تحریک اسلامی کے بانی اول ،انقلاب جہاں کے فاتح اول، سعید اعظم در یتیم یکتائے زمانہ کی بارگاہ سے چند اسباق جو دلوں کو بدلنے کی قوت رکھتے ہیں ۔جزیرہ عرب دنیا کا ایک ایسا جزیرہ کہ جس کا نام لب پے آتے ہی عجب کیفیت پیدا ہوجاتی ہے۔ اس نام سے اصحاب ایمان کی قلبی انسیت ہے۔ لوگ اس نام سے آج کی چکا چوند چمک کے سبب واقف نہیں بلکہ اس کا ایک خاص سبب ہے ،اور وہ سبب ہے محمد عربی صلی اللہ علیہ وسلم کا اسم گرامی، جن کی آمد اہلِ جہاں کے لئے باعث افتخار ہے کہ وہ آئے اور شب ظلمت کے اندھیرے ختم ہونے لگے اور صبحِ بہار کی آمد قلب و نظر کو تسکین بخشنے لگے ان کی نوید آمد سے ؎
آمنہ کے لال سے شمس وقمر شرما گئے
روشنی پھیلی فضا جھومی محمد آگئے
آج مدت ہوئی اس پاکیزہ و صالح گھڑی کو جب دنیا میں رحمت و شفقت کی آمد ہوئی، جب محبت ،اخوت، سادگی، شرافت، تہذیب و ثقافت ،ادب و شائستگی کی بہار آئی، جب پاکیزہ اخلاق و کردار مجسم صورت میں دکھائی دیئے، جب انسانیت کو معراج کی راہ دکھانے والے ایک پاکیزہ شخصیت جس کی آمد کی نوید سابقہ انبیاء کرام علیہم السلام نے دی تھی جس کے منتظر آسمان و زمین کی ایک کثیر خلق تھی کہ اس کے اسم مبارکہ سے سعید روحیں آشنا تھیں، وہ آئے اس حال میں کہ ان کی انگلی پکڑنے والا والد دنیا سے انتقال کرچکا تھا ۔آئے توحالت یتیمی میں مگربڑی ہی خوبصورت شکل و صورت کے مالک اپنی امی کی گود میں آئے تو حالت قابل رشک تھی،جب اس بیوہ خاتون کی جھولی بھری تھی ،وہ اپنے شریک حیات کے غم سے نڈھال تھی، اُسے مولا نے امید دی اور ایک لخت جگر عطا کیا ۔یتیمی کچھ یوں تھی جیسے کہ رب العزت فرماتے ہیں :اَلَم یَجِدکَ یَتِیمًا فَاٰوٰی
’’کیا اُس نے تم کو یتیم نہیں پایا اور پھر ٹھِکانا فراہم کیا‘‘؟
یعنی تمہیں چھوڑ دینے اور تم سے ناراض ہوجانے کا کیا سوال، ہم تو اس وقت سے تم پر مہربان ہیں جب تم یتیم پیدا ہوئے تھے۔ حضور ابھی بطن مادر ہی میں چھ مہینے کے تھے جب آپ کے والد ماجد کا انتقال ہوگیا، اس لیے آپ دنیا میں یتیم ہی کی حیثیت سے تشریف لائے۔ مگر اللہ تعالیٰ نے ایک دن بھی آپ کو بے سہارا نہ چھوڑا۔ چھ سال کی عمر تک والدہ ماجدہ آپ کی پرورش کرتی رہیں۔ ان کی شفقت سے محروم ہوئے تو 8 سال کی عمر تک آپ کے جد ِامجد نے آپ کو اس طرح پالا کہ ان کو نہ صرف آپ سے غیر معمولی محبت تھی بلکہ ان کو آپ پر فخر تھا اور وہ لوگوں سے کہا کرتے تھے کہ میرا یہ بیٹا ایک دن دنیا میں بڑا نام پیدا کرے گا۔ اُن کا بھی انتقال ہوگیا تو آپ کے حقیقی چچا ابو طالب نے آپ کی کفالت اپنے ذمے لی اور آپ کے ساتھ ایسی محبت کا برتاؤ کیا کہ کوئی باپ بھی اس سے زیادہ نہیں کرسکتا، حتیٰ کہ نبوت کے بعد جب ساری قوم آپؐ کی دشمن ہوگئی تھی ،اس وقت دس سال تک وہی آپ کی حمایت میں سینہ سپر رہے۔
