کسی بھی قوم کے سب سے بڑے اور اہم ترین اثاثے وہ ہوتے ہیں جو قدرت نے فراہم کئے ہوں۔یہ وہ دولت بھی ہوسکتی ہے جو خالق کائنات نے زیر زمین چھپا کررکھی ہے ،جس طرح خلیجی ممالک میں تیل کے ذخائر کی صورت میں ہے ۔اُسی زیر زمین دولت کی وجہ سے خلیجی و مشرق وسطائی ممالک اپنی معیشتوں کو چلاتے ہیں اور یوں ان کی ترقی کا پہیہ بھی چلتا رہتا ہے ۔اسی طرح ہمارے کرہ ٔ ارض کی فضاء میں سبز غلاف کی صورت میں ایک بیش قیمتی اثاثہ ہے جودرجہ حرارت کو قابو کرتاہے اور اللہ کی بنائی ہوئی اس دنیا کو خوبصورت بنا دیتا ہے۔خالق کائنات نے گوکہ سبھی ممالک کوکسی نہ کسی طرح کے وسائل سے مالا مال کر رکھا ہے لیکن کچھ ممالک کو بے پناہ فطری خوبصورتی سے نوازا ہے اور ایسے ممالک کی معیشت کا پہیہ اسی فطری خوبصورتی سے ہی چلتا ہے کیونکہ اُنہوںنے اس قدرتی حسن و جمال کو سیاحت کیلئے استعمال میں لایا ہے اور ان خوبصورت جگہوںکو ایسے سیاحتی مقامات میں تبدیل کردیا ہے کہ پوری دنیا سے سیاح وہاں کے حسین نظاروںسے لطف اندوز ہونے کیلئے آتے ہیں۔
سیاحتی شعبہ چل پڑا تو پھر دیگر کئی سارے شعبے خود بخود چل پڑتے ہیں کیونکہ سیاحوں کی آمد کے ساتھ ہی کمرشل یا تجارتی سرگرمیاں بھی چل پڑتی ہیں اور یوں مجموعی معیشت کو فروغ ملتا ہے ۔کشمیر بھی کرہ ٔ ارض کے ایسے ہی باغوں میں شامل ہے ،جس کو خالق کائنات نے بے پناہ خوبصورتی سے مالا مال کیاتھا۔کسی چیز کی کمی نہ تھی ۔ندی ،جھرنے ،آبشار ،مرغزار ،چشمے ،دریا ،جھیلیں اورکوہ و بیاباں ہر طرف پھیلے ہوئے تھے۔ یہ قدرت کی کاریگری کا ایک انمول نمونہ اور فطری حسن کا ایک ایسا امتراج تھا جو دیکھنے والے کو مسحور کردیتا تھا۔یہی وجہ تھی کہ پوری دنیا سے لوگ کشمیر دیکھنے آتے تھے کیونکہ ا سکو کرہ ٔ ارض کی جنت قرار دیاگیا تھا۔ایک زمانہ تھا کہ اسی فطری حسن کی وجہ سے کشمیر کی معیشت چلتی تھی کیونکہ سیاحت ہمیشہ بام ِ عروج پر رہتی تھی اور یوں کئی معاشی شعبے بھی چل پڑے تھے ۔سیاحت کی وجہ سے ہی دستکاری شعبہ کو عروج ملا اور یوں دیہی معیشت میں نئی جان آگئی تھی ۔
یہ سیاحت کی ہی دین تھی کہ کشمیر کی روایتی دستکاریوں کو عالمی شہرت مل گئی اور مغرب سے لیکر خلیجی ممالک اور افریقہ تک کشمیری دستکاریوں کے پرستاروں کی کمی نہ رہی تاہم ہم نے اپنے ہاتھوں سے اپنے پیروں پر کلہاڑی مار دی ۔گوکہ یہی خوبصورتی ابھی بھی ہمارا بنیادی معیشی اثاثہ ہے تاہم ہم نے اپنے ہاتھوں اس اثاثہ کو برباد کرنے میں کوئی کسر باقی نہ رکھی۔کشمیر کی آب و ہوا ،تازہ پانی اور وادیاں اب قصہ پارینہ بنتی جارہی ہیں۔ہم نے سبز سونے کی لوٹ مچا کر سیاحتی مقامات کو کنکریٹ جنگلوں میں تبدیل کردیا۔ہم نے اپنی آب گاہوں کو رہائشی کالونیوں میں تبدیل کردیا۔آج حالت یہ ہے کہ ہماری آب گاہیں ختم ہوتی چلی جارہی ہیں۔بڑی جھیلیں خستہ حالی کی شکار ہیں اور وہ مسلسل سکڑ رہی ہیں جبکہ چھوٹی آبی پناہ گاہیں رہائشی کالونیوں میں تبدیل ہوچکی ہیں۔ڈل سے لیکر ولر اور ہوکر سر سے لیکر خوشحال سر اور آنچار سے لیکر نگین تک سبھی آبی پناہ گاہوں کی حالت قابل رحم ہے ۔کروڑوں ،اربوں اور کھربوںکا صرفہ ہوا لیکن حالت ہے کہ بدلنے کا نام نہیں لے رہی ہے۔اب جو ہم کررہے ہیں یہ آگ لگنے پر کنواں کھودنے کے مصداق ہے ۔دیر بہت ہوچکی ہے ۔ہم نے ڈل ونگین اور ولر و مانسبل جھیلوں کیلئے ڈیولپمنٹ اتھارٹیاں بنائیں لیکن یہ اتھارٹیاں ان فطری آبی پناہ گاہوں کا تحفظ یقینی بنانے کی بجائے بہت سارے لوگوں کیلئے کمائی کا ذریعہ بن چکی ہیں۔
اسی طرح ہم نے دھڑلے سے ٹور ازم ڈیولپمنٹ اتھارٹیاں بنا ڈالیں۔گلمرگ سے لیکر سونہ مرگ اور پہلگام سے لیکر اہربل جبکہ دودھ پتھری سے لیکر توسہ میدان اور درنگیاڑی سے لیکر بنگس تک ہر جگہ ڈیولپمنٹ اتھارٹیوں کے نام پر سرکاری دفاتر کی بھرمار ہوئی لیکن نتیجہ کیا نکلا ؟۔ہوٹل بنے ،جنگل کٹے ،سبزہ ختم ہوا اور دو ر دور تک انسانی مداخلت کی وجہ ہریالی ختم ہونے لگی ۔یہ اتھارٹیاں نوکری کی صورت میں جہاں کچھ لوگوں کیلئے روزگار کا سبب بن گئیں وہیں بہت سارے لوگوں کیلئے کمائی کا ذریعہ بھی کیونکہ پیسوں کی ایسی ریل پیل کہ ٹینڈروں کے نام پر خوب پیسہ بہا اور اس بہتی گنگا میں بہت سارے لوگوںنے ہاتھ دھوئے تاہم فطری حسن سے مالامال ان سیاحتی مقامات کی حالت نہ بدلی بلکہ الٹا وہاں مزید تباہی ہی مچ گئی ۔اب فطرت سے کھلواڑ کا یہ نتیجہ ہے کہ کشمیر میں نہ سیاحت رہی اور نہ ہی سیاح ۔شاید قدرت ہم سے ناراض ہے۔اگر ہمیں اس فطری ورثہ کو بچانا ہے تو فوری اور راست اقدامات کرنا ہونگے ورنہ وہ دن بھی دور نہیں جبکہ ہریالی بنجر میں تبدیل ہوجائے گی اور ہمارے پاس دنیا کو دکھانے کیلئے کچھ نہیں ہوگا۔