۱۔ تبلیغی جماعت :
بیسویںصدی کی تیسری دہائی میںہندوستان کے دیہاتوںمیںآریوںکی کوششوںسے ارتدادکی وبابڑے زوروںپرتھی۔اس آگ کوبجھانے کے لئے ہندوستان کے یمین ویسارسے مسلمان انجمنیںسرگرم عمل ہوئیں۔انہی حالات میںمولانامحمدالیاس نےؒخاموشی کے ساتھ اس وباسے مسلم اذہان کومحفوظ رکھنے کے لئے مبنی برخلوص جدوجہدشروع کی۔مولاناالیاس مرحوم نے اپنامرکز’میوات‘کوبنایااورایک دہائی کے اندراندروہاںکی کایاہی پلٹ دی۔’میو‘قوم دہلی کے گردونواح اورقرب وجوارمیںآبادتھے۔میوات کے مسلمانوںکی مذہبی حالت کے بارے میںانیسویںصدی کے ایک انگریزآفیسرومؤرخ میجر پائولٹ لکھتے ہیں:
’’میوات تمام ترمسلمان ہیںلیکن برائے نام۔ان کے گائوںکے دیوتاوہی ہیںجوہندوزمینداروںکے ہیں۔وہ ہندوئوںکے کئی ایک تہوارمناتے ہیں۔ہولی میواتیوں میںمذاق اورکھیل کھیلنے کازمانہ ہے اوراتناہی اہم اورضروری تہوارسمجھاجاتاہے جتنامحرم،عیداورشب برات۔اسی طرح وہ جنم اشٹمی، دسہرہ اوردیوالی مناتے ہیں۔۔۔’میو‘اپنے دین سے بہت ناواقف ہیں۔خال خال کوئی کلمہ جانتاہے اورپابندی سے نمازپڑھنے والے اس سے بھی کم ہیں۔۔۔میو اپنی عادات میںآدھے ہندوہیں۔ان کے گائوں میں شاذ و ناد ر ہی مسجدیںہیں۔(بحوالہ’ مولانامحمدالیاس اوران کی دینی دعوت‘۔ص ۶۸)
ان حالات میںمولاناالیاسؒ نے دعوت کاآغازکیااوراپنی محنت اورجانفشانی سے وہاںکے باشندوںمیںدین کے تئیںرغبت پیدا کی۔مسجدیں تعمیراورآبادہوگئیں۔صدہامدارس قائم ہوئے۔اکتوبر۱۹۳۹ء کومولاناسیدابوالاعلیٰ مودودی ’میوات‘گئے ۔دوران سفرجومشاہدہ انہوںنے کیا،اس کاخاکہ انہوںاپنے قلم سے یوںکھینچا:
’’مولانامحترم(مولاناالیاس مرحوم)نے خوداسی قوم کے مبلغوںسے اس کی اصلاح کاکام لیااوران کی پیہم کوششوںکانتیجہ ،جومیںخوداپنی آنکھوں سے دیکھ آیاہوںیہ ہے کہ بعض علاقوںمیںگائوں کے گائو ںایسے ہیںجہاںایک بچہ بھی آپ کوبے نمازی نہ ملے گا۔دیہات کی وہ مسجدیں جہاں یہ لوگ کبھی اپنے مویشی باندھتے تھے،آج وہاںپانچوںوقت کی اذان اورجماعت ہوتی ہے۔آپ کسی راہ چلتے دیہاتی کوروک کراس کاامتحان لیںتووہ آپ کوصحیح تلفظ کے ساتھ ’کلمہ‘سنائے گا۔۔۔ان کے عادات وخصائل اوران کے اخلاق میںبھی اس مذہبی تعلیم وتبلیغ کی وجہ سے نمایاںفرق ہوگیاہے۔اب وہ متمدن اور مہذب طرززندگی کی طرف پلٹ رہے ہیں۔جرائم میںحیرت انگیزکمی ہوگئی ہے۔‘‘(ترجمان القرآن،جلد۱۵۔عدد۲،اکتوبر۱۹۳۹)
