مقبوضہ فلسطین میں طوق غلامی کو گرانبار کرنے کیلئے اور غلامی کی زنجیروں کومحکم تر کرنے کیلئے سازشوں کا جال بنا جا رہا ہے۔فلسطین میں امنیت قائم کرنے کے نام پہ فلسطینیوںکے حقوق پہ ڈاکہ ڈالنے کی سازشیں ایک قصہ ء نا تمام بنتا جا رہا ہے۔ عصر حاضر میںاِس سازش کا تانا بانا کاخ سفید سے جڑتا ہے جو کہ امریکی صدارت کا دفتر ہے لیکن در اصل سرغنہ صہیونزم کی وہ تحریک ہے جس نے کم و بیش پچھلی ایک صدی سے فلسطینیوں کا جینا حرام کر دیا۔سازش کی شروعات تب ہوئی جب برطانیہ نے سسکتی ہوئی خلافت عثمانیہ سے فلسطین کا منڈیٹ حاصل کیا ۔ برطانوی سامراجیت کے وزیرآرتھر بالفور نے 1917 ء میں 2 نومبر کے روز ایک مراسلے میں صہیونی تحریک کے ایک سر گرم لیڈر والٹر راتھ چائلڈ کو یہ پیغام بھیجا کہ برطانوی حکومت فلسطین میں یہودی ہوم (Jewish Home) کے قیام کی حمایت کرتی ہے۔یہودیوں کیلئے ایک ہوم ایک گھر کے قیام کی حمایت کرنے میں آرتھر بالفوردر اصل کسر نفسی سے کام لے رہے تھے۔بالفور کا مدعا و مقصد یہودیوں کو یہ پیغام دینا تھا کہ وہ فلسطین میں اپنا وطن قائم کر سکتے ہیں۔ اِس مراسلے میں گر چہ فلسطینیوں کے حقوق کے تحفظ کا بھی ذکر تھا لیکن بعد کے واقعات و فلسطینیوں کے ساتھ پیش آئے حادثات نے یہ ثابت کر دیا کہ اُنکے حقوق کے تحفظ کا ذکر وزن شعر رکھنے کیلئے تھا ۔اِس کا مدعا و مقصد یہ تھا کہ مستقبل کا تاریخ نویس برطانیہ کے مذموم ارادوں پہ پردہ ڈالنے کی پوزیشن میں رہے۔سچ تو یہ ہے کہ مغربی مورخین نے فلسطین میں برطانوی سامراجیت کے مذموم ارادوں پہ پردہ ڈالنے کی بھر پور کوشش کی ہے بلکہ آج بھی مغرب کے مطبوعاتی حلقوں میں فلسطین کا ذکر صیہونزم کے ظلم و ستم کو نا دیدہ لیتے ہوئے کیا جاتا ہے۔
جنگ عظیم دوم کے بعد برطانوی سامراجیت کے اولاد نا خلف کو امریکہ نے گود لیا چونکہ جنگ میں برطانیہ کی حالت خستہ ہو چکی تھی ۔امریکہ نے صیہونزم کا بھر پور ساتھ دیا چونکہ امریکہ سیاست کو چرخانے میں صہیونی لابی کا ایک بڑا رول ہے۔ صہیونی لابی امریکی اقتصادی دائرے پہ بھی حاوی ہے اور امریکہ بلکہ مغربی دنیا کے مطبوعاتی اداروں پر بھی صہیونیت نے قبضہ جما رکھا ہے۔ یہ سچ ہے کہ صہیونی لابی کے اِس قدر اثر انداز ہونے کے باوجود کئی مغربی حلقے صہیونزم کی حرکتوں کو عالم انسانیت کیلئے سم قاتل سمجھتے ہیں لیکن اُنکی آواز نقار خانے میں طوطی کے متراوف ہے۔ صہیونزم نے اپنے اقتصادی اور مطبوعاتی غلبے سے مغرب پہ گھیرا تنگ کیا ہوا ہے اور صہیونی دائرہ کار کا نزلہ سب سے بیشتر فلسطینیوں پہ گرتا ہے چونکہ ایک نا جائز طریقہ کار سے صہیونزم نے فلسطین پہ قبضہ جما لیا ہے۔ اِس قبضے کو محکم تر کرنے اور وسعت دینے کیلئے امریکی صدارتی صدر دفترکاخ سفیدبھر پور تعاون دے رہا ہے۔ یہ حقیقت صدر ڈونالڈ ٹرمپ کے حالیہ اقدامات سے پایہ اثبات تک پہنچتی ہے۔ اُن سے پہلے کے امریکی صدر یروشلم کو اسرائیل کا دارلخلافہ تسلیم کرنے میں پس و پیش سے کام لے رہے تھے۔کچھ حد تک مشرق وسطی میں عالم اسلام کے اُن رہبروں کا خیال رہتا تھا جو کہ امریکہ کے حلیف سمجھے جاتے ہیں جن میں سعودی عربیہ پیش پیش تھا۔ سعودی عربیہ کے علاوہ امارات متحدہ عربیہ ،مصر،اُردن،مراکش جیسے ممالک بھی سفارتی اعداد و شمار کے حساب میںغربی دنیا کے عموماََ اور امریکہ کے خصوصاََ قریبی حلیف مانے جا تے ہیںبنابریں امریکہ اسرائیل پہ اپنا دست شفقت رکھتے ہوئے اپنے عربی حلیفوں کا کچھ حد تک لحاظ کرتا تھا ۔ حالیہ سالوں میں البتہ بازی تقریباََ کاملاََ پلٹ چکی ہے۔اسلامی ممالک کے بیچوں بیچ ایک واضح خلیج نے امریکہ کا حوصلہ بڑھا دیا ہے از اینکہ اسرائیل کی حمایت میں جو بھی اقدامات اٹھائے جائینگے اُس کا اثر عالم اسلام میں نہ ہونے کے برابر ہو گا۔ کہا جا سکتا ہے کہ ایسا ہی ہوا ۔صدر ٹرمپ نے نہ صرف یروشلم کو اسرائیل کا دارلخلافہ تسلیم کیا بلکہ امریکہ کا سفارت خانہ بھی یروشلم منتقل کیا لیکن عالم اسلام میں رد عمل نہ ہونے کے برابر رہا۔ امریکہ کا حوصلہ اِس حد تک بڑھا کہ گولان کی بلندیوں پر اسرائیل کے نا جائز قبضے کو جواز فراہم کرنے کا آغاز ہوااور حالیہ دنوں میں رود اُردن کے مغربی کنارے پر اسرائیلی بستیوں کو جائز قرار دینے کی کوششیں بھی ہو رہی ہیں۔ یہ سب عالم اسلام کے داخلی خلفشار کا نتیجہ ہے۔
مشرق وسطی کا جغرافیائی خطہ عالم اسلام سے تعلق رکھتا ہے۔ یہ بر اعظم ایشیا کا مغربی حصہ ہے۔خلیج کے ممالک سے گذرتا ہوا یہ خطہ خلیج کے اُس پار ایران و عراق کو گھیرتا ہوااپنی وسعتوں میں اُردن، شام اور فلسطین کا احاطہ کرتے ہوئے نیل کے ساحل تک پہنچتا ہے۔ نیل کے ساحل پہ عالم اسلام کا سب سے پُر جمعیت ملک مصر واقع ہوا ہے ۔مصر ایک افرو ایشائی ملک ہے یعنی یہاں بر اعظم ایشیا اور افریقہ کی سرحدیں ملتی ہیں ۔نیل کے ساحل پہ سوڈان بھی واقع ہوا ہے جو کہ عالم اسلام سے وابستہ ایک افریقائی ملک ہے۔مصر کی سرحدیں لیبیا سے ملتی ہیں ۔لیبیا جغرافیائی حد و بند میں شمالی افریقائی ملک شمار ہوتا ہے۔شمالی افریقائی خطے میں لیبیا کے علاوہ الجیریا ، ٹونس اور مراکش جیسے اسلامی ممالک شامل ہے۔