فرائض کی انجام دہی میں کوتاہی حقوق کی خلاف ورزیوںکا سبب!

الطاف حسین جنجوعہ
فرائض وحقوق کا آپس میں چولی دامن کا ساتھ ہے۔یہ ایک ہی سکے کے دو پہلو اور سائیکل کے دو پہیوں کی طرح ہیں ۔اِن میں فرائض کوزیادہ اہمیت کا حامل قرار دیاجائے تو غلط نہ ہوگاکیونکہ جب فرائض کی انجام دہی میں لاپرواہی ہوتی ہے تو حقوق کی خلاف ورزی بھی ہوتی ہے۔ایک گھر، کنبہ، سماج اورملک میں ہرشخص اور اداروں کی انفرادی اور اجتماعی ذمہ داریاں ہیں اورفرائض ہیں، جو آپ کا فرض یا ذمہ داری ہے وہ کسی کا حق ہے۔ جب آپ اپنے فرائض کو انجام دینے میں غیر سنجیدگی کا مظاہرہ کریں گے تو سمجھ لیں کہ آپ کے ہاتھوںکسی نہ کسی کی حق تلفی ہوئی۔
اسی اہمیت کو مد ِ نظر رکھتے ہوئے آئین ِ ہند جوکہ دُنیا کاسب سے بہترین و طویل دستور ہے، میں بنیادی فرائض کو شامل کیاگیاہے۔آئینِ ہند ایک ایسی مقدس کتاب ہے جس پر عملدرآمد کر کے ترقی، خوشحالی، امن وامان اور سب کے لئے انصاف پسندی کے تقاضوں کو پورا کیاجاسکتا ہے۔ اس میں ملک کے ہرشہری کے حقوق، انصاف اور یکسانیت کی بات کہی گئی ہے۔ آئین کے حصہ 4الف میں آرٹیکل 51Aکے تحت بنیادی فرائض کی فہرست دی گئی ہے، اس کے تحت اصل فرائض کی تعداد10تھی لیکن سال 2002کو آئین ِ ہند کی 86ویں ترمیم کے ذریعے اس میں مزید ایک فرض کا اضافہ کیاگیا۔ آئین ِ ہند کا آرٹیکل 51Aکہتا ہے ’’ بھارت کے ہرشہری پر فرض ہوگا کہ وہ 51A(a) آئین پر کاربند رہے اور اس کے نصب العین اور اداروں، قومی پرچم اور قومی ترانے کا احترام کرے۔1A(b) ا ن اعلیٰ نصب العین کو عزیز رکھے اور ان کی تقلید کرے جو آزادی کی تحریک میں قوم کی رہنمائی کرتے رہےہیں۔A(c)بھارت کے اقتدار اعلیٰ، اتحاد اور سالمیت کو مستحکم بنیادوں پر استوار کرکے ان کا تحفظ کرے۔51A(d)ملک کی حفاظت کرے اور جب ضرورت پڑے، قومی خدمت انجام دے۔ 51A(e) مذہبی، لسانی اور علاقائی وطبقاتی تفرقات سے قطع نظر بھارت کے عوام الناس کے مابین یکجہتی اور عام بھائی چارے