فورسز کے ہاتھوں لوگوں کی تنگ طلبی

سرینگر//سی پی آئی ایم نے وادی خاص کر جنوبی کشمیر میں عام شہریوں کی گرفتاریوں پر تشویش ظاہر کرتے ہوئے حکام پر زور دیاہے کہ ایسی کارروائیاں انجام دینے سے گریز کیاجائے جس سے عوامی سطح پر غم وغصہ میں مزید اضافہ ہونے کا اندیشہ ہو ۔ سی پی آئی ایم کے سینئر رہنما و ممبراسمبلی کولگام محمد یوسف تاریگامی نے کہاکہ لوگوں کی طرف سے ایسی شکایات سامنے آرہی ہیں کہ پولیس و سیکورٹی فورسز کی طرف سے انہیں تنگ طلب کیاجاتاہے اور عام شہریوں کی گرفتاریاں عمل میں لائی جارہی ہیں ۔تاریگامی نے کہاکہ املاک کو نقصان پہنچانے کے الزامات بھی عائد کئے جارہے ہیں۔ان کاکہناتھاکہ اس طرح کی کارورائیاں حالات کو مزید مخدوش بنادیں گی اور لوگوں میں پایاجارہا غم وغصہ اور بڑھ جائے گا ۔انہوںنے کہاکہ پولیس قانونی تقاضوں کو پورا کرنے کی مجاز ہے لیکن اس بات کو یقینی بنایاجاناچاہئے کہ کسی بھی بے قصور شہری کے ساتھ ناانصافی نہ ہونے پائے اور نہ ہی اس کو بغیر کسی وجہ کے گرفتار کیاجائے ۔انہوں نے کہاکہ جس قد رممکن ہو عوام کا اعتما د حاصل کرنے کی کوشش کی جائے اور حالات کی بہتری کیلئے اگر کہیں صبر و ضبط سے بھی کام لینے کی ضرورت پڑے تو ایسا کیاجاناچاہئے کیونکہ اس وقت سب کا مقصد حالات کو مزید خراب ہونے سے بچاناہوناچاہئے ۔انہوں نے کہاکہ یہ بات واضح ہوچکی ہے کہ انتقام کی کارروائیاں کسی بھی طور پر موثر ثابت نہیں ہوسکتی بلکہ اس سے حالات زیادہ خراب بن جاتے ہیں لہٰذا کسی بھی فریق کو انتقام کی کارروائیوں پر یقین نہیں رکھناچاہئے اور نہ ہی پولیس اہلکاروں یا جنگجوئوں کے اہل خانہ کو اس لڑائی میں گھسیٹاجائے ۔انہوں نے کہاکہ پی ایس اے کا اندھا دھند استعمال کیاجارہاہے اور بیرون وادی جیلوں میں منتقلی صریحاًناانصافی ہے جس پر فوری طور پر روک لگنی چاہئے ۔تاریگامی کاکہناہے کہ حالات کو معمول پر لانے کیلئے اعتماد سازی کے اقدامات کرنے کی ضرورت ہے اور فوری طور پر ایسے اقدامات کئے جائیںجس سے لوگوں کا کھوتاجارہا اعتماد بحال ہوسکے جس سے ہی موجودہ خلیج ختم ہوسکتی ہے ۔تاریگامی نے کہاکہ سی پی آئی ایم اس بات پر یقین رکھتی ہے کہ بزور طاقت کوئی بھی مسئلہ حل نہیں کیاجاسکتا اور نہ ہی اس طرح سے کوئی جنگ جیتی جاسکتی ہے بلکہ تصفیہ کے حل کیلئے بات چیت کا راستہ اختیار کیاجاناچاہئے جوبہترین لائحہ عمل بھی ہے ۔ان کاکہناتھاکہ یہ کوئی لااینڈ آرڈر کا مسئلہ نہیں کہ پولیس قانونی کارروائی کرکے اس سے نمٹ لے گی بلکہ اس کے حل کیلئے سیاسی سطح پر اقدامات اٹھانے ہوں گے تاہم بدقسمتی سے اس پر سنجیدگی کا مظاہرہ نہیں کیاجارہا۔