اسلام کاایک اہم تقاضا یہ ہے کہ جودین کواختیارکرے وہ تواصی بالحق کے جذبے کے تحت دوسروںکوبھی برابراس کی تلقین ونصیحت کرتے رہیں۔دین کایہی مطالبہ ہے جس کے لئے ہم دعوت وتبلیغ کی اصطلاح استعمال کرتے ہیں۔قرآن کے مطالعے سے اس کاجوقانون واضح ہوتاہے وہ مختلف حیثیتوںسے بالکل الگ الگ صورتوںمیںاس کے ماننے والوںپرعائدہوتاہے۔پیغمبروں کی دعوت کسی وضاحت کی حاجت نہیںرکھتی البتہ رسولوںکی دعوت میںانذار،اتمامِ حجت اورہجرت وبراء ت کے مراحل سے گزرکر دین کی شہادت جب قائم ہوتی ہے اوربالکل آخری حدتک رسول علیہ السّلام مدعو قوم پرحجت کااتمام کرتاہے تودنیاوآخرت میںفیصلہ الٰہی کی بنیادبن جاتی ہے۔چنانچہ اللہ تعالٰی رسولوںکوغلبہ عطاکرتاہے اوراس دعوت کے منکرین کواس دنیامیںہی عبرت کانشان بناتاہے۔
آخری رسول حضرت محمدﷺ کے بعدامت پراس کی ذمہ داری آن پڑی کہ وہ بے کم وکاست اس دعوت حق کواپنی بساط،صلاحیت اورحدودمیںرہ کر’معروف ‘سے لوگوںکوآگاہ کریںاور’منکرات ‘کے برے نتائج سے انہیںڈرائے۔لیکن اس جدوجہدمیںدعوت دین کے ساتھ ایک بڑاحادثہ یہ ہواکی ہم نے وہ حدودوقیود ملحوظ نہ رکھے جودین کاداعی یادوسرے لفظوںمیںدین کا’ترجمان‘بن کرہمیںہرقیمت پرملحوظ رکھنے تھے۔بلاشبہ اسلام کی تمام تعلیمات اپنی اصل حالت میںموجودہیںمگراس کی تعبیراورتشریح میںگذشتہ ڈیڑھ ہزارسال میںزمانہ کے اعتبارسے تبدیلی ہوتی رہی۔یہاںتک کہ ہم اکیسویںصدی عیسوی میںداخل ہوگئے ہیں۔مفکرین نے امتدادِزمانہ کے مطابق دین کی تعبیرپیش کی تاکہ عوام کودین پرچلناآسان ہو۔یوںمرورِزمانہ کے ساتھ ساتھ دین کی تعبیروتشریح میںجدّت آتی گئی۔مفکرین نے دین کے اصول وفرع کوسمجھ کراپنے اپنے ادوارمیںاس کی تفہیم کی اوراپنی اُس ذاتی فہم کودنیاکے سامنے لاکے رکھا ۔عوام کی معتدبہ تعدادنے اُس ’تفہیم‘کوحق بجانب سمجھ کرقبول کیااورجوکچھ انہوںنے سمجھا،قول وفعل سے اُس تعبیر ِدین کی تشہیروتبلیغ کرتے گئے۔لیکن اس سب مساعی میںایک بڑی خرابی جودرآئی وہ یہ ہے کہ اکثریت اس بات پرمُصرہے کہ جوکچھ انہوںنے سمجھا،دین کی جوتفہیم انہوںنے حاصل کی ،جودعوت لے کروہ خوداٹھے ہیںیاجومنہج انہوںنے اختیارکیا،بس وہی برحق ہے اورمبالغہ آرائی ایسی کہ خودکو’کشتی نوح‘اور’ہدایت وضلالت‘ کا معیار گردانا۔اُن کے نقطئہ نظرسے اختلاف جیسے ’شجرممنوعہ ‘ٹھہرا۔اِس طرح سے فکری آزادی،اختلافِ رائے جیسے جامدہوکر رہ گئی۔
