فیض احمد فیض نہ صر ف اردو کے بلکہ دنیائے ادب کے ایک بڑے شاعر ہیں۔اگرچہ فیض ایک ترقی پسند شاعر ہیں اوروہ ترقی پسند تحریک سے وابستہ تھے لیکن جہاں تک فیض کی مقبولیت کا تعلق ہے تو یہ کہنا بیجا نہیں کہ فیض کو آج اُن کے حریف یا’’ جدیدیت پرست‘‘بھی ایک بڑا شاعر تسلیم کرنے پر اپنے آپ کو مجبور پاتے ہیں۔ فیض کی شعری عظمت کا سب سے پہلا اور بڑا پہلو یہ ہے کہ چاہے اُن کی عشقیہ یا رومانی شاعری ہو یاانقلابی شاعری ، ہر طرح کی شاعری میں انہوں نے فن کے جمالیاتی اوصاف کا بھرپور خیال رکھا۔ایسا کم ہی دیکھنے کو ملتا ہے جہاں ان کی فن پر گرفت ڈھیلی نظر آئے ۔اور جہاں تک انقلابی شاعری کا تعلق ہے تو ایسے میں فنی اور جمالیاتی اقدار کا پاس و لحاظ رکھنا اور بھی مشکل ہوجاتا ہے۔لیکن فیض اس منزل سے بھی کامیابی کے ساتھ گزر گئے ۔ فیض کی اسی شاعرانہ عظمت کے بارے میں پروفیسر انور پاشا رقمطراز ہیں:
’’ فیض کی شاعری کے متعلق اکثر یہ کہا جاتا ہے کہ ان کی شاعری رومان اور حقیقت کا بہترین سنگم ہے۔ ۔۔۔
چونکہ فیض نے کوئے یار سے سوئے دار کی منزلیں طے کی تھیں۔اس لیے ان کی شاعری میں جذبے کی صداقت اور خون جگر کی نمود ہر دو سطح پر دکھائی دیتی ہے۔ان کا انقلابی آہنگ بھی شیرینی اور حلاوت کی چاشنی میں کھلا ہوا محسوس ہوتا ہے جو قاری کے جمالیاتی وجدان کو برانگیختہ کرنے کے ساتھ ساتھ اسے زندگی کی تلخ اور زہرناک حقیقتوں سے آشنا بھی کراتا ہے لیکن اس طرح کہ طبیعت گرانی محسوس کرنے کی بجائے بصیرت افروز کیفیت سے ہمکنار ہوجاتی ہے۔‘‘ اس سلسلے میں فیض کے یہ چند شعر ملاحضہ ہوں
جمے گی کیسے بساطِ یاراں کہ شیشہ و جام بجھ گئے ہیں
سجے گی کیسے شبِ نگاراں کہ دل سرِ شام بجھ گئے ہیں
بہت سنبھالا وفا کا پیماں، مگر وہ برسی ہے اب کے برکھا
ہر ایک اقرار مٹ گیا ہے،تمام پیغام بجھ گئے ہیں
(زنداں کی ایک شام)
فیض نے بھی ابتدا میں کچھ عشقیہ شاعری کی لیکن بہت جلد وہ اس رنگ سے باہر آئے اور جب انہوں نے اپنے معاشرے، سماج اور ساتھ ہی ملک کی موجودہ سیاست پر غور کیا تو وہ اس نتیجے پر پہنچ گئے کہ موجودہ وقت میں ایک نئے نظام اور نئے انقلاب کی بہت ضرورت ہے۔فیض کا یقین اب پختہ ہوچکا تھا کہ مروجہ سیاسی و سماجی نظام نے کس طرح سماج میں مزدوروں و غریبوں کو دبائے رکھا ہے اور کس طرح ان مظلوم طبقوں کا استحصال کیاجاتا ہے۔وہ نوآبادکاری کے اس کھیل سے بھی واقف ہوچکے تھے جس کے ذریعے صدیوں تک انگریزوں نے ایشیائی لوگوں کو محکوم بنائے رکھا اور پھر ان کا استحصال کیا ۔فیض نے بارہا اس سامراجی و استحصالی نظام کو للکارا جس نے غریبوں اور مزدوروں کے خون سے اپنی نام نہاد ’تہذیب‘ تعمیر کی تھی۔انہوں نے انگریزوں اور ان کے زرخرید غلاموں کا پردہ فاش کیا ۔
