ایم ۔بی ۔اے کے آخری سمسٹر کے بعد ہی پردیپ سنگھ کو آسٹریلیا کی ایک مشہور و معروف کمپنی میں نوکری مل گئی ۔پنجاب کے ایک پسماندہ کسان گھرانے سے کوئی آسٹریلیا نوکری کے لیے منتخب ہوجائے گا ،ایسا یہاں کسی نے سوچا نہ تھا ۔
پردیپ کی ودائی بینڈ باجوں سے ہوئی ۔اس کی ماں سمرن جیت کور نے نم آنکھوں سے بیٹے کو رخصت کیا۔شائد اتنی دور پردیپ پہلی بار نکلنے والا تھا ۔کرتار سنگھ نے بھی شائد یہ سوچ کر اپنے دل پر پتھر رکھا تاکہ اس کا بیٹا اس کی طرح مفلسی کے دن نہ دیکھ پائے ۔ سارا گائوں بچے بوڑھے، مرد و زن پردیپ کی رخصتی کی تقریب میں شامل ہوئے۔ جدائی اور تمنائوں کی اس کشمکش میں پردیپ آسٹریلیا کے لئے روانہ ہو گیا۔ کچھ عرصہ بیت گیا۔ کرتار کے گھر کی آمدنی میں اضافہ ہوتا گیا۔گھر میں خوشیوں کی بہار آگئی ہے۔پردیپ کی بہن ہردیپ کور بھی اب گائوں سے باہر شہر پڑھائی کی خاطر نکلی ہے۔ ہردیپ بالکل اپنی ماں پر گئی ہے ۔نیلی آنکھیں،سانولا رنگ ،دھوپ سے تپی ہوئی مضبوط ہڈیاں ،درمیانہ قد، زبان کرتار کے کرپان کی طرح تیز۔ماں اور بیٹی میں اگر کوئی فرق ہے تو وہ صرف پڑھائی کا ۔۔۔۔
کرتار اپنی بیٹی کو جج بنانے کا خواہش مند ہے ۔شاید اسکا ذہن لڑکیوں کے تئیں سماجی تنگ نظرئے سے پاک ہے یا یہ بھی ہوسکتا ہے کہ وہ ہردیپ کو سمرنجیت کی طرح ہل جوتتے ہوئے نہیں دیکھ سکتا۔ اسی لیے وہ اپنی ساری کمائی اسکی پڑھائی میں خرچ کررہا ہے۔بچوں کے کارناموں سے گائوں والے اب کرتار سنگھ کی عزت کچھ زیادہ ہی کرنے لگے ۔اس سب کے باوجود کرتار نے اپنے کھیتوں کو نہیں چھوڑا ۔ چھوڑتا بھی تو کیسے ـ!!!!وہ تو انہی کھیتوں میں پلا بڑا ہے ۔اس کی رگوں میں تو اسی مٹی سے بنے اناج کا شیرہ دوڑ رہا ہے۔لہلہاتے کھیتوں کی ہوائیں اسے مدہوش کرتی ہیں اور کام سے آنے والی تھکان بھی انہی ہوائوں میں رفوچکر ہوجاتی ہے ۔
آج دوپہر کو کرتار سنگھ گندم کے لہلہاتے کھیتوں کے کنارے بیتے دنوں کی یادوں کو تازہ کررہا تھا کہ شام لال بھاگتا ہوا اس کی طرف چلاتے ہوئے آیا۔
’’کرتارے ۔۔۔ارے او کرتارے ۔۔۔گائوں میں سارے لوگ ڈھیرہ باندھے جمع ہوئے ہیں ۔سبھوں نے اپنے اپنے ٹریکٹر تیار رکھے ہیں۔تمہیں بھی چلنا ہو تو چلو ؟؟ دلی جاکر سرکار سے اپنی بات منواہی لینگے۔ ایسے تھوڑی ہم چلنے دیں گے !!!یہ کالے قانون !!!! زمین ہماری ،محنت ہماری اور فائیدہ وہ اُٹھائیں۔۔۔ ہر گز نہیں !!!!!ہرگز نہیں!!!!! ایسا ہم ہرگز ہونے نہیں دیں گے ،چاہے اپنی جان بھی قربان کرنی پڑے ۔۔۔۔۔ ہم اپنی آنے والی پیڑیوں کو غلام نہیں بننے دیں گے !!!!!! ہم کسان کو برباد نہیں ہونے دیں گے !!!!! ہندوستان کو غلام نہیں بنانے دیں گے ۔۔۔ ہاں ہرگز نہیں !!!!! ہرگز نہیں !!!!! چاہیے کچھ بھی ہوجائے ۔۔۔۔ ‘‘