امیرِ کاروانِ زیست امام الانبیاء تم ہو
خدا کے خاص پیغمبر محمد مصطفیٰ تم ہو
یوں اس معصوم کی تربیت ،پرورش اس حال میں ہوئی کہ کبھی ابا کی جدائی تو کبھی امی کی جدائی، وہ لمحے کس قدر اذیت سے گزرے ہوں، جب اس معصوم بچے کو اس کی والد کی جدائی کی خبر ہوئی ہوگئی اور پھر اپنی امی کی گود سے محروم ہوکر چلنا پھرنا ہنسنا کھیلنا کس قدر ناممکن ہوتا ہے، یہ یتیم ہی جانتے ہیں ۔ اس پُر درد دور انِ کرب کے لمحات میں اللہ تعالیٰ ایک سے بڑھ کر ایک معاون فراہم کرتا رہا، اس معصوم نے اب جوانی کی دہلیز پر قدم رکھا تو تجارت کی غرض سے سفر شام ہوا، ایک پاکیزہ صفات سے مزین خاتون نے اپنی تجارتی سرگرمیوں میں وسعت لانے کے لئے انہیں شامل کیا ،اپنی تجارتی سرگرمیوں میں اور ان کے اعلی اخلاقی اقدار و امانت و دیانت سے متاثر ہوکر نکاح کی خواہش کا اظہار کردیا ،اس نکاح کی برکات کیا ہیں یہ الگ موضوع ہے۔
دنیا کی لذت و چاشنی سے دل نہ لگا تو فکر و نظر کو تلاش حق کی ہوئی اور اب یہ نوجوان مختلف حوادث کائنات کی مختلف اقسام کو سوچنے لگا ۔انسانیت جو اب انسانیت سے زیادہ حیوانیت کی دہلیز پر کھڑی تھی کے بارے میں متفکر ہوا اور گوشئہ تنہائی اور سکوت لب کے ساتھ محو پرواز رہے کہ اچانک سے ایک غار کی تنہائی میں فرشتہ ہدایت نامہ لے کر حاضر ہوا اور فرمایا اقراء۔یوں دنیائے جہالت و رزالت میں علم و تزکیہ کی ایک تحریک شروع ہوئی ،جس تحریک کا اولین مبلغ یہی عظیم شخصیت بنی ،جس کا اسم گرامی محمد الرسول اللہ ؐہے ۔
امیرِ کاروانِ زیست امام الانبیاء تم ہو
خدا کے خاص پیغمبر محمد مصطفیٰ تم ہو
نبوت کا زمانہ :عمر عزیز کی چالیس بہاریں دیکھ چکے تھے، زمانے کے اتار چڑھاؤ سے بخوبی واقف تھے، زمانے کے دئیے زخم اور اس کی لذت آفرینی سے واقف تھے ،اس کی جہالت اس کی نفسانیت اس کی جنگ و جدل حرام کاری و بے حیائی مطلب کہ جو بھی ظلمات کی اقسام تھیں محمد عربی صلی اللہ علیہ وسلم پوری طرح سے ان سے واقف تھے۔ وہ جانتے تھے لات منات و عزی کوئی تصوراتی خاکہ نہیں بلکہ یہ عقائد و نظریات کے محافظ بنے ہوئے ہیں ،یہ صرف پتھر کی مورتیاں ہی نہیں بلکہ یہ جاہلیت کے فرستادے اور فرماں رساں بنے ہوئے ہیں ۔