فیض کے اسی احتجاجی اور باغیانہ لہجہ کی گونج آج پہلے سے زیادہ سنائی دیتی ہے اور آج بھی دنیا کے مظلوموں کو حوصلہ عطا کرتی ہے کہ اب سامراجیت اور سرمایہ داری نظام نے استحصال کی نئی نئی صورتوں کو جنم دیا ہے۔اس سلسلے میں فیض کی شاعری سے چند مثالیں ملاحظہ ہوں:
بول کہ لب آزاد ہیں تیرے
بول ،زباں اب تیری ہے
تیرا ستواں جسم ہے تیرا
بول، کہ جاں اب تیری ہے
دیکھ ، کہ آہن گر کی دکاں میں
تند ہیں شعلے ، سُرخ ہے آہن
کھلنے لگے قفلوں کے دہانے
پھیلا ہر اک زنجیر کا دامن
بول ، یہ تھوڑا وقت بہت ہے
جسم و زباں ک موت سے پہلے
بول، کہ سچ زندہ ہے اب تک
بول جو کچھ کہنا ہے کہہ لے
(بول)
ہم پرورش لوح و قلم کرتے رہیں گے
جو دل پہ گزرتی ہے رقم کرتے رہیں گے
ہاں تلخیٔ ایّام ابھی او ر بڑھے گی
ہاں اہل ستم ، مشق ستم کرتے رہیں گے
منظور یہ تلخی ، یہ ستم ہم کو گوارا
دم ہے تو مداوائے الم کرتے رہیں گے
اک طرز تغافل ہے سو وہ ان کو مبارک
اک عرضِ تمنا ہے سو وہ ہم کرتے رہیں گے
(لوح و قلم)
یونہی ہمیشہ الجھتی رہی ہے ظلم سے خلق
نہ ان کی رسم نئی ہے نہ اپنی ریت نئی
یونہی ہمیشہ کھلائے ہیں ہم نے آگ میںپھول
نہ ان کی ہار نئی ہے نہ اپنی جیت نئی
(نثار میں تیری گلیوں کے۔۔۔۔)ایسی بہت سی مثالیں دی جاسکتی ہیں جن سے فیض کا کلام بھرا پڑا ہے جہاں فیض مظلوموں کو زبان عطا کرتے نظر آتے ہیں اور ان کی طرف سے واضح طور پر کھڑے ہوتے ہیں ۔
ایک بڑے شاعر کی طرح فیض جہاں اپنے دور سے متاثر ہوئے وہیں انہوں نے نہ صرف اپنے دور کو متاثر کیا بلکہ فیض کی مقبولیت اور ان کے کلام کی معنویت دن بہ دن بڑھتی جارہی ہے کہ آج ظالم نے استحصال کے نئے نئے طریقے ایجاد کیے ہیں۔سامراجیت اور سرمایہ دارانہ نظام نے آج پہلے سے کہیں زیادہ اپنے پر پھیلائے ہیں اور ایشیائی اقوام ان استحصالی اور مکروہ نظاموں کے سب سے زیادہ شکار ہو رہے ہیں۔وہیں فیض آج سماج کے دوسرے پچھڑے اور مظلوم طبقات کی آواز بن کر ابھر رہے ہیں۔فیض نے اپنی شاعری کے ذریعے ظلم و ناانصافی کے خلاف بارہا اپنی آواز بلند کی:
گڑی ہیں کتنی صلیبیں مرے دریچے میں
ہر ایک اپنے مسیحا کے خوں کا رنگ لیے
ہر ایک وصلِ خداوند کی امند لیے
کسی پہ کرتے ہیں ابر ِ بہار کو قرباں
کسی پہ قتل مہ تابناک کرتے ہیں
کسی پہ ہوتی ہے سرمست شاخسار دو نیم
کسی پہ بادِ سبا کو ہلاک کرتے ہیں
ہر آئے دن یہ خداوند گانِ مہر وجمال
لہو میں غرق مرے غم کدے میں آتے ہیں
(دریچہ)
