گزشتہ دو ہفتے سے اسرائیل کی افواج اور حماس ملیشیا کے درمیان ایک جنگی کیفیت طاری رہی جس کے دوران اسرائیل نے غزہ کی پٹی پر آباد فلسطینیوں کی سول آبادی کو بے دریغ بمباری کا نشانہ بنایا جس سے بے پناہ جانی نقصان ہوا جس میں عورتوں اور بچوں کی بڑی تعداد متاثر ہوئی جبکہ اسرائیلی بمباری سے سینکڑوں عمارات کھنڈرات میں تبدیل ہو گئیں کچھ جگہ ہسپتالوں کو نشانہ بنایا گیا۔اسرائیلی میڈیا کا کہنا تھا کہ جن رہائشی عمارات کو نشانہ بنایا گیا ان میں حماس کے کمانڈر رہائش پذیر تھے اور اسرئیل پر راکٹ حملوں میں ملوث تھے۔اسرائیل کے تیاروں نے شاہرات کو بھی کھنڈرات میں تبدیل کر دیا ۔وجہ یہ بیان کی گئی کہ ان کے نیچے سرنگیں جن کے زریعے راکٹ سمگل کئے جاتے ہیں جو اسرائیل پر برسائے جاتے ہیں۔
الزامات و جوابی الزامات ایک طرف آج کا مضمون ان نوجوانوں کے لئے پیش کر رہا ہوں جو جذبات میں آ جاتے ہیں اور مفت کے سوشل میڈیا پر اپنی اوقات اور علم سے زیادہ دعوے شروع کر دیتے ہیں بالخصوص پاکستان کے وہ نوجوان جن کو ایک خاص مقصد کے استعمال کے لئے تعلیم سے دور اور مذہبی انتہا پسندی سے بہت قریب کر دیا گیا ہے اس سارے قصے کے پیچھے کیا مقصد اور سوچ ہے وہ صرف انکے سہولت کارہی جانتے ہیں۔
حماس اسرائیل تنازع میں تیزی رمضان کے آخری چند ایام میں پیدا ہوئی جب آری جمعہ کو اسرائل کی فوج نے بیت المقدس کے نمازیوں پر حملہ کر کے کچھ لوگوں کو شہید کردا جبکہ فلسطینی نوجوانوں نے پتھروںسے اپنا دفاع کیا ۔یہ تنازعہ جلد ہی پھیل گیا اور حماس کی جانب سے راکٹوں کی بوچھاڑ جبکہ اسرائل کے طیاروں کی جانب سے شدید بمباری وہ بھی سول آبادی پر شروع ہو گئی جس کے نتیجہ میں سینکڑوں فلسطینی بچے ،عورتیں اور مرد جان سے ہاتھ دھو بیٹھے جبکہ اسرائل کے بھی کچھ شہری مارے گئے۔
اس دوران پاکستان سے خبر آئی کہ فوج کے سربراہ جناب باجوہ صاحب سعودی عرب کے دورہ پر جائیں گے۔ ایک آدھ روز بعد اعلان ہوا کہ وزیراعظم عمران بھی ایک وفد کے ہمراہ سعودی عرب جا رہے ہیں ۔یہ دورے اس لحاظ سے اہم ہیں کہ عین اس وقت جب اسرائیل فلسطین تنازعہ زور پکڑ رہا تھا عین اس وقت پاکستان کے حکمران عمرہ کے لئے بلائے گئے جبکہ واپسی پر سوشل میڈیا پر چاولوں کی خیرات کے حوالے سے اور وزیراعظم کے حجر اسود کو چومنے کے حوالے سے بھرپور مباحثہ چلا ۔گویا نان ایشو کو پاکستان میں موضوع بحث بنا کر حماس اسرائیل تنازعے سے توجہ کہیں اور مبذول کروا دی گئی۔ سوا چند آوازوں کے پاکستان سے اٹھتی ہیں کچھ زیادہ توجہ نہ کی گئی۔