جہاں جغرافیائی حد و بند میں یہ افریقہ کا شمالی حصہ ہے وہی لسانی اعتبار سے یہ اعراب کا مغرب ہے بلکہ عربی دنیا کے لوگ اسلام کے شمالی افریقائی حصے کو لوگوں کو مغربی کہتے ہیں۔یہاں عالم اسلام بحیرہ متوسط کے ساحل کو چھوتا ہے جبکہ بحیرہ متوسط کے اُس پار یورپ کے جنوبی ممالک ہیں۔بحیرہ متوسط جبل الطارق (جبرالٹر:Gibraltar) کے ساحلی علاقوں کے قریب بحر اوقیانوس کی وسعتوں میں کھو جاتا ہے۔اسلام کے قرون اولی میں مسلمین کی راہ میں سمندروں کی موجیں حائل ہوئی جبکہ غازیاں اسلام کا مقصد قران کریم کے آفاقی پیغام کو دنیا کے طول و عرض تک پہنچانا تھا ۔علامہ اقبالؒ نے اپنی معروف نظم ’شکوہ‘ میں اِس صحنہ کو کچھ یوں بیاں کیا ہوا ہے:
دشت تو دشت صحرا بھی نہ چھوڑے ہم نے
بحر ظلمات میں دوڑا دئے گھوڑے ہم نے!
آج دشت ہو یا صحرا یا بحر ظلمات سب ہی پہ امریکہ کی رہبری میں مغربی افواج اور بحری بیڑوں نے ایک ایسی دہشت طاری کی ہوئی ہے جہاں عالم اسلام کو اُن کے املا پہ چلنے کے علاوہ کوئی اور راستہ نظر نہیں آتا۔یہ سب باہمی اُلجھن کا نتیجہ ہے۔ لیبیا،شام،عراق و یمن میں اسلامی ممالک ایک مشترکہ لائحہ عمل اختیار کرنے کے بجائے ایک دوسرے سے نبرد آزما ہیں۔عالم اسلام کا داخلی خلفشار جہاں لیبیا،شام،عراق و یمن پہ منفی اثرات چھوڑ رہا ہے وہی عالم اسلام کی سب سے زیادہ ستم رسیدہ جمعیت یعنی فلسطین کو ایک قہر میں مبتلا کئے ہوئے ہے۔ غازہ کی پٹی ایک مسلسل عذاب میں مبتلا ہے۔یہاں کے شہیدوں کا لہو اتنا ارزاں ہو گیا ہے کہ قبرستانوںپہ قبرستان بستے جا رہے ہیں لیکن عالمی ضمیر خواب غفلت میں مبتلا ہے۔ رود اُردن کے مغربی کنارے پہ یہودی بستیوں کا ایک جال بچھایا جا رہا ہے ۔امریکہ کی بھر پور حمایت سے اسرائیل رود اُردن کے مغربی کنارے کو صہیونی مملکت میں ضم کرنے کے درپے ہے اور عالم اسلام یہ درد ناک صورت حال سہنے کیلئے آمادہ نظر آ رہا ہے۔
اِ س وحشت کے عالم میں امریکی طرح یہ ہے کہ فلسطین میں امن قائم کرنے کیلئے کوششیں ہو رہی ہیں۔امریکی صدر ڈونالڈ ٹرمپ کے داماد جیرڑ کشنر ( Jared Kushner) جو کاخ سفید کے صلاح کار ہیں ایک نئے امن سمجھوتے پہ کام کر رہے ہیں۔یہ امن سمجھوتہ در اصل اسرائیلی سیکورٹی کو ایک دیر پا استحکام بخشنے کیلئے ہے۔اِس امن پلان کی رو سے رود اُردن کے مغربی کنارے پہ اسرائیل کے نا جائز قبضے کو قانونی جواز فراہم کرنا ہے۔ اِس کے ساتھ ساتھ گولان کی بلندیوں پر بھی اسرائیل کے قبضے کو جواز فراہم کرنے کا پلان ہے تاکہ اسرائیل کسی بھی امکانی خطرے سے مدت دراز تک محفوظ رہے۔ کہا جا سکتا ہے کہ گریٹر اسرائیل کو عملی شکل دی جا رہی ہے جس میں وہ سب ہی علاقے شامل ہوں جو آج سے ہزاروں سال پہلے حضرت داؤد ؑ کی متحدہ اسرائیل بادشاہت (United Kingdom of Israel) میں شامل تھے۔ یہ کم و بیش 3500سال پہلے کا وہ اسرائیل ہے جس کا ذکر قوم یہود کی مذہبی کتابوں میں شامل ہے۔ حضرت داؤد ؑ سے پہلے طالوت اسرائیل کے بادشاہ تھے ۔وہ اگر چہ بادشاہ تھے لیکن حضرت داؤد ؑ اور حضرت سلیمان ؑ کی ماننداُنہیںنبی ہونے کا مقام حاصل نہیں رہا۔ اُن کے زمانے کی اسرائیلی ریاست کو شمالی اسرائیلی بادشاہت (Northern Kingdom of Israel) کہا جاتا تھا جبکہ فلسطین کے جنوبی علاقے اُنکی دسترس سے باہر تھے۔ حضرت داؤد نے جنوبی علاقوں کو اپنی دسترس میں کر لیا جن میں رود اُردن کا مغربی کنارہ بھی شامل تھااور ایسے میں یہ حضرت داؤد ؑ کی متحدہ اسرائیل بادشاہت (United Kingdom of Israel)بن گئی۔
1947/48ء میں جو اسرائیلی ریاست مغرب کی سر پرستی سے وجود میں آئی اُسکا حدود اربعہ کم و بیش وہی تھا جو طالوت کی شمالی اسرائیلی ریاست کا تھا لیکن اسرائیل کی نظریں وہی تک محدود نہیں رہیںبلکہ اُنہوں نے ستارہ داؤدؑ (Star of David)کو اپنا قومی نشان بنایا اور اُسی کے ساتھ ساتھ اُنہوں نے اپنا حدف یہ بنا لیا کہ وہ حضرت داؤد ؑ کی متحدہ اسرائیل بادشاہت کو عملی بنائیں گے اور مرحلہ واریہ پلان عملایا جا رہا ہے۔ اِس پلان کو عملیانے کیلئے اسرائیل کو امریکہ کی سر پرستی حاصل ہے۔ صہیونزم کے اِس حدف کو حاصل کرنے کا عصر حاضر کی عالمی مقررات کی رو سے کوئی جواز نہیں بن سکتا۔اگر زمانہ قدیم کی ریاستی حد بندی کو عصر حاضر میں عملیانے کی کوئی راہ ہوتی تو روم اور ایران کی وسعتیں بھی قیصر اور کسرا کی بادشاہت تک پہنچ پاتیں یا عالم اسلام بھی ہسپانیہ پہ اپنا حق جتانے کی سوچ سکتا چونکہ اِس یورپی ملک پہ مسلمانوں نے 800سال حکومت کی۔علامہ اقبالؒ نے اِس موضوع پہ یوں روشنی ڈالی ہے ؎
ہے خاک فلسطین پہ یہودی کا اگر حق
ہسپانیہ پر حق نہیں کیوںاہل عرب کا؟
یہ شاعرانہ سوال موجودہ عالمی صورت حال پہ ایک بھر پور تبصرہ ہے۔جیرڑ کشنر ( Jared Kushner) مغربی کنارے کی یہودی بستیوں کو نام نہاد اسرائیلی ریاست میں شامل کرنے کے بعد وہ مغربی کنارے کے بچے ہوئے علاقے کو اُردن کی فلسطینی آبادی سے جوڑنا چاہتے ہیں ۔اگر چہ ابھی تک اِس پلان کے بارے میں چہ میگوئیاں ہی ہو رہی ہیں لیکن اندازہ یہی لگایا جا رہا ہے کہ اسرائیل کے بجائے اُردن کی اراضی کو امن منصوبے میں شامل کر کے ایک ایسی فلسطینی ریاست کو وجود میں لانے کی سازش ہو رہی ہے جو سیکورٹی سے بے بہرہ ہو۔ یہ بھی کہا جاتا ہے کہ جیرڑ کشنر ( Jared Kushner) سعودی عربیہ اور خلیجی ریاستوں کی حمایت حاصل کرنے کے درپے ہیں ۔سعودی عربیہ اور خلیجی ریاستوں کو مشرق وسطی میں ایران کے بڑھتے ہوئے رسوخ سے خوفزدہ کرنے کا پلان ہے لیکن اند ر خانے کی یہ خبریں بھی موصول ہو رہیں ہیں کہ فرنٹ لائن عرب ریاستیں جن میں اُردن کے علاوہ مصر اور شام بھی شامل ہے اِس منصوبے کی مخالفت کر چکے ہیں۔اِس پلان کو عملیانے سے ایرانی اثر و رسوخ کم ہونے کے بجائے بڑھنے کا امکان ہے چونکہ غازہ کی پٹی میں حماس اور جنوبی لبنان میں حزب اللہ اسرائیلی سیکورٹی کیلئے مزید مشکلات پیدا کر سکتے ہیں۔
مقبوضہ فلسطین کے اعراب تین حصوں میں بٹے ہوئے ہیں۔ ایک حصہ وہ ہے جو اسرائیل میں بستا ہے جن کی تعدادکم و بیش 2ملیون ہے جو 6ملیون یہودیوں کے بیچوں بیچ رہتے ہیں ۔اِنہیں اگر چہ ووٹ دینے کا حق حاصل ہے البتہ اسرائیلی ریاست نے یہ فیصلہ کیا ہے کہ ملک یہودیوں کا ہے اور یہی اُس کی شناخت رہے گی چناچہ اعراب دوسرے درجے کے شہری بنے رہیں گے۔اسرائیل ویسے یہودیوں کیلئے ہی بنا تھا بلکہ سچ تو یہ ہے کہ مغرب نے اعراب کے سینے میں ایک خنجر گھونپ دیا تاکہ عربی دنیا کے وسائل پہ قابض رہنے کی راہ ہموار ہو جائے البتہ اسرائیل کو رسماََ یہودیوں کی ریاست کا نام دینا صہیونی عناصر کی سازشی دماغ کی اختراع ہے۔یہ اُس سلسلے کی ایک کڑی ہے جسے وہ اعراب کو دیوار سے لگانے کیلئے کر رہے ہیں ۔اسرائیلی ریاست جو دور اصل مقبوضہ فلسطین ہے میں اعراب کی 2ملین تعداد کے علاوہ غزہ پٹی میں بھی کم و بیش 2ملین عرب سکونت پذیر ہیں اور یہاں مزاحمتی محاذ کی صفوں کی صفیںاسرائیلی سیکورٹی کو ایک سخت امتحان میں مبتلا کئے ہوئی ہیں۔ عربوں کی تیسری کڑی رود اُردن کے مغربی کنارے پر فلسطینی اتھارٹی (PAPalestinian Authority )کے تحت اسرائیلی سیکورٹی کے پنجے میں گذر بسر کر رہی ہے۔اُن کی تعداد بھی تقریباََ دو ملین ہے۔ یہاں یہ امر بھی قابل ذکر ہے کہ مظلوم فلسطینیوں کی خاصی تعداد اُن عرب ممالک میں مہاجروں کی حیثیت سے رہ رہی ہے جو فلسطین کے ارد گرد واقع ہیں جن میں اُردن،مصر اور شام شامل ہیںبلکہ اُردن کے باشندگان کی خاصی تعداد فلسطینی ہے۔ در اصل اسرائیلی ریاست فلسطینی قوم کو کئی حصوں میں بکھیر کے وجود میں آئی ہے اور اسرائیل کی تشکیل عالم اسلام کی داخلی خلفشار کا ایک کھلا اشتہار ہے۔
feedback on: [email protected]