تاریخ گواہ ہے کہ آج سے تقریبا تہتر سال پہلے اس سرزمین پر اسرائیل نامی صیہونی ریاست کا کوئی وجود ہی نہیں تھا۔ پہلی جنگ عظیم سے قبل مٹھی بھریہودی ارض فلسطین پر آباد توتھے۔ یہ اپنے ازلی حریف عیسائیوں کے شر سے محفوظ رہنے کے لیے سینکڑوں سال تک مسلمانوں کے زیر سایہ اپنی زندگی بسر کررہے تھے اور مسلمانوں کے ہوتے ہوئے بنا کسی خوف و خطرکے اپنے مذہبی امور انجام دیتے تھے۔ صیہونی دہشتگردی نامی کتابچہ کے مطابق 1800 ء سے قبل صرف چھ ہزار سات سو یہودی فلسطین میں آباد تھے۔ ایک سوچی سمجھی سازش کے تحت دنیا بھر سے یہودیوں کو اکھٹا کرکے فلسطین کی سرزمین پر بٹھایا گیا اور 1915 ء میں فلسطین میںیہودیوں کا تعداد ستاسی ہزار پانچ سوتک پہنچ گئی اور یہ تعداد بتدریج بڑھتی چلی گئی۔ 1947 ء تک فلسطین کی سرزمین پر چھ لاکھ تیس ہزار یہودیوں کو بسایا گیاجس کا نتیجہ یہ نکلا کہ1948 ء میںامریکہ اور برطانیہ کی ناجائز اولاد غاصب صیہونی ریاست ’’اسرائیل‘‘وجود میں آگئی ۔
پہلی جنگ عظیم ہی تاریخ کا وہ منحوس ترین دور دورہ تھا جب اسلام دشمن قوتوں نے ارض مقدس فلسطین پر یہودی ریاست کی تشکیل کا منصوبہ بنالیا ۔اس منصوبہ کے ماسٹر مائنڈبرطانیہ اور امریکہ تھے جنہوں نے جدید صیہونیت کے بانی کا ر تھوڈورہرٹزل نامی منحوس شخص کو استعمال میں لایا ۔کڑی سازشوں اور ناپاک منصوبوں کے بعد 14 مئی 1948 ء کا وہ تاریک اور منحوس ترین دن آپہنچا کہ فلسطین کی مقدس سرزمین پر صیہونی ریاست کے قیام کو عملی جامہ پہنایا گیا اور مسلمانوں کے قلب میں اسرائیل نام کی غاصب اور غیر قانونی ریاست کے وجود کا اعلان کیا گیا۔اس طرح سے حقوق بشر کے نام نہاد علمبرداروں نے دنیا بھر کے کھربوںمسلمانوں کے جذبات کے ساتھ کھلوڑ کیا اور اقوام متحدہ نے بھی تقسیم فلسطین کا منصوبہ منظور کرکے مسلمانان عالم کو اپنا حقیقی چہرہ دکھایا۔ اسرائیل کا وجود حقوق بشر کے تابوت میں آخری کیل اور انسانیت کے چہرے پر بدنما داغ ثابت ہوا ۔
تاریخ گواہ ہے کہ اپنے ناپاک وجود سے لیکر آج تک اسرائیل نے فلسطین کی سرزمین پر حق رکھنے والے وہاں کے اصلی باشندوں کو ظلم و تشدد کا نشانہ بنا کر انہیں فلسطین سے بے دخل کردیا۔ ریکارڈ تورڈ مظالم کے سہارے فلسطینیوں کو محدود دائرے میں مقید کرکے رکھ دیا۔مظلوم فلسطینی عوام کو درندگی کا نشانہ بنانے کیلئے موساد نامی دہشت گرد گروہ تیار کیا جنہوں نے نہ صرف دسیوں ہزار فلسطینیوں کی قتل و غارتگری کی بلکہ بدنام زمانہ قید خانوں میں ان کے اعضاء کی چوری کی۔
یہ بات اظہر من الشمس ہے کہ یہودی اور عیسائی وجود اسرائیل سے قبل ایک دوسرے کے سخت ترین دشمن شمار ہوتے تھے ۔ آپس میں خون کے پیاسے تھے۔ عیسائی عقیدے کے مطابق یہودیوں کے بانی کار نے ہی قتل عیسٰی ؑ کے منصوبے کو عملی جامہ پہنایا۔ اسی تناظر میں ہٹلر نے بھی اس ٹولہ کو تہہ تیغ کیا۔لیکن مسلمانوں کے خلاف دونوں حریف متحد ہوگئے اور آپس میںگلے مل گئے اور اسرائیل کو جنم دیا ۔سامراج کو ایک بہت بڑا فائدہ یہ ہوا کہ مشرق وسطیٰ میں مسلمانوںپر اپنا دبدبہ قائم کرنے کے لیے ان اڈہ ملا۔