اپنی آنکھوں کو ملتے ہوئے کرتار:
’’ارے شامے کیا ہوا۔ اتنے گھبرائے کیوںہو۔ پہلے اپنے آپ کو سنبھالو تو صحیح۔‘‘
شام لال کندھے پہ رکھے کپڑے سے اپنا پسینہ پونچھتے ہوئے:
’’ ارے بھائی صاحب ، غضب ہوگیا ۔ ہم سب لٹ گئے۔ سرکار نے ہمارے کھیتوں کو بیچ ڈالا ہے۔ ہمارے پاس اب کچھ رہنے والا نہیں ۔ ہاں کچھ بھی نہیں۔۔۔کچھ بھی نہیں۔۔۔‘‘
’’ ارے پگلے کوئی نہیں لے جائے گا ہماری زمین ۔ ایسے تھوڑی ہی ہوسکتا ہے۔ ہمارے کھیت ہماری پہچان ہے اور سرکار اس کی رکھوالی کر رہی ہے۔ وہ کیوں بلا اس کو نیلام کرے گی۔‘‘ مسکرا کر شام لال کو سنبھالتے ہوئے کرتار بول پڑا۔
’’چلو چل کر دیکھ لیتے ہیں‘‘
ٹریکٹروں کا مارچ دلی کی اور ایسے چل پڑا جیسے کہ مہاجرین کا قافلہ ہو ۔ تصویریں بالکل برطانوی سامراج سے آزادی ملنے کے وقت کی جیسی ۔ بچے ، بوڑھے ،مرد ،عورتیں ،بن بن بیاہی گوریاں ،لولے لنگڑے سب کے سب ۔۔۔ اور ٹریکٹروں کی ٹرالیاں اناج اور روز مرہ کی ضروریات سے لدی ہوئی ۔۔۔ سنگھوں ،ٹکری ،غازی پور سرحدیں سرکار نے پہلے سے ہی سیل کردی تھیں اور کسانوں کو یہاں ہی اپنا مورچا سنبھالنا پڑا۔ کئی روز ایسے ہی بیت گئے رہنے سہنے میں مشکلات کا اضافہ ہوتا گیا ۔ذرعی قوانین نے اب کئی جانیں بھی سلب کی تھیں لیکن کسان شدید سردی اور دیگر مشکلات کے باوجود اپنی ضد پر اڑے رہے ۔احتجاج نے اب قومی صورت حال اختیار کی تھی ۔ ملک کے ہر کونے سے کسانوں نے دارالحکومت کی اور آنا شروع کیا ۔
ادھر سمرن جیت کی طبیعت دن بہ دن خراب ہوتی جارہی ہے ۔گھر یا اسپتال جانے کے لیے وہ بالکل بھی آمادہ نہیں۔ جاتی بھی تو کیسے ،اس کے ارد گرد تو اس سے بدتر حالات والی کئی ضعیف عورتیں بھی بیٹھی تھیں۔ بارشوں کاقہر جاری تھا ۔رُکنے کا نام ہی نہیں اور تواور پانی اب خیموں میں بھی داخل ہورہا تھا ۔سارا بوریہ بسترہ گیلا ہوچکا تھا ۔سمرن جیت بخار کے مارے بے قرار ہورہی ہے ۔اس کی آنکھیں پیلی پڑی ہیں ،ہونٹوں پر چھالے ،زبان طوطلی ،ہاتھ پیر بے جان ،جسم پورا بھیگا ہوا ۔۔۔۔۔
کرتار سنگھ اپنی شریک حیات، جو کہ اس کے ہر دُکھ اور سکھ میں ساتھ دیتی رہی ،کو زندگی اور موت کی اس کشمکش میں دیکھتے ہوئے اُس سے مخاطب ہوا۔
