی تفہیم کے حوالے سے کمربستہ ہے اور انسان کو یہ باور کر چکی ہے کہ موت ایک ناقابل تسخیر واقعہ ہے جس سے ہر ذی حیات کو گذرنا پڑتا ہے لیکن سائنس بچاری موت کے حادثے کو صرف ذریعہ معدوم ہونے کے طور پر سامنے لاتی ہے، جو اپنی جگی ایک بہترین ریمائنڈر ہے ،انسان کی اصلاح کے لئے۔ لیکن انسان کو ایک مستقل پریشانی سے بھی دوچار کرتی ہے، وہ یہ کہ انسان کی پیدائش ہے اور اس کی موت بس اس کے بعد سب کچھ ختم ۔یہ سائنس کی ایک بہت بڑی خامی ہے کہ اس کا میدانِ دسترس صرف یہی دنیا قرار پائی ہے اور اس سے ماورا چیزوں کو سمجھنا سائنس کے دائرے سے باہر ہے ۔قرآن مجید کا یہ امتیاز ہے کہ اس کا دائرہ کل جہان و کل کائنات ہیں جو کسی نہ کسی لحاظ سے انسان کے لئے اہم ہوں ۔قرآن انسان کو موت کے بعد والی زندگی کے متعلق امید افزا پیغام دیتا ہے کہ انسان کو اس کے بعد ہمیشہ ہمیشہ کے لئے حیات رہنا ہے ۔قرآن مجید نے موت کو اختتام زندگی نہیں بلکہ ابتدائے حیات قرار دے کر انسان کے لئے ہر شئے کو ذی معنی بنا کے رکھ دیا ۔قرآن مجید نے اس دنیا کا ایک ایک ذرہ انسان کی آزمائش قرار دے کر انسان کو اس دنیا میں زندگی گذارنے کا ایک محتاط سلیقہ عطا کیا ہے ۔ہر شئے کے اخروی حساب و کتاب کے ذریعے انسان کو اس کی حفاظت کا پیغام دیا ہے جسے سائنس کی زبان میں کنزرویشن کہتے ہیں۔
قرآن مجید نے انسان کو موت یاد کرنےکی زبردست تلقین کی ہے تاکہ انسان فنا کی اس خوفناک اصطلاح پر غور کرکے اپنی روش کو صالح خطوط پر استوار کرے ۔انسان جب اپنے بشری حدود کو بھول کر اترانے اور تکبر کرنے لگتا ہے اور جب اسے کوئی قیمتی سے قیمتی نصیحت بھی راہ راست پر لانے میں ناکام ہوتی ہے تو یہ موت کا ہی تصور ہے جو اسے کسی حد تک سوچنے پر مجبور کرتا ہے ۔جس کی وجہ سے وہ زندگی کے متوازن خطوط پر اپنی شخصیت کو تشکیل دینے کے قابل ہو پاتاہے۔ دورجدِید میں سائنس نے انسان کو ہر واقعہ کی جزئیات سے واقف کرکے اسے اپنے مقصد کو سمجھنے کا آسان اور واضح نسخہ عطا کیا ہے۔موت کے حادثے کی بہترین وضاحت سائنسی علوم کے ذریعے ممکن ہوچکی ہے لیکن اس سے فرار کی کوئی صورت نکل نہیں آئی ہے اور نہ کبھی آسکتی ہے ۔انسان اپنی ہدایت کے لئے سائنس کو بہتر انداز میں استعمال کرسکتا ہے بشرطیکہ جاہلانہ تعصب اس کی شخصیت پر حاوی نہ ہو ۔قرآن مجید نے انسان کو اس زمین کی طرف گہری نگاہ دوڑانے کی تلقین کی ہے تاکہ انسان اس دنیا کے پیمانے کے مطابق فائدہ وصول کرنے کے ساتھ اخروی فائدہ بھی حاصل کرے تاکہ اس کی بصارت کا تیر اس کی بصیرت کو بھی متاثر کر جائے ۔اکثر دنیا کے دانشور اپنی بصارت اور ذہانت کا استعمال کرکے بڑا نام کماتے ہیں لیکن بصیرت کے میدان میں انہیں صفر بھی حاصل نہیں ہو پاتا ،اسی لئے آئناسٹائن ،سی وی رمن ،نیوٹن ،ڈارون وغیرہ اصلی اور حقیقی کامیابی سے ہمکنار نہ ہوسکے ۔قرآن مجید انسان کو جہاں دنیاوی ظفر و اقبال عطا کرتا ہے وہیں اخروی سرفرازی و بلندی سے ہمکنار کرتا ہے ۔قرآن مجید نے انسان کو ان ان مسائل کی طرف توجہ دینے کا اشارہ دیا ہے جو مستقبل میں ضرور اس کی زندگی کا فیصلہ کرنے کی صلاحیت رکھتے ہیں ۔
