اسرائیل نے فلسطینیوں پر جو ظلم کی انتہا کردی وہ اصل میں تمام مسلمانوں کے لیے ایک پیغام ہے کہ ’’یہودی اور صیہونی غنڈے مسلمانوں سے یہ کہہ رہے ہیں کہ ہم تمہاری تہذیب کو دفنا رہے ہیں اور ہمارا یقین ہے کہ مسلمانوں کے مقدر میں صرف غلامی ہے۔ ہم فلسطیں کے کھنڈروں پر اپنا پرچم لہرا دیں گے، ہماری جو اپنی تہذیب ہے اُس کو مسلمان مرد، عورتوں ، بچوں اور بزرگوں کے خون سے سیراب کردیں گے۔ اے مسلمانو! آپ اس چیز سے باخبر ہو کہ آپ کے ساتھ ہر جگہ جانوروں کا سلوک کیا جا رہا ہے لیکن ہم آپ کے دلوں کو اس طرح قید کریں گے کہ آپ کو اپنی پستیوں کا احساس بھی نہیں ہوگا‘‘۔
آپ کو معلوم ہونا چاہیے کہ ''ابلیس کی مجلس ِ شوریٰ'' میں پہلے مشیر نے کیا کہا تھا۔ آپ ہی کے ایک مفکر، دانشور، شاعر اور فلسفی نے آپ کو سمجھایا کہ جس کو آپ شاعر مشرق بھی کہتے ہو۔ ہم اپنے دشمن یعنی علامہ اقبالؒ کی بات کر رہے ہیں کہ جس نے اپنے کلام کے ذریعے ہمارے سارے راز فاش کر دئیے ؎
اس میں کیا شک ہے کہ محکم ہے یہ ابلیسی نظام
پختہ تر اس سے ہوئے خوئے غلامی میں عوام
ہے ازل سے اِن غریبوں کے مقدر میں سجود
ان کی فطرت کا تقاضا ہے نمازِ بے قیام
یہودیوں کے بارے میں جب مطالعہ کرتے ہیں تو ہم اس چیز سے آشنا ہو جاتے ہیں کہ تین ہزار برسوں سے یہ قوم دربدری کا شکار رہی۔یہودیوں کو مسلم حکومتوں کے بغیر کسی جگہ قرار حاصل نہیں ہوا ۔ یہ طویل در بدری ان کے مفکرین کے لیے سوہانِ روح تھی ۔ اس لیے صدیوں کے بعد ان کے دل میں یہ بات آئی کہ ان کا اپنا ہوم لینڈ ہونا چاہیے لہٰذا انہوں نے صیہون کے نام سے تحریک شروع کی۔
موجودہ صیہونی تحریک تھیوڈور ہرتذل کی اٹھائی ہوئی ہے ۔ یہ ایک مشہور یہودی صحافی گزرا ہے ، ہنگری کے شہر ''بوڈاپسٹ '' میں۱۸۶۰ ء میں پیدا ہوا۔ اس کی زندگی کا مقصد تھا کہ سارے عالم پر یہودیوں کی حکومت قائم ہو اور اس کی ابتدا اس طرح ہو کہ فلسطین میں یہودی حکومت قائم ہو۔
اس طرح سرسری طور پر آپ اندازہ لگا سکتے ہیں کہ یہودیوں کا کوئی ٹھکانہ نہیں تھا بلکہ ان کو ہر جگہ رسوائی کا سامنا کرنا پڑا۔جن لوگوں نے یہودیوں کی نسل کشی کی موجودہ دور میں وہی لوگ اب رہنمائی اور اخوت کا درس دے رہے ہیں گویا کہ تاریخ میں خود انہوں نے ان چیزوں کا عملی نمونہ پیش کیا ہے۔ یہودیوں کو اس بات کا بخوبی اندازہ ہے کہ کس طرح لاکھوں کی تعداد میں ان کو گیس چیمبر کے ذریعے موت کے گھاٹ اتار دیا جاتا۔ اسی طرح یہودیوں کو جرمنی کے وہ افسر شاہی بھی یاد ہوں گے کہ جو ان کی نسل کشی میں پیش پیش تھے۔