’’ سمرنیا کچھ نہیں ہوگا تجھے ۔تم اتنی آسانی سے بازی نہیں ہارنے والی ۔تم تو بہادر ہو ۔۔۔۔ بہادر ۔۔۔۔۔ ایک سردارنی ۔۔۔۔۔ ہاں ایک بہادر سردارنی ۔۔۔۔۔ پنجاب کی سردارنی ۔۔۔۔۔ گھی اور مکئی سے بنی روٹی کھانے والی سردارنی ۔۔۔ ہل جوتنے والی سردارنی ۔۔۔ دھرتی کا سینہ چیر کر اناج اُگانے والی سردارنی ۔۔۔ ہاں ایک بہادر سردارنی ۔۔۔ تم اتنی آسانی سے ۔۔۔ آسانی سے میدان جنگ چھوڑنے والی نہیں ۔۔۔ اس بات سے تو میں باخبر ہوں۔۔۔ مجھے پتا ہے ۔۔۔ ہاں میں جھوٹ نہیں بولتا ۔۔۔ یہ ہم سب کو پتا ہے ۔۔۔ ‘‘
یہ کہتے ہوئے کرتار زور زور سے چلانے لگا اور اس کی آنکھوں سے آنسوئوں کا ایک ریلا اس کی ریشم جیسی سفید داڑھی کو سیراب کرتے ہوئے ٹھیک سمرن جیت کے ہونٹوں پر جا گرا اور کچھ لمحوں کے لیے اس سے آرام فراہم کرتا رہا ۔۔۔
سمرن جیت کو کرتار نے ایک غریب گھرانے سے بیاہا تھا ۔گھر میں تو یہ مردوں کاکام بھی خود ہی کرتی تھی۔ باپ دمے کی بیماری کا مریض تھا۔ ایک روز دم گھٹنے سے کھیتوں میں ہی ٹھنڈا ہوا تھااور پیچھے اپنی بن بیاہی سانولی سانولی دو چھوریوں کے ساتھ ساتھ فالج زدہ جورو کو بھی چھوڑ گیا تھا ۔سمرن جیت اس وقت صرف گیارہ برس کی تھی اور چھوٹی قریباََـآٹھ سال کی ہونے والی تھی ۔کھیتوں میں کام کرتے کرتے ہڈیوں کے ساتھ ساتھ سمرن جیت کے حوصلے بھی مضبوط ہوئے تھے ۔شوہر کی جدائی اور بیٹیوں کی فکر نے اس کی ماں کو آخری سفر کے لیے روانہ کیا تھا ۔ سمرن جیت کو اب خود سے زیادہ چھوٹی کی فکر تھی ۔اکثر اس کو سورج کی تپش میں کھیتوں سے دور ہی رکھتی تھی ۔اسے خدشہ تھا کہ چہرے کا رنگ اگر سورج کی نظر ہوگیا تو بیاہ کے لیے لڑکا ڈھونڈ پانا مشکل ہوجائے گا۔۔۔ بے چاری کو خود کی ذرا بھی فکر نہ تھی۔ جتنا کرسکتی تھی اتنا وقت وہ کھیتوں میں ہی دے دیتی ۔ کھیت بھی تو اب نیم کھنڈر بن چکے تھے اور کچھ رقبہ لوگوں نے یتیموں کی جاگیر سمجھ کر ہڑپ ہی لیا تھا ۔ یہ تو فخر الدین صاحب کا بڑاپن تھا کہ گردوار ہ سنگٹھن کی مدد سے سمرن جیت اور چھوٹی کا بیاہ ایک ساتھ ہوگیا ۔
کرتار سنگھ کو بے قابو دیکھ کر کسانوں کا ایک جماوڑا میاں بیوی کے ارد گرد جمع ہوگیا اور سمرن جیت کی اس کشمکش کو دیکھتے رہے ۔کچھ کہنے کی خواہش میں سمرن جیت نے اپنے شوہر کا کرتا کس کے پکڑ لیا۔ لیکن اس کی سانسوں نے اس کا ساتھ ہی چھوڑا تھا اور لہو ایک دم یخ ہوگیا تھا ۔اس طرح وہ ساری باتیں اُن نیلی آنکھوں میں ڈوب گئیں جو اب بھی کرتار کو تک رہی تھیں ۔۔۔