نبوّت آںحضورﷺپرختم ہوگئی ۔دوسرے لفظوںمیںوحی کاسلسلہ اب اختتام کوپہنچا۔جبرائیل علیہ السلام کی ’رسالت‘کاکام اب ختم ہو ا۔ ’حق ‘ و ’باطل‘ کی جنگ کااب وہ معیارنہ رہا۔جنت وجہنم بانٹنے کی ذمہ داری صاحبین ِ منبرومحراب کی نہیںرہی۔ضال ومضل کی ’اسناد‘تقسیم کرناداعیوںکاکام نہیں۔یہ فیصلے وحی کی آمدورفت کے محتاج ہیںجس کاسلسلہ اب کائنات کی ’موت‘ تک بندہوچکاہے۔اس وجہ سے یہ حق اب اِس زمین پرکسی شخص کونہیںرہاکہ وہ اپنی رائے یاکسی کے نقطئہ نظرکوحق کی حتمی حجت اوراپنے کسی قول وفعل کو حق وباطل کا’معیار‘قراردے کرعوام سے اُس کی پیروی کا مطالبہ کرے۔یہ صرف انبیاء ورُسل کاحق ہے اوریہ صرف اُنہی کامقام ہے کہ خوداللہ تعالٰی یہ اعلان کرے کہ’’تیرے پروردگارکی قسم !یہ لوگ مومن نہیںہوسکتے جب تک اپنے اختلافات میںتمھی کوحکم نہ مانیںاورجوفیصلہ تم کردو،اپنے دلوںمیںتنگی محسوس کئے بغیراُس کے آگے اپنے سرنہ جھکادیں۔‘‘(سورۃ النّساء۔۶۵)
پیغمبرکے بعداب جوشخص بھی دعوت کے میدان میںآئے گا،اُس کامنصب یہی ہے کہ وہ اپنی بات قرآن وسنت کے دلائل کے ساتھ لوگوںکے سامنے پیش کرے اورمخاطبین کوواضح کرے کہ اُس نے جوکچھ دین کوسمجھاہے ،جوتحقیق کی ہے ،وہ خوداُس کی صحت پرتومطمئن ہے البتہ اس فہم وتعبیرمیںوہ غلطی کاامکان بہرحال تسلیم کرتاہے۔اس کے علاوہ کوئی الہام،القاء،خواب اورکوئی شرحِ صدربھی یہ حیثیت نہیںرکھتاکہ اُس کے حامل کے متعلق یہ دعوٰی کیاجائے کہ بقول شاہ اسماعیل شہیدؒ’’پس حق،جہاںیہ ہستی گھومتی ہے،اُس کے ساتھ ہی گھومتارہتاہے۔‘‘یہ ایک متوازن رویہ ہے جومفکرین،داعیین ، تنظیموںاورجماعتوںکوسمجھناچاہئے۔
اعتدال ایک ایسا رویہ ہے جو زندگی کے ہر شعبہ میں انسان کو ممکنہ خسارے سے روک لیتا ہے۔ انسان فطری طور پر کسی ایک جانب جھولنے کا عادی بن چکا ہے کبھی تو وہ خیر و برکت کا سرچشمہ تو کبھی شر کا استعارہ بن جاتا ہے۔ خیر کی جانب سبقت زیادہ تر انسان کو عصبیت میں مبتلا کر دیتی ہے جبکہ تعصب ایک لاعلاج ذہنی تفاوت ہے۔ جو معاشرے میں عموماً فتنہ کا باعث بن جاتا ہے انسان کے مابین ہونے والی نزع کا عمومی ماخذ دراصل یہی تعصب ہی ہوتا ہے۔ تعصب مذہبی معاملات میں ہو یا دنیاوی، بہرحال ایک غیر متوازن رویے کے اظہار کا نام ہے۔ فکر انسانی وجود کو ڈرائیو کرتی ہے۔ چنانچہ ہم کہہ سکتے ہیں کہ انسان کے ہر عمل کے پیچھے دراصل اْس کی فکر ہی کارفرما ہوتی ہے۔ چاہے انسان اس کا ادراک رکھتا ہو یا اس سے منزہ ہو بہرحال وہ فکر کی اطاعت اپنے اعمال سے ثابت کرتا رہتا ہے۔ اگر فکر میں جھول ہے تو عمل میں بھی جھول صاف نظر آ جائے گا۔ اگر فکر میں توازن ہے تو پھر عمل بھی متوازن ہی ظاہر ہو گا ۔توازن نظم کی اکائی ہے دنیا میں آپ جہاں پر بھی اخلاقیات یا سماجیات میں تنظیم دیکھیں گے تو اس کا گہرائی سے تجزیہ کرنے کے بعد معلوم ہوگا کہ یہ دراصل فکری توازن کا ہی نتیجہ ہے ۔فکری غلامی اگر انسان سے اْس کی خودی چھین لیتی ہے تو مطلق فکری آزادی اْس کو ایک آزاد جانور بننے پر مجبور کر دیتی ہے۔ انسان دراصل نیت کے خدوخال کا نام ہے۔ عمل ایک روشنی کی مانند انسان کے لئے تکمیلِ اسباب کا باعث بنتا چلا جاتا ہے۔ فکری غلامی جہاں انسان کو ہست و بود سے بیگانہ کر دیتی ہے تو وہاں مطلق فکری آزادی انسان کیلئے ایک مستقل سزا بن جاتی ہے۔
انیسویںاوربیسویںصدی سے ہی دین کی خدمت کے لئے اورلوگوںکی اصلاح،تزکیہ علم وعمل اورتطہیرِجماعت ِ مسلمین کے لئے چند قد آور شخصیات اٹھیں جنہوںنے اپنے فہم کوشرح وبسط کے ساتھ مخاطبین کے سامنے رکھا۔ہندوپاک کی ’جماعت ِ اسلامی‘ ہویا’تبلیغی جماعت‘،مصراورعالم ِ عرب کی ’اخوان المسلمون ‘ہویافلسطین کی تحریکِ ’ حمّاس‘ وغیرہ ،ان سب کامقصداسلام کوسماج میںکسی حدتک جاری وساری کرنے کاہے اورمقصدکی آبیاری کے لئے ابھی بھی ہمہ تن تگ وتازمیںمصروف ہیں۔طریقے اورمنہج میںاختلاف ہوسکتاہے مگرسب خلوصِ نیت سے دعوتِ دین کی جدوجہدکرتے رہے ہیں۔معتدبہ تعداداُن لوگوںکی فکرسے متاثرہوئے اوراُس قافلہ کے راہی بنے۔اکثریت نے اختلاف کیااورکچھ لوگوںنے شدت سے اختلاف کیا۔توازن ہردوطرف سے مفقودتھا۔کوئی انسانی کاوش،فکراورنظریہ غلطیوں سے مبرّانہیں۔اسلام نے فردکومناسب حدودمیںاختلاف کاحق دیا ہے۔لیکن زمانہ جوں جوں گزرتا گیا،اختلافات میںتعصّب کی شدت آگئی ،یہاںتک کہ آگے چل کراس نے ایسی ناگوارصورت اختیارکرلی کہ امت کااتحادپارہ پارہ ہوگیا۔بیسویںصدی میںعالمِ اسلام میںبرپاہونے والی تحریکوںکاوسیع کینواس تھا۔انہوںنے مسلمانوںکوقرآنی پیغام کہ’ دین میںپورے کے پورے داخل ہوجائو‘کی طرف بلایا۔مکمل اسلام کے نفاذکی انہوںنے جدوجہدکی ۔مغرب کے فکری،تہذیبی اورعسکری حملوں کے خلاف زبردست علمی مورچہ بندی کی۔اُن جماعتوں اور تنظیموںکامختصرتعارف ذیل میںپیش کیاجاتاہے۔…(جاری)
رابطہ۔مرکزبرائے تحقیق وپالیسی مطالعات ،بارہمولہ کشمیر