اسرائیل ان چیزوں سے آشنا ہونے کے باوجود مسلمانوں سے ہی خفگی کا اظہار کرتا رہا کیوں کہ دیگر اقوام کی سر زمین پر پیر رکھنے کی ابھی اُن کے پاس صلاحیت نہیں تھی لیکن آہستہ آہستہ انہوںکچھ نئے حربے عمل میں لائے جن کی بدولت انہوں نے دنیا کے بیشتر ملکوں کی ہمدردی حاصل کرنے کی کوشش کی اور کئی برسوں کے بعد اس میں کامیاب بھی ہوئے۔یہ عالمی برادری ہی ہے جس نے برطانیہ کو اپنی تجویز پیش کی کہ وہ یہودیوں کے لیے فلسطین میں ''قومی گھر'' کی تشکیل کریں۔
اگر فلسطین کی تاریخ کا جائزہ لیا جائے تو سب سے پہلے وہاں کنعانیوں نے سکونت اختیار کی ۔ کنعان پرانے زمانے میں فلسطین کے اُس حصے کو کہتے تھے جو دریائے اردن کے مغربی کنارے سے بحیرئہ روم کے ساحل تک پھیلا ہوا تھا اور جسے ہم آج کل فلسطین کہتے ہیں۔(مختصر تاریخ ِ اسلام از مولانا غلام رسول مہرؔ، سرزمین ِ کنعان باب نمبر ۴)
جہاں تک یہودیوں کی بات ہے تو وہ ابراہیم علیہ سلام کے چھ سو سال بعد فلسطین میں داخل ہوئیں یعنی ۱۴۰۰ ق م میں۔کنعانیوں اور یہودیوں کے درمیاں ۴۵۰۰ سال کا وقفہ ہے۔ (الصہیونیۃ ،نشأتھا،تنظیماتھا، أنشطتھا لأحمد العوضي، ص ۷)
مختصر طور پر بات یہ ہے کہ تاریخی اوراق بھی موجودہ یہودی مطالبات کو مسترد کرتے ہیں۔ یہ دوسری بات ہے کہ اسرائیل کو مغرب کا تحفظ حاصل ہے اور اسی تحفظ کی بنا پر اسرائیل نے فلسطیں پر اپنا مسلسل تشدد برقرار رکھاہے۔ عرب ممالک کا حال دیکھ لیجیے۔ پہلے یہ امریکہ ہی تھا جس نے متحدہ عرب امارات سے مطالبہ کیا گیا کہ اسرائیل کو ایک یہودی ریاست کے طور پر تسلیم کیا جائے ۔بعد میں یہی سبق دیگر عرب ممالک کو پڑھایا گیا کہ اسرائیل کے وجود کو تسلیم کیا جائے۔
آج بھی فلسطین میں اسرائیل کا تشدد جاری ہے اور پوری دنیا اس پر خاموش ہے۔ لہٰذا غور کرنے کی ضرورت ہے کہ فلسطین صرف اسرائیل کے ساتھ نہیں لڑ رہا بلکہ مغرب کے ساتھ بھی صف آرا ہے۔ دوسری طرف مسلم ممالک کو دیکھ لیجیے شاید مسجد ِ اقصیٰ کی تاریخ کو اپنے ساتھ جوڑنے کے لیے تیار نہیںیا شاید اس بات کا احساس نہیں رکھتے ہیں کہ خانہ کعبہ اور مسجد نبویﷺ کے بعد تیسرا مقدس ترین مقام ہے۔
’’مسجدِ اقصیٰ ‘‘ لاالٰہ الا اللہ کہنے والے کرۂ ارض کے ہر شخص کا مسئلہ ہے، خواہ اس کا کوئی رنگ ہے اور کوئی لسان۔ کوئی صوبہ، کوئی ضلع اور کوئی قصبہ!(بیت المقدس ڈیڑھ ارب مسلمانوں کا مسئلہ ، مقدمہ)
اگر اس چیز کو نظر انداز کر کے یہی اعتقاد رکھا گیاکہ فلسطین اور دیگر مسلم ممالک کی کنجیاں مغرب کے حوالے کر دی جائیں تو شاعرِ مشرق علامہ اقبالؔ کی اُس نظم کو دہرانے کی ضرورت ہے جس میں وہ فلسطینی عرب سے مخاطب ہیں ؎
زمانہ اب بھی نہیں جس کے سوز سے فارغ
میں جانتا ہوں وہ آتش تیرے وجود میں ہے
تیری دوا نہ جنیوا میں ہے، نہ لندن میں
فرنگ کی رگِ جاں پنجۂ یہود میں ہے
(مضمون نگار پیشے سے استادہیں۔اُن سے فون نمبر 7889873764 اور ای میل [email protected] پر رابطہ کیا جاسکتا ہے)