بیسویں صدی میں اقبال کے بعد فیض اردو کے سب سے بڑے شاعر تسلیم کیے جاتے ہیں اور یہ بجا بھی ہے کہ فیض نے بڑی ہنر مندی سے اپنی وقت کے سیاسی و سماجی و دیگر میلانات کو اپنی شاعری میں سمویا۔ فیض نے متعدد نظموں میں پاکستان کے حکمرانوں کو للکارا اور ان کی چنگیزی کی نکتہ چینی کی۔دراصل فیض پاکستانی حکمرانوں کی فریب کاریوں اور مکاریوں سے پوری طرح واقف ہوچکے تھے اور انہوں نے بارہا اپنی شاعری میں ان مسائل کو موضوع بنایا۔اس طرح وہ پاکستانی حکمرانوں کا نشانہ بھی بنے اور انہیں جیل بھی جانا پڑا لیکن ایک سچے انقلابی شاعر کی طرح فیض نے جیل میں اس ظلم کے خلاف اپنی آواز اٹھائی:
پھر حشر کے ساماں ہوئے ایوان ہوس میں
بیٹھے ہیں ذوی العدل گنہگار کھڑے ہیں
ہاں جرم وفا دیکھئے کس کس پہ ہو ثابت
وہ سارے خطا کار سرِ دار کھڑے ہیں
(قطعہ: دست صبا)
چند روز اور مری جان فقط چند ہی روز
ظلم کی چھائوں میں دم لینے پر مجبور ہیں ہم
اور کچھ دیر ستم سہہ لیں، تڑپ لیں رو لیں
اپنے اجداد کی میراث ہے، معزور ہیں ہم
(چند روز اور مری جان)
فیض نے اپنی شاعری کے ذریعے مزدوروں ، مظلوموں اور ناداروں کو آواز عطا کی ۔انہوں نے سماج کے مظلوم طبقوں کے ساتھ روا رکھی جانے والی نا انصافی اور ظلم کے خلاف ہمیشہ اپنی آواز بلند کی ۔ فیض کا اختصاص ہے کہ انہوں نے ان مظلوم طبقوں کی مجبور زندگی کو موضوع بھی بنایا اور پھر ان مظلوموں کے ساتھ روا رکھے جانے والے مظالم کے خلاف بھی بولے۔چند مثالیں ملاحظہ ہوں:
یہ گلیوں کے آوارہ بیکار کتے
کہ بخشا گیا جن کو ذوق گدائی
یہ ہر ایک کی ٹھوکریں کھانے والے
یہ فاقوں سے اکتا کے مر جانے والے
یہ مظلوم مخلوق گر سر اٹھائے
تو انسان سب سرکشی بھول جائے
یہ چاہیں تو دنیا کو اپنا بنالیں
یہ آقائوں کی ہڈیاں تک چبالیں
(کتّے)
فیض نے فلسطین،بیروت اور دوسرے افریقی ممالک میں سامراجی طاقتوں کے مظالم کے خلاف آوازاٹھائی۔ان مظالم پر اُن کا دل تڑپ اٹھتا ہے۔ اُن کی شاعری محض ذاتی غم نہیں بلکہ اجتماعی احساس و واردات کا المیہ اپنے اندر لیے ہوئے ہے۔ یوں فیض کی شاعری میں عالمی مسائل جیسے موضوعات بھی پائے جاتے ہیں۔ فیض نے فسلطینی کے مظلوم اور یتیم بچوں کے لیے لوریاں بھی لکھی ہیں۔’’فلسطینی بچے کی لوری‘‘ کا یہ بند ملاحظہ ہو:
مت رو بچے /رو روکے ابھی/ تیری امی کی آنکھ لگی ہے/مت رو بچے/کچھ ہی پہلے/
تیرے ابا نے/اپنے غم سے رخصت لی ہے/مت رو بچے
فیض نے زنداں میں اور زنداں سے باہر، تنہائی اور انجمن میں ، وطن میں اور وطن سے باہر ہرمقام پر شاعری کے ذریعے اپنے احتجاجی لہجے کو برقرار رکھا ۔انہوں نے اپنی شاعری کو صرف فارم یا ہئیت کا اسیر نہیں ہونے دیا بلکہ فیض کا سب سے بڑا کمال یہی ہے کہ اُن کے یہاں باغیانہ لہجہ کے ساتھ ساتھ ایک طرح کا جمالیاتی شعور بھی ملتا ہے جس سے ان کی شاعری کو وہ تب وتاب عطا ہوتی ہے جو عوام وخواص دونوں کے دلوں کو گرماتی ہے اور قاری کوایک نئی دنیا کی سیر کراتی ہے اور یہی فیض کا مخصوص شعری لہجہ اور شعری امتیاز ہے۔
پتہ: جواہرلال نہرو یونیورسٹی،نئی دہلی
������