موت و حیات اور روح و بدن کے آپسی تعلقات کے حوالے سے جتنے بھی موضوعات ہیں انسان کے وضع کردہ علوم میں سے کوئی بھی علم ان کا مطمئن بخش جواب نہیں دیتا ، جس کی وجہ سے ایک بہت بڑا روحانی خلا موجود رہتا ہے جو انسان کی بیقراری کو مسلسل بڑھاتا ہے ۔اسی طرح سے خالق و مخلوق کے آپسی تعلق کے معاملے میں بھی انسان خود سے کوئی حتمی رائے پیش نہیں کرپاتا اور اگر کوئی کرتا بھی ہے، وہ بس صرف اپنے مفاد کو مدنظر رکھتے ہوئے پیش کرتا ہے ،جیسے دنیا میں خدا کی ذات کے حوالے سے بے شمار نطریات پیش کئے گئے ہیں اور پیش کئے بھی جارہے ہیں ۔کسی نے گرو کو خدا کا مظہر مانا ،کسی نے کائنات کو ہی خدا بنا ڈالا ،کسی نے پہاڑوں اور دریاؤں کو خدا بنا ڈالا اور کسی نے خوبصورت پتھروں کو خدا بنا کر عوام کو بیوقوف بنا یا، اس طرح سے یہ سارے خدائی نظریات کے حامل اپنافائدہ وصول کرتےہیں ۔جہاں نام نہاد روحانیت کے علمبردار ان موضوعات کو سلجھانے میں بری طرح ناکام ہیں وہیں دورِ جدید میں سائنس بذات خود ناکام ہے ۔البتہ سائنس نام نہاد روحانیت کے مقابلے میں انسان کو ٹھوس دلائل تلاش کرنے میں معاونت ضرور فراہم کرتی ہے ۔اس لئے قرآن مجید انسان کو سائنسی اشارات فراہم کرکے یہ باور کرانا چاہتا ہے کہ جہاں انسان کو اس دنیا میں مادی وسائل میں ترقی درکار ہے اس سے کہیں زیادہ بڑھ کر ہدایت کی ضرورت ہے کیونکہ ہدایت انسان کو ذہنی طور پر استحکام فراہم کرتی ہے ،اس روحانی خلا کو پر کرتی ہے جو انسان کو ہر وقت محسوس ہوتا ہے ،مادی زندگی کا اصلی لطف عطا کرتی ہے اور زندگی کا ایک معنی اس کے سامنے کھول دیتی ہے ورنہ ہدایت کی عدم موجودگی میں انسان نےاگرچہ ترقی کے اعلیٰ منازل طے کیوں نہیں کئے ہوں لیکن وہ پھر بھی روحانی زندگی کے بے شمار مسائل سے دوچار رہتا ہے ۔اسے زندگی کا حقیقی لطف حاصل نہیں رہتا بلکہ وہ اپنا کام لذت کی بنیاد پر آگے بڑھاتا ہے جس کا خمیازہ اسے زندگی کے آخری لمحات میں بھگتنا پڑتا ہے ۔لذت ،شوق یا خواہشات انسان کو صرف مادیت کے عذاب میں گرفتار کرتے ہیں جن سے چھٹکارا پانا ناممکن ہے ۔
ہدایت مجرد کوئی اصطلاح نہیں ہے کہ جس کے حدود قیود میں انسان کی صرف اخلاقی پہلو کے جزئیات آتے ہوں بلکہ ہدایت ایک ترقی پذیر عمل ہے جس کا آخری ثمرہ تقویٰ ہے ۔تقویٰ باضابطہ ایک سائنٹفک تصور ہے جو انسان کی خود شناسی اور خدا شناسی کے عمل کی آخری منزل ہے ۔انسان کی کامیابی خود شناسی اور خدا شناسی پر ہی مشتمل ہے ۔سائنس انسان کو جہاں کائنات کے اندر بصیرت پیدا کرنے کا جذبہ پیدا کرتی ہے وہیں خود شناسی اور خدا شناسی کے بے شمار مواقع فراہم کرتی ہے ۔قرآن کریم کی تقریباً سات سو چھپن آیات ایسی ہیں جو براہ راست مظاہرِ فطرت پر غور فکر کی دعوت دیتی ہیں تاکہ انسان ان مظاہر فطرت پر غور کرنے بعد ہدایت حاصل کرے ۔
انسان فطری طور باہر کی مادی دنیا اور اپنے اندر کے روحانی وجودکےدرمیان ایک خلیج محسوس کرتا ہےجس کو پر کرنے کے لئے دورجدید کے اہل دانش نے سنگین غلطی کا ارتکاب کرکے لذت کا انتخاب کیا ہے کیونکہ یہ حضرات جب مذہب کی چنداں ضرورت محسوس نہیں کرتے،اس لئے ان کےہاں ہر مسئلے کا حل مادہ ہے ۔جب کہ قرآن کا نقطہ ٔ نظر اس سے یکسر مختلف ہے ۔قرآن کی رو سے ہر مسئلہ کا حل مادہ نہیں بلکہ ،مادہ محض وقتی ضرورت کی تکمیل کے لئے ہے نہ کہ مسئلہ کا اصلی حل ۔جیسے کھانے کا لقمہ آپ کی بھوک کو مٹا سکتا ہے لیکن آپ کی روحانی تسکین کا سبب نہیں بن سکتا ۔میرا یہ یقین ہے کہ دنیا میں جو بھی کوئی شخض اگر وہ مادی اعتبار سے دنیا کا امیر ترین انسان ہی کیوں نہ ہو لیکن اگر وہ اللہ کے آخری پیغام کےمطابق زندگی نہیں گذارتا اسے کبھی بھی ذہنی سکون حاصل نہیں ہو سکتا ۔