مولانانے ذاتی تجربے سے محسوس کیاکہ ضروری ہے کہ اصلاحِ احوال کے لئے ایک دینی ماحول پیداکیاجائے جوگھربیٹھے ممکن نہیں۔عوام کووقت فارغ کرکے علماء وصلحاء کی صحبت میں کچھ وقت بتاناچاہئے۔جماعتوںکوتشکیل دیاجائے اورقریہ قریہ،گاوئوںگاوئوںاپنی اورابنائے قوم کی اصلاح کے لئے ہردرپرجاناچاہئے۔مولانامحمدزکریامرحوم کوایک خط میںلکھتے ہیں:
’’عرصہ سے میراخیال ہے کہ جب تک علمی طبقہ کے حضرات اشاعت دین کے لئے خودجاکرعوام کے دروازوںکونہ کھٹکھٹائیںاورعوام کی طرح یہ بھی گاوئوں گاوئوں اور شہرشہراس کام کے لئے گشت نہ کریں،اس وقت تک یہ کام وجہ تکمیل کونہیںپہنچ سکتا۔کیونکہ عوام پرجواثراہل علم کے علم وحرکت سے ہوگاوہ ان کی دھواںدھارتقریروںسے نہیں ہوسکتا۔اپنے اسلاف کی زندگی سے بھی یہی نمایاںہے کہ جوآپ حضرات اہل علم پربخوبی روشن ہے ۔‘‘ ( مولانامحمدالیاس اوران کی دینی دعوت ۔ ص ۱۱۵۔۱۱۴)
دعوت اورتبلیغ کے لئے مولاناالیاسؒ نے گشت اورسفرکاطریقہ اختیارکیا۔مصروف زندگی میںعارضی ترکِ وطن یا’غربت‘اختیارکرنے پر لوگوں کو آمادہ کیاجائے تاکہ یکسوہوکروہ دین کی بنیادی باتیں،کلمہ،نمازوغیرہ کاعلم حاصل کریں۔مولانامرحلہ وارمسلمانانِ ہندکی اصلاح کرناچاہتے تھے۔ابتداکلمہ ونمازکی درستگی اورانہیںباورکراناکہ ہم کس عظیم دین کے وارث ہیں۔اس کے شانہ بشانہ وہ دین کواجتماعی زندگی میںبھی عملانے کے خواہاںتھے ،وہ لکھتے ہیں:
’’جس قوم کی پستی کلمہ لااِلہ الّا اللہ کے لفظوںسے بھی گرچکی ہو،وہ ابتداسے درستی کئے بغیرانتہاکی درستگی کے کب قابل ہوسکتی ہے۔انتہاابتداکے درست ہوئے بغیرنہیںہوسکتی،اس لئے میںنے درمیانی اورانتہائی خیالات بالکل نکال دئے۔ابتدادرست ہوکرراستہ پرپڑجائیںگے توانتہاپرخودبھی پہنچ جائیںگے اورابتداکے بگڑے ہوئے،انتہاکی درستگی کاخیال ہوس اوربوالہوسی کے سواکچھ نہیں۔‘‘(احیائے دین اورہندوستانی علماء۔ص۲۴۱ ازڈاکٹرعبیداللہ فہد)
اس جماعت کے چھ بنیادی اصول ہیں۔یہ جماعت ان اصولوںکے اردگردگھومتی ہے۔تصحیح کلمہ،تصحیح نماز،تصحیح علم وذکر،تفریغ اوقات،اکرامِ مسلم اورتصحیح نیت۔جماعت پورے عزم کے ساتھ ان اصولوںپرکاربندہے اوراستقامت کے ساتھ جماعت کے کاموںمیںدلچسپی کامظاہرہ کرتے ہیں۔تبلیغی جماعت کئی پہلوئوںسے مفیداورکارآمدخدمات انجام دے رہی ہے۔مسلمانوںکے اُن طبقات تک انہوںنے دین پہنچانے کی کوشش کی ہے جن تک عام حالات میںکسی اورکے ذریعے سے دین پہنچاناممکن نہیںہوتا۔