جب تنازعہ زور پکڑ گیا اور بمباری شروع ہو گئی تو دنیا کے میڈیا کی توجہ اس طرف مبذول ہو گئی تو پھر جذبات جوش میں آ گئے اور سوشل میڈیا کے جنگجوؤں نے بھر پور ایکشن شروع کر دیا۔ حیرت کی بات تو یہ ہے کہ یہ وہی کم علم لوگ ہیں جنکا میں نے شروع میں تذکرہ کیا ۔یہ سب شدت جذبات میں اس قدر آگے نکل جاتے ہیں گویا یہی عقل کل ہیں جبکہ دنیا کے حالت سے آگاہی ان کی سوشل میڈیا یا پاکستان کے کنٹرولڈ میڈیا کے علاوہ کچھ نہیں ہوتی لیکن دعوے یہ دنیا کو فتح کرنے کے شروع کر دیتے ہیں محترم اوریا مقبول جان اور لال ٹوپی والے محترم کی طرح جو لال قلعے پر جھنڈا لہرانے سے کم پر رکتے نہیں۔
جونہی جنگ تیز ہوئی تو دنیا بھر میں شور مچا اور جلوس جلسے شروع ہو گئے۔ اسرائیل کی مذمت کی جانے لگی۔ گزشتہ ہفتے لندن میں قریبا ڈیڑھ لاکھ لوگوں کا مجمع سڑکوں پر نکلا جس سے لیبر پارٹی کے لیڈر جناب جرمی کاربن نے جذباتی خطاب میں اسرائیل کی بھرپور مذمت اور جنگ بندی کا مطالبہ کیا ۔اسی طرح ہر بڑے برطانوی شہر اور دنیا بھر میں مظاہرے اور اسرائیل جار حیت کے خلاف جلوس نکلے اور دیگر اقدامات ہوئے۔
یہ ایک مکڑی کا جالا ہے جسے ہر انسان نے زندگی میں دیکھا ہو گا۔ مکڑی قدرت کا ایک شاہکار (ویسے تو ہر شے ہی شاہکار ہے) ہے جس کو archinid کہا جاتا ہے ۔یہ نہ کیڑے مکوڑوں میں اور نہ ہی جانوروں میں شمار ہوتی ہے۔ اس کے ساتھ کے اور مخلوق میں بچھو اور دیگر آتے ہیں۔اس کے شکار کرنے کا طریقہ منفرد ہوتا ہے۔ مکڑی اپنے منہ کی رطوبت سے ایک ایسا جال بنتی ہے جو اسکی خوراک کیڑے مکوڑوں، مکھیوں وغیرہ کو نظر نہیں آتا اور بے خبری میں وہ اس میں پھنس جاتے ہیں اور اس طرح مکڑی اپنی غذائی ضروریات کو پورا کر لیتی ہے۔
یہ مثال یہاں بیان کرنے کا مقصد آج کے نوجوانوں کو موجودہ دنیا کے نظام سے کما حقہ آگاہ کرنا ہے۔ بالخصوص وہ جو جذبات سے مغلوب ہو کر مرنے مارنے کی دھمکیاں اور جہاد کی باتیں کرتے ہیں اور ان میں وہ مولانا حضرات بھی شامل کر لیں جو تقاریر میں مرنے مارنے کی باتیں کر کے لوگوں کے جذبات ابھارتے ہیں۔ اس تمام تناظر میں آج کی دنیا کے نظام کا جائزہ لینے کی ضرورت ہے۔ اس سلسلے میں میں پاکستان کے نظام کو مثال کے طور پر استعمال کروں گا۔
ملک پاکستان گزشتہ تہتر سال سے ایک افراتفری کا شکار ہے۔ اس میں نہ کوئی مستحکم سیاسی نظام ہے نہ صحت و تعلیم کا کوئی نظام ہے، نہ ہی کوئی مالیاتی ڈسپلن ہے ۔ہر سال بجٹ سے قبل قرضہ لینے آئی ایم ایف کے پاس جانا پڑتا ہے جو من مانی شرائط پر قرضہ دیتا ہے جس سے ملک میں مہنگائی کا طوفان برپا ہے ۔آئی ایم ایف پر صیہونی طاقتوں کا قبضہ ہے جو اسرائیل کی حمایت میں ہیں۔ملک میں صابن سے لے کر عام استعمال کی بیشتر اشیاء ان کمپنیوں کی ملکیت ہیں جن کے ملک صیہونی طاقتوں کے ہمدرد لوگ ہیں ۔وہ اپنے منافع کا ایک مخصوص حصہ اسرائیل کی ریاست کی سپورٹ کے لئے دیتے ہیں۔جس سوشل میڈیا پر ہمارے علما اور مولانا حضرات دھواں دار تقریر کے ذریعے اسرائیل کی تباہی کے فتوے دیتے ہیں وہ بھی ایک یہودی کی ملکیت ہے جو اسرائیل کا حامی ہے۔