گزشتہ سات دہائیوں سے امریکہ اور برطانیہ کی بھر پور فوجی و اقتصادی مدد سے غاصب ،جابر و سفاک اسرائیل نے اس ملک کے اصلی باشندوں پر ظلم و بربریت کے پہاڑ ڈھائے افسوس کہ ان سات دہائیوں میں مٹھی بھر مجاہدین ملت کے سوا کسی ایک مسلمان نے اسرائیل کی حرکتوں پر اعتراض نہیں کیا۔ اپنے بدنصیب آنکھوں سے فلسطینی عوام کے قتل عام اور قبلہ اول کی بار بار بے حرمتی اور توہین کا نظارہ کرتا رہا۔سچ بات یہ ہے امت مسلمہ نے قبلہ اول کو بُری طرح سے فراموش کیا۔
انقلاب ایران کی کامیابی کے چند ماہ بعد اس انقلاب کے بانی حضرت امام خمینی نے فلسطینی عوام کی حمایت اور قبلہ اول کی بازیابی کے لیے یوم قدس کا تاریخ ساز فتویٰ اگست 1979 میں جاری کیا۔امام خمینی نے یہ فتویٰ صیہونیت کی جانب سے منائے جانے والے یوم یروشلم کی مخالفت کے تناظر میں جاری کیا۔یوم قدس کے اس تاریخ ساز فتوے نے اسرائیل کے ایوانوں میں ہلچل مچادی۔اسرائیل اور اس کے آقا بخوبی سمجھ گئے کہ امام خمینی کے اس اقدام سے فراموش شدہ مسئلہ فلسطین زندہ و جاوید بن جائے گا، لہٰذا انہوں نے ایران کے خلاف بھی چالبازیاںاور پروپیگنڈے شروع کیے۔نت نئے حربے اور ہتھکنڈے آزمائے ۔آئے روزپابندیوں کا دائرہ وسیع کردیااورانقلاب کی قیادت کو زیر کرنے کی حتیٰ الامکان کوشش کی لیکن امام راحل کی اس مدبرانہ اور ولولہ انگیز قیادت نے جھکنے،بکنے اور تھکنے کا نام تک بھی نہ لیا نہ ہی کبھی فلسطینیوں کی حمایت سے دستبرداری کا احساس کیا۔امام راحل نے کردار یزیدی کے مقابل حسینیؑ کردار نبھایا ۔
یوم قدس دراصل برطانیہ امریکہ اور اسرائیل سمیت دیگرغاصب قوتوں کے خلاف نفرت وبیزاری کا دن ہے۔ملت مرحومہ کے لیے حیات بخش دن ہے ۔خفتہ ضمیر ملت کے لیے بیداری کا دن ہے ۔مسلمانوں کی آزادی کا دن ہے۔قبلہ اول کی بازیابی کادن ہے ۔القدس لنا کا نعرہ رسول اسلام ؐ کے مقدس مشن کا نعرہ ہے۔ انقلاب کے اس پروردہ نعرے نے شرق و غرب کے مظلوم عوام کو ظلم و جور کے آگے سر اٹھا کے چلنے کا سلیقہ سکھایا۔اس نعرہ نے مظلوم کو ظالم کے خلاف آواز اٹھانے کی ہمت اور حوصلہ عطا کیا۔
امام خمینی نے1979ء میں دنیا بھر کے مسلمانوں سے رمضان المبارک کے آخری جمعے کو یوم قدس منانے کی اپیل کی۔ آج بلا لحاظ مسلک و ملت و مذہب 80سے زائد ممالک میں آزاد منش افراد رمضان المبارک کے آخری جمعے کو روز جہانی قدس کے طور پر مناتے ہیں ۔امام خمینی فرماتے ہیں :’’میری دنیا بھر کے مسلمانوں سے اپیل ہیں کہ وہ ماہ رمضان کے آخری جمعہ کو یوم القدس کے طور پر منائیںاور اس دن فلسطین کے مسلمان عوام کے قانونی حقوق حمایت میں اپنے اتحاد و یکجہتی کا عملی مظاہرہ کریں ‘‘۔
بہر حال یوم قدس ایک بہترین موقع ہے کہ تمام مسلمان متحد و بیدار ہوجائیں۔فروعی اختلافات کو بالئے طاق رکھ کر قبلہ اول کی بازیابی اور فلسطینی عوام کی حمایت کا اعلان کریں ۔نہ صرف اعلان بلکہ زمینی سطح پر فلسطین کی آزادی کے لیے جدوجہد کریںاور مسلم ممالک میں استعماری سازشوں کا خاتمہ کرکے اپنی تقدیر کا فیصلہ خود کریں