آج پردیپ دفتر سے کچھ پہلے ہی واپس اپنے کمرے میں آیا تھا ۔ٹی۔وی پر کسانوں کے احتجاج کی خبریں دیکھتے ہی اس کا دل بے قرار ہوگیا ۔اگلے دن کا ٹکٹ بنا کر واپس ہندوستان آنے کا فیصلہ کیا ۔ اتفاقاََ پردیپ گھر اِس وقت پہنچا جب اُس کی ماں کی آخری رسومات انجام دینے کی تیاری تھی ۔سمرن جیت کا جسم چار پائی پر ایسے خاک ہونے کی تیاری میں تھا جیسے کہ کبھی زندہ ہی نہ ہو ۔ وہ ہاتھ جو مضبوط کھیتوں کو چیر کر سر سبز کرتے رہے آج اُس کے سینے سے ایسے بندے ہوئے ہیں جیسے کہ کبھی ان میں حرکت ہی نہ تھی۔۔۔ اس کی وہ آنکھیں جو کوسوں دور سے کرتار کی پگڑی کو پہچانتی تھی آج ان میں اتنی بھی ہمت نہ تھی کہ خود بند ہوسکیں۔
گائوں میں صف ماتم بچھ گئی تھی ،ہرسو رنج و غم کا عالم تھا۔ شاید پردیپ نے کبھی یہ سوچا بھی نہ تھا کہ وہ گھر اتنی مدت کے بعد آجائے اور اس کی ماں کا انتم سنسکار ہورہا ہو ۔ وہ ماں جوپردیپ کی آنکھوں میں ایک آنسو تک برداشت نہ کرتی، اس کے سپنوں کے خاطر کئی برس اپنے لخت جگر سے دور رہی اور یہ وہی سمرن جیت تھی جس نے اپنے میکے کے حصے کی ساری زمین بیچ کر پردیپ کی پڑھائی پوری کی تھی ۔
ماں کی موت نے پردیپ کی کمر ہی توڑ ڈالی ۔اس کے سپنوں کی دنیا ہی بکھر گئی ۔وہ خوابوں کا محل، جس کی حفاظت کرتے کرتے سمرن جیت داعئی اجل کولبیک کر بیٹھی ۔آج چکنا چور ہوا ہے اور اس محل کے ٹوٹے کانچ چبھتے ہوئے پردیپ کی روح کو زخمی کررہے ہیں اور اس سے سینکڑوں سوالوں کے جواب مانگ رہے ہیں ۔۔۔
ایسے حالات جنہوں نے اس کی ماں کی جان لی ، اس کے گائوں کے لوگوں کو مہاجر بنایا ، کئی مائوں کو بغیر چھت تڑپانے والی سردیوں میں فرش پر سونے کو مجبور کیا ، کئی بہنوں کو رات کے اندھیرے میں اپنی عزت دائو پر لگانے کو مجبور کردیا ،کئی بزرگوں کو کپکپاتی ٹھنڈ میں اپنی جانوں کی قربانیاں دینے پر آمادہ کیا ۔وہ حالات جنہوں نے ان کی زندگیوں کو نرک سے بد تر بنا دیا ۔جنہوںنے ان کے کم سن بچوں کی ممتا چھین لی ۔ ایسے حالات جنہوں نے کنواری لڑکیوں کے رخساروں کی سرخی چھین لی ۔بوڑھوں کا قرار اور جوانوں کا سکون چھین لیا ۔
پردیپ اب بالکل بدل گیا ہے ۔اس کے دل میں کسانوں پر ہورہے ظلم و استبداد کے خلاف نفرت پیدا ہوگئی ۔ اس کا خون اب ظلم سے لڑنے کے جذبے سے بھر گیا ہے ۔آسٹریلیا واپس جانے کا اب وہ نام ہی نہیں لے رہا ۔ اب وہ جان گیا ہے کہ قوم کو اب اس کے جیسے پڑھے لکھے نوجوانوں کی ضرورت ہے ۔وہ اب اپنے لوگوں کی مدد کرنا چاہتا ہے ۔ ان لوگون کی مدد جنہوں نے اس کے آسٹریلیا روانہ ہوتے وقت بینڈ باجوں سے اس کی ودائی کی تھی ۔ جن کی آنکھیں پردیپ کی جدائی میں نم ہوئی تھیں ۔ جن کو آسٹریلیا میں وہ اپنے کمرے میں تنہائیوں میں یاد کرتا رہا ۔ وہ مائیں جو اپنے بچوں کو پردیپ کی مثالیں دیتی تھیں۔ وہ بہنیں جو آج بھی اس کی ماں کے انتقال پر زار وقطار رورہی تھیں۔۔۔ اب اس کو ان سب کی فکر تھی ۔۔۔ ان سب بے بسوں کی جو سنگھوں ،غازی پور ،ٹکری سرحدوں پر پناہ گزینوں کی طرح اپنی زندگی گزاررہے تھے ۔وہ ان کو ایسے مرتا نہیں دیکھ سکتا جیسے اس کی ماں تڑپ تڑپ کر اپنی جان گنوا بیٹھی۔
اس کو اب اپنے کھیتوں کی فکر ہے ۔ان کھیتوں کی جن مین اس کی ماں کی یادیں بسی تھی۔ جن میں اس کا بچپن بیتا تھا ۔ اس زمین کی فکر جس نے اپنی چھاتی پر زخم برداشت کرکے پردیپ کو پڑھنے ،سوچنے ،سمجھنے کے لیے توانائی بخشی تھی۔ان کھیتوں کی فکر جنہوں نے اس کی پڑھائی آسان بنائی تھی ۔ ان باغیچوں کی فکر جن میں کوئل ،پپیہے ،مور اور بلبل بستے تھے ۔جن کی وادیوں میں سرسبز درخت صبح و شام مصوّر کائنات کی تعظیم میں جھک جاتے تھے ۔
اس کو اپنی نئی نسلوں کی فکر ہے جو اس کے پنجاب کی شان ہے۔یوپی اور راجستھان کی مان ہے اور وسطی ہندوستان کی پہچان ہے ۔اس کے ذہن میں وسطی ہندوستان کے سویابین سے بھرے کھیتوں کی تصویر آرہی ہے جن کی مہک دل و دماغ کو تروتازہ کر دیتی ہے ۔اس کو اب اپنے کھیتوں سے محبت ہونے لگی ہے۔۔۔ پنجاب کے کھیتوں سے۔۔۔ راجستھان کے کھیتوں سے۔۔۔یو پی کے کھیتوں سے۔۔۔ ہندوستان کے کھیتوں سے۔۔۔وہ یہ سب کھونا نہیں چاہتا۔ وہ کسان کی آواز کو دبتا ہوا نہیں دیکھ سکتا۔۔۔وہ کسان کو غلامی سے بچانا چاہتا ہے۔ وہ کسانوں کی آواز بننا چاہتا ہے۔۔۔ چاہے اس کی خاطر اس کو کچھ بھی کرنا پڑے۔۔۔
معاملہ اب طول پکڑ چکا تھا۔ سرکار بھی اپنی ہٹ درمی پر اڑی تھی۔آزاد ہندوستان میںایسے حالات کا پیش آنا ہر کسی کی سوچ سے باہرتھا۔ یومِ جمہوریہ کا دن بھی قریب آرہا تھا ۔ کسانوں نے اس سال ۲۶ جنوری کو ٹریکٹر مارچ نکالنے کا فیصلہ کرلیا۔ وہ دلی جا ناچاہتے ہیں ۔ اس دلی میں جو ہندوستان کی دھڑکن ہے۔وہ لال قلعہ جانا چاہتے ہیں ۔ اس لال قلعہ میں جو کئی سو سال کی میراث ہے، جہاں آزاد ہندوستان کا ترنگا دن رات آسمان کی ہواوئں میں جھومتا نظر آتا ہے۔ وہ سرکار کو یہ یاد دہانی کرانا چاہتے ہیں کہ وہ سامراجی حکومت میں نہیں ایک آزاد ہندوستان میں رہتے ہیں ۔ اس ہندوستان میں جہاں مہاتما نے لوگوںکو غلامی سے نجات دلانے کی خاطر اپنی جان تک قربان کی، اس ہندوستان میں جہاں بابا صاحب امبیڈکر کا آئین چل رہا ہے، جہاں بھگت سنگھ کے جذبۂ شہادت کی اب تک ساری دنیا میں سراہنا کی جاتی ہے، جہاں میرا کے آنسوں میر کی شاعری میں ملتے ہیں، جہاں ایک ٹوپی والا ایک پگھڑی والے کی تیمارداری کر رہا ہے۔ اس بھارت میں جہاں گنگا و جمنی تہذیب کا بول بالا ہے، جہاں اناج کا مذہب نہیں دیکھا جاتا، جہاں پانی رام کے کنوے سے نکل کر رحیم کے کھیتوں کو سیراب کرتا ہے، جہاں کُلسم کے ہاتھ کی بنی روٹی کھا کرساوتری کو آرام ملتا ہے۔اِن کو اپنے حق کی بات کرنی ہے۔ اپنے وطن کی بات کرنی ہے۔
آج صبح صبح کئی روز بعد سورج نے بھی اپنا چہرہ دکھا ہی لیا۔ دھوپ کی کرنوں میں ٹریکٹروں کی ریلی چمک رہی ہے۔ قطار اتنی لمبی کہ دیکھتے دیکھتے نظریں تھک جاتی ہیں۔ پردیپ بالکل اپنے باپ کی طرح پگڑی باندھے ایک ٹریکٹر کو لال قلعے کی اور لے جا رہا ہے۔ خون میں بدلے کا جذبہ اُبلتا ہوا، من میں اپنی ماں کے جسم سے نکلتا ہوا دھواں ، اسکے باپ کی آنکھوں سے بہتی ہوئی بے بسی، اسکی بہن کی آنکھوں کا پگھلتا ہوا سُرمہ، اپنے گائوں والوں کے دل کی پکار، سنگھو، ٹکری، اور غازی پور سرحدوں پر کھلے آسمان میں بیٹھے بے گھر لوگوں کی فریاد ۔ وہ فریاد جس کو اربابِ اقتدار تک پہچانے کی خاطر وہ اپنا ہر سپنا چھوڑ آیاہے۔ آسٹریلیا کا وہ آرام ، وہ رنگین صبح و شام،وہ ساری شان بان جس پر پورے گائوں کو فخر تھا، جس کے سہارے کرتار اپنی چھاتی تان کر چلتا تھا، سب کا سب وہ چھوڑ آیا ہے۔۔۔۔
وقت کے ساتھ ساتھ جماوڑا بڑھ رہا ہے ۔ پولیس والے چیل کوئوں کی طرح با ساز و سامان ریلی پر نظر یں جمائے ہوئے ہیں۔ انتظامیہ کے نیک ارادے صاف ظاہر ہیں۔سب چوکس ایسا لگ رہا ہے کہ ایک اشارے پر وہ نہتے اور معصوم کسانوں پر ٹوٹ پڑیں گے۔ تصویریں بالکل برطانوی سامراج جیسی۔ لیکن کسان بھی کرو یا مرو کا جذبہ دل میں لئے چل رہے ہیں ۔ کچھ لوگ ٹریکٹر ریلی کے آگے آگے گولیوں اور آنسو گیس کے گولے داغے جانے کی آوازوں کے بیچ یہ نعرے لگاتے ہوئے:
’’کسان ایکتا‘‘
’’زندہ باد۔۔زندہ بادزندہ باد‘‘
’’کسان ایکتا‘‘
’’زندہ باد۔۔زندہ بادزندہ باد‘‘
’’ہندوستان۔۔۔زندہ باد۔۔۔زندہ بادزندہ باد‘‘
’’کسان ایکتا‘‘
’’زندہ باد۔۔زندہ بادزندہ باد‘‘
پوری دلی میں بھگدڑ مچ گئی۔ہجوم بکھرنے لگا۔ میدانِ جنگ جیسی صورتِ حال ہے۔ سڑک کے بیچوں بیچ ایک ٹریکٹر پلٹا ہوا ہے۔ بغل میں پردیپ کی پگھڑی پڑی ہے۔ٹریکٹر کے نیچے لت پت پردیپ کے جسم سے نکلتے خون میں کسانوں کی ساری امیدیں اور ارمان بہتے نظر آرہے ہیں۔لال قلعہ کی دیواریں نم ہیں۔جامعہ مسجد کے مینار افسردہ ہیں۔ ہندوستان کا دل جل رہا ہے ۔۔ہندوستان جل رہا ہے۔۔۔ لال قلعہ ان نعروںسے گونج رہاہے۔
’’کسان ایکتا‘‘
’’زندہ باد۔۔زندہ بادزندہ باد‘‘
’’ہندوستان۔۔۔زندہ باد۔۔۔زندہ بادزندہ باد‘‘
’’کسان ایکتا‘‘
’’زندہ باد۔۔زندہ بادزندہ باد‘‘
۔۔۔۔۔۔۔اور کرتار اپنے ارمانوں کو ترنگے میںسمیٹتا ہوا لال قلعہ کی طرف دیکھتا رہا ۔۔۔۔۔
���
برنٹی اننت ناگ، کشمیرموبائل نمبر؛9906705778