ایسے جہالت زدہ ماحول میں صدائے لا الہ الا اللہ کا لگانا ایسا تھا کہ اپنی موت کو دعوت از خود دی جاتی کہ آجا پر جرأت و حمیت سے سرشار ایمانی لذت سے مزین قلب لئے پوری قوت سے شب ظلمت کے ان پاسبانون کی جمعیت میں مستانہ وار صدائے لا الہ الا اللہ بلند کی اور پوری قوت سے کی ،جس کا سننا تھا کہ وہ کفار جن کے اذہان میں صرف غلاظت بچی ہوئی تھی، جن کی سوچنے اور سمجھنے کی صلاحیت ختم ہوچکی تھی، نے یک زبان و یک آواز سے اس صدائے حق کو نکار دیا، قیادت و سیادت کا لبادہ اوڑھے کچھ بدقماش لوگوں نے اب یہاں سے اس عظیم صدا کو دبانے کی کوششیں تیز سے تیز تر کرنے کی سعی شروع کی، ایک طوفان تھا کہ ظلمت کے نگہبان اسے مزید ہوا دے رہے تھے ،وہ عرب تھے وہ جانتے تھے کہ لا الہ الا اللہ صرف ایک لفاظی کی گردان نہیں بلکہ یہ ہمارے دیرینہ اقتدار ،ہماری جاہ و حشمت کے لئے سم قاتل ہے، وہ اپنی انانیت، چودھراہٹ کو کیوں کر جلدی سے بھول جاتے، انہوں نے پوری قوت سے مخالفت کی ۔
صدائے لا الہ الا اللہ کے بعد جب انہوں نے سنا محمد الرسول اللہ تو انہوں نے اب اپنی چودھراہٹ کے سہارے طعن کرنا شروع کیے کہ ایک یتیم و مفلس، ایک بے سہارا کیونکر ہمارا امیر و قائد ہوسکتا ہے۔ وہ جانتے تھے ان کی اقتداء کی تو ہماری امامت و لیڈری کا خاتمہ لازم ہے، وہ سمجھتے تھے کہ یہ کوئی عام تحریک نہیں بلکہ یہ تو ہمارے پھیلائے افسانوی علوم و نظریات کودفن کرنے والی ایک پاکیزہ صفات سے مزین تحریک ہے، گر بروقت اس کا تدارک نہ کیا گیا تو یہ پورے جزیرہ عرب کو اپنی لپیٹ میں لے کر بے نام و نشان کر دے گی ہماری فرسودہ رویات و کھوکھلی ثقافت کو ،زمانہ نبوت کے ابتدائی حالات اس قدر سخت اور اذیت ناک کہا گر ربِ کریم قرن اول کے اصحاب رسول کی دلجوئی نہ کرتا تو اللہ ہی جانتا ہے کہ انجام کیا ہوا ہوتا ،یہ سفر صعوبت اس قدر ہیبت ناک کہ تاریخ کا طالب علم پڑھ کر سن کر لرز جاتا ہے اور ایک آہ برکر تڑپتا ہوا تاریخ اسلامی کے شامل اولین نفوس قدسیہ کی پامردی و غیرت ایمانی کو دنیائے استقامت کے استعارہ ماننے کے سوا کوئی راہ اسے نظر نہیں آتی، جب اس جور و جبر کی طرف سے انفرادی و اجتماعی سطح پر ڈھائے جارہے تخت ستم میں بنے مشق ستم سعید روحیں صبر استقامت کے ساتھ کھڑی رہیں تو اب باطل کے ایوانوں میں شورش طوفان کھڑا ہوگیا، جس کے زیر عتاب یہ قافلہ سخت جان اپنے گھر بار اپنے وطن عزیز اپنے چاہنے والوں سے کنارہ کرتے ہوئے عازم ہجرت ہوگئے۔
بتانِ رنگ وخوں کو توڑ ملت میں گم ہوجا
نہ تورانی رہے باقی نہ ایرانی نہ افغانی
(جاری)۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
(سوپور کشمیر۔([email protected]