وہ اپنی مخلصانہ کوششوںمیںمصروف ہے جس کی قدردانی ہمارااخلاقی فریضہ ہے۔تبلیغی جماعت اپنی نمایاںخصوصیات اورمنفرداوصاف کی وجہ سے پوری دنیامیںامتیازی حیثیت سے جانی جاتی ہے۔دنیاکے ۲۱۰سے زائدممالک میں یہ کام انجام پارہاہے۔ایک اندازے کے مطابق ۳۰ملین سے زیادہ افراداس جماعت سے وابستہ ہے۔اس طرح یہ دنیاکی سب سے بڑی مسلمانوںکی مذہبی جماعت ہے۔جماعت کاسیاست سے کوئی تعلق نہیں۔فنڈنگ اورچندہ کاکوئی نظام نہیں۔نشرواشاعت کاکوئی محکمہ نہیں۔ان کی زندگی کامحور’کلمہ‘ کاصحت الفاظ کے ساتھ یادکرنااوراس کے معنی ومفہوم کوسمجھنااورذہن نشین کرکے اپنی پوری زندگی کواس کے موافق بنانے کی فکرکرناہے۔نمازکی پابندی اس کے آداب وشرائط کالحاظ رکھتے ہوئے خشوع وخضوع کے ساتھ اداکرنا۔شب وروزکے اکثراوقات ذکروفکراوریادِالٰہی میںگزارناہے۔البتہ قرآن کے ساتھ وابستگی ودلبستگی کے جوطریقے مولانااحتشام الحسینؒکاندھلوی نے بانی جماعت مولانامحمدالیاسؒکے ارشادکے مطابق مرتب فرمایاتھااورتبلیغی جماعت کی مشہورکتاب’فضائلِ اعمال‘کاایک جزء بھی ہے،اُس پرہنوزعمل پیراہوناباقی ہے،وہ لکھتے ہیں:
’’قرآن کریم کے ساتھ وابستگی ودلبستگی پیداکرناجس کے دوطریقے ہیں: (الف) کچھ وقت روزانہ ادب واحترام کے ساتھ معنی ومفہوم کادھیان رکھتے ہوئے تلاوت کرنا۔ (ب) اپنے بچوںاوراپنے محلّہ اورگاوئوںکے لڑکوںاورلڑکیوںکوقرآن مجیداورمذہبی تعلیم کی فکرکرنااورہرکام پراس کومقدم رکھنا۔‘‘(پستی کاواحدعلاج۔ص۶۴۶)
لیکن حقیقت میںنوّے سالوںسے یہ جماعت کچھ معاملات میں اُسی ڈگرپرہے جس پرمولاناالیاس مرحوم اسے چھوڑکرگئے ہیں۔اس جماعت کو’تحریک‘کہناکسی طوربھی مناسب نہیںکیونکہ ’تحریک ‘نام ہے یک رنگی اورجمودکوتوڑکرتحرّک وتبدّل پیداکرنے کا۔ابتداسے ارتقاء کی طرف سفرکا۔حالات وواقعات کودیکھ کرتقاضوںکو پُرکرنے کا۔لیکن ’تبلیغی جماعت‘میںیہ سب چیزیںمفقودہیں۔وہی’ کلمہ‘کی تصحیح اورنمازوںکی تاکیدجومولاناالیاس نے اُس ماحول میںشروع کیاتھا،جس ماحول کواس چیزکی ضرورت تھی۔دنیابہت آگے بڑھ چکی ہے۔دورِجدیدکے نئے تقاضے ہیں۔اس جماعت کواب آگے بڑھناچاہئے۔تبلیغی جماعت اصل میں ایک اصلاحی جماعت ہے۔انہوںنے خصوصی طورپرمسلمانوںکی بستیوںکواپنی دعوت کادائرہ کاربنایا۔اس جماعت کی بے پایاںخدمات ہیںلیکن کوئی انسانی کاوش تسامح اورکمزوریوںسے مبرّانہیں۔تبلیغی جماعت بھی ان چیزوںسے پاک نہیں۔اس جماعت میں چند چیزیںقابل اصلاح ہیں:
۱۔ جیساکہ سطورِبالامیںلکھاگیاکہ جس پس منظرمیںمولاناالیاسؒنے اس جماعت کی بنیادرکھی ،اُس وقت میوات میںاُسی چیزکی ضرورت تھی لیکن جوںجوںزمانہ آگے بڑھا ترجیحات میںبھی تبدیلی لانالازمی تھی۔جس کلمہ کی تصحیح اُس خاص ماحول میںمولاناکرتے رہے،وہ ماحول اب نہیںرہا۔اس جماعت کو’جمود‘کوتوڑکراب ’تحریک‘پیداکرناچاہئے۔
۲۔ اسلام صرف مسلمانوںکی میراث نہیںبلکہ غیرمسلم بھی اس کے مخاطب ہیں۔تبلیغی جماعت اس وقت پوری دنیامیںکام کررہی ہے۔سب سے بڑی منظم جماعت کے طورپہچانی جاتی ہے لیکن یہ جماعت صرف مسلمانوںکے بیچ رہ کر ان کی اصلاح کی جدوجہدمیںمصروف ہے۔ جماعت کوچاہئے کہ دنیا کے غیرمسلم حضرات کوبھی دعوت دین کامخاطب بنائیں۔اس کام کوبھی اپنی ترجیحات میں شامل کریں۔
۳۔ مسلک اورمکتبہ فکرقابلِ تبلیغ وتشہیرنہیں۔اللہ ہم سے اس بارے میںسوال نہیںکرنے والاکہ ہم نے اپنے مسلک کودنیاکے کتنے حصے پر’غالب‘ کیا اورکتنی بڑی جمعیت کواپنی ’فکر‘کااسیربنایاہے۔قابل تبلیغ صرف اسلام ہے۔اپنے حدودمیںرہ کر،اپنی صلاحیتوںکوبروئے کارلاکراُس دین کوعام کیا جائے جورسول اللہ ﷺلے کرآئے تھے۔لیکن ہماری دینی جماعتوںکاحادثہ یہ ہے کہ وہ لوگوںکواپنے مسلک،مکتبِ فکراورنظریہ پر’ایمان ‘لانے کے لئے شب وروزاپنی صلاحیتیںکھپارہے ہیںاورجواس پر’ایمان‘نہ لائے اُس کے عقیدے کوشُبہ کی نظرسے دیکھتے ہیں۔یہ اپروچ دینی جماعتوںکے لئے لمحئہ مرثیہ ہے۔
۴۔ اسلام صرف ’کلمہ‘اور’نماز‘تک ہی محدودنہیںہے۔بلکہ زندگی گزارنے کے لئے ایک مکمل نظام ہے ۔ عبادات، معاملات، سیاست، معاشرت ،معیشت،صلح،جنگ غرض سب کچھ اس میںشامل ہے ۔بدلتے زمانے کے تقاضوںنے اس کے احکام کوقصہ پارینہ نہیںبنایااورنہ اس کے عجائبات تاقیامت ختم ہونگے۔اس لئے تبلیغی جماعت کوبھی اپنے متبعین ودیگرمسلمانوںکے سامنے اسلام کی مکمل تصویرپیش کرنی چاہئے۔مولاناالیاسؒکامقصودبھی یہی تھا۔مولانامرحوم نے حافظ عبدالطیف کوایک خط میںلکھاتھاکہ:
’’زیادہ زوراس امرپردیاجائے کہ قوم اپنی پنچایتیںاوراپنے سب کاروباراورسب فیصلے شریعت کے موافق کرنے ہی کواسلام سمجھے ،ورنہ اسلام نہایت ناقص ہے بلکہ بسااوقات احکام شرعیہ کی بے وقعتی اوربے رخی اورتوہین کی بدولت اسلام جاتارہتاہے اوریقینََاکمزورہوجاتاہے۔‘‘(احیائے دین اورہندوستانی علماء۔ص۲۴۲)
مولاناالیاسؒ نے جودعوت شروع کی تھی اُس کاایک مقصدتنفیذِشریعت کے لئے سازگارماحول پیداکرنابھی تھالیکن رفتہ رفتہ اُن کی وہ تعلیمات زمانہ کے ’گرد‘تلے دب گئی:
’’ہماری اس تحریک کااصل مقصدہے مسلمانوںکو’جمیع ماجاء بہ النّبی‘سکھانا۔یہ توہے ہمارااصلی مقصد۔رہی قافلوںکی چلت پھرت اورتبلیغی گشت، سو یہ اس مقصدکے لئے ابتدائی ذریعہ ہے اورکلمہ ونمازکی تلقین وتعلیم گویاپورے نصاب کی الف‘ب‘ت‘ ہے۔‘‘(ملفوظات حضرت مولاناالیاس۔ص۳۱)
۵۔ اسلام میںکافی وسعت ہے۔ہردورمیںعلماء،محقیقن ومشاہیردین پرغورکر کے فہم حاصل کرکے اُس پرعمل پیراہوتے رہے ہیں اورہوتے رہیں گے ۔جتنی بھی جماعتیں،ادارے اورتنظیمیںقائم ہوئی ہیںیاہونگی۔وہ جس نظریہ یافکرکے حامل ہوں،ظاہرہے وہ سب اب اجتہادی جماعتیںیانظریے اورافکارہیں۔اب کوئی براہِ راست اللہ تعالٰی کی طرف سے مامورنہیںاورنہ ہی کسی پراب جبرائیلؑ عرش سے کوئی پیغام لاتے ہیں۔اجتہاد،فہمِ دین یانظریہ وفکر پرایمان لانامسلمانوںپرفرض ہے نہ ہی کسی امیر،صدریاپیرکی بیعت ’ہدایت یافتہ‘ہونے کی ضمانت۔خودکو’ناجی‘یا’کشتی نوح‘میںسواراور’حق‘کی علمبردار جماعت تصورکرکے باقی مسلمانوںکواس ’حق‘سے منحرف وگمراہ گرداننابہت بڑی زیادتی ہے۔اس دعوے کاکوئی سرہے نہ پیر ۔ جماعتوں ، تنظیموںا ور اداروں کویہ سمجھ لیناچاہئے کہ حتمی طورکسی کوحق یاباطل اورگمراہ یاہدایت یافتہ گرداننا،یہ صرف انبیاء ورُسل کاکام تھا،ہمارانہیں۔چاہے کوئی کتنا بڑاعلامہ دہرہی کیوںنہ ہو۔
۶۔ حضورﷺنے قرآن کے ذریعے مکہ ومدینہ میںصحابہؓ میںصالح تبدیلی لائی۔اُن کے اخلاق واطوارسنوارے۔ذریعہ دعوت قرآن تھااورکوئی چیزنہیں۔ایمان اوراسلام کی تفہیم اُن صالح نفوس نے قرآن کے ذریعے ہی حاصل کی۔فی زمانہ ہمارے اسلاف نے معاشرے کے امراض کواسی نسخٗہ کیمیاسے علاج کیاجورسالتمآب ﷺجبلِ نوُرکی اُس غارسے لائے تھے اورتئیس سال تک لوگوںکے باطنی امراض کاعلاج کرتے رہے۔مذکورہ جماعت اس نسخہ سے بے پروادکھائی دیتی ہے۔کارِنبوّت بغیرقرآن کی تبلیغ،تشہیروتفہیم کے ممکن نہیں۔اسے سمجھنا،عملانااورسمجھانا اصل میںیہی توکارنبوت ہے اورموجودہ دورکاتقاضابھی۔امامِ مالک ؒ نے توکہاتھاکہ’جس چیزنے اس اُمت کے ابتداکی اصلاح کی،وہی اِس اُمت کے انتہاکی اصلاح کرسکتا ہے ۔ ‘ لیکن اس وقت قرآن کووہ اہمیت نہیںدی جاتی جس کایہ ہدایت نامہ مستحق ہے۔تبلیغی جماعت کوقرآن کوہی اپنی دعوت،اصلاح اورتذکیہ علم وعمل کاذریعہ بناناچاہیے ۔…… (جاری)
رابطہ۔مرکزبرائے تحقیق وپالیسی مطالعات،بارہمولہ کشمیر