گویا پاکستان میں جو آمدن لوگوں کو ہوتی ہے،وہ سب صیہونی طاقتوں کے ہمدردوں سے حاصل شدہ ورضوں کی مرہون منت ہیں جبکہ لاؤڈ سپیکر کی اذانوںپر جمعہ کے خطبات بھی جو عوام تک پہنچائے جاتے ہیں انکی ٹیکنالوجی بھی صیہونی ہمدردوں کے سائنسدانوں کی ایجادات سے بنی ہیں۔
یہ ہے مکڑی کے جالے کا ایک سرا۔دوسری جانب پاکستان میں تعلیم اور تحقیق پر تقریباً مکمل پابندی ہے۔ اس کے لئے کوئی بجٹ نہیں رکھا جاتا۔ اگر ہو بھی تو اتنا کم جس کوئی با مقصد تحقیق نہیں کی جا سکتی جبکہ علما کا ایک طبقہ تو سرے سے سائنسی تعلیم و تحقیق کا مخالف ہے (شائید یہ بھی صیہونی طاقتوں کے وظیفہ خور ہیں) جبکہ اگر ہم آخری نبی صلعم پر اللہ کی وحی کا پہلا لفظ دیکھیں تو وہ ہے ‘‘اقرا’’ پڑھ جبکہ نبی مکرم صلعم نے فرمایا’’علم حاصل کرنے کے لئے اگر چین بھی جانا پڑے تو جاؤ ‘‘۔جو تعلیم کے حصول کی مخالفت میں دن رات ایک کرتے ہیں جو قومی پیسہ میزائلوں پر ضائع کرتے ہیں ۔ان سے کوئی سوال نہیں کرتا کہ اس کا مقصد اور فائدہ کیا ہے؟ یہ ہے اس جالے کا دوسرا سرا۔
جبکہ ملک کے اندر صیہونی طاقتوں کا نظام رائج ہے جو ملک میں نہ ہی ترقی چاہتے ہیں نہ ملک کو آگے بڑھنے دیتے ہیں۔ ملک پر فرسودہ سوچ کے حامل جاگیردار جو انگریز کے بوٹ چاٹ کر اور کتے نہلا کر زمینوں کے مالک بنے وہ عام انسانوں کی قسمت کے مالک ہیں۔ انکے بچے بیرون ملک یونیورسٹیوں سے تعلیم حاصل کر کے حکومت میں جاتے ہیں۔ اس گروہ میں ان اسلام کے بیوپاری بھی شامل ہو گئے ہیں جو غریب کے بچوں کو کم سنی میں جنت اور حوروں کا لالچ دے کر تعلیم سے ہٹا کر خود کش بمبار بندوق بردار جہادی بنا کر کبھی افغانستان کبھی کشمیر میں صیہونی طاقتوں کے ایجنڈے پر عملدرآمد کے لئے استعمال کرتے اور خاندانوں کے خاندان تباہ کرنے کا مؤجب بنتے ہیں اور یہ سلسلہ جاری و ساری ہے۔ یہ ہے اس جالے کا ایک اور کونا۔
جبکہ آخری کونا ہے میڈیا جس پر صیہونی طاقتوں کے نمائندوں کے ایجنٹ شام کے چار گھنٹے لا یعنی بحث کر کے عوام کے ذہن خراب کرتے ہیں اور اس میڈیا کی خرافات نے اس قوم کو ذہنی مریض بنا کر رکھ دیا ہے جبکہ ملک میں انصاف کے نہ ہونے نے جلتی پر تیل کا کام کیا ہے۔ یہ وہ مکڑی کا جال ہے جس نے پاکستان اور دیگر ممالک کو (اسلامی ملکوں کو جکڑ رکھا ہے )۔ اس کا منبع امریکہ ہے جبکہ سعودی عرب اس کا مقامی ایجنٹ ہے ۔اب اس جال سے نکلے بنا اگر کوئی عالم کوئی جوان بڑھک مارے گا تو وہ صرف اپنی اور قوم کی تباہی کا کارن ہو گا ۔وادی کشمیر میں اس کی مثال موجود ہے کہ کشمیری نوجوانوں نے مکڑی کے اس جال کے اندر نام نہاد آزادی کے لئے بندوق اٹھائی اور سوائے اپنی بربادی کے کچھ حاصل نہیں ہوا ۔یہی حال فلسطین کے عوام کا ہوا ہے۔ کچھ ان پڑھ کہتے ہیں کہ حماس کو فتح ملی۔ شاید وہ بھی صیہونی طاقتوں کے ایما پر ایسی بات کر رہے ہیں۔…
(باقی گزارشات آئندہ بشرط زندگانی)
ای میل۔[email protected]