واشنگٹن //افغانستان کی قومی حکومت میں شامل ایک سرکردہ راہنما نے اس بات پر زور دیا ہے کہ نیٹو کو اْن کے لڑائی میں الجھے ملک کی جانب متوجہ رہنے میں پیش پیش رہنا چاہیئے، تاکہ مشرق وسطیٰ اور جنوبی ایشیا میں دہشت گرد گروپوں کو شکست سے ہمکنار کیا جا سکے۔حکومت کے چیف اگزیکٹو، عبداللہ عبداللہ اس اختتام ہفتہ 'ہیلیفیکس انٹرنیشنل سکیورٹی فورم' میں خاص مہمان اسپیکر تھے۔اْنھوں نے کہا ہے کہ نیٹو کی جانب سیعراق پر خصوصی توجہ مبذول کیے جانے کے بعد، اْن کا ملک کھلی دہشت گردی کی کارروائیوں کی زد میں ہے۔'سی بی سی ریڈیو' کی 'دی ہائوس' نامی پوڈکاسٹ ایڈیشن کو دیے گئے ایک انٹرویو میں، اْنھوں نے کہا کہ 2014ء میں افغانستان سے فوجوں کا انخلا، جس اقدام میں کینیڈا بھی شامل تھا، اْس کا بہت منفی اثر پڑا۔بقول اْن کے، ''جب میں پلٹ کر گذشتہ برسوں کی طرف دیکھتا ہوں کہ عراق کی جانب زیادہ توجہ ہے، تو لگتا ہے کہ افغانستان کو بھلایا جا رہا ہے، اور طالبان اور القاعدہ، نے اس صورتِ حال کا پورا پورا فائدہ اٹھایا''۔اْنھوں نے کہا کہ فوجی، سیاسی اور سفارتی قائدین کا زیادہ تر دھیان شمالی کوریا، روس اور عراق کے فوری نوعیت کی سلامتی کی تشویش کے معاملوں پر مرتکز رہا ہے۔ اْن کا کہنا تھا کہ افغانستان کی جانب اتنی توجہ نہیں دی جا رہی ہے۔امریکی صدر ڈونالڈ ٹرمپ نے اگست میں اعلان کیا کہ وہ افغانستان میں فوج کی نفری میں اضافہ کریں گے۔ اس ہفتے، پینٹاگان نے اس بات کی تصدیق کی ہے کہ افغانستان میں تعینات فوجوں کی تعداد بڑھ کر 14000 ہو چکی ہے۔فوج میں اضافے کی درخواست جنرل جان نکلسن نے کی تھی، جو افغانستان میں نیٹو کے 'رزولوٹ سپورٹ مشن' کے چوٹی کے اہل کار ہیں، جس کا کام افغان سکیورٹی فورسز کی تربیت، مشاورت اور حمایت ہے۔عبداللہ نے 'سی بی سی نیوز' کو بتایا کہ 'ہیلیفکس فورم' کے احاطے کے باہر اْن کی کینیڈا کے وزیر دفاع، ہرجیت سجن سے ملاقات ہوئی، جس میں اْنھوں نے فوجی تربیت کے سلسلے میں اْن سے مزید اعانت پر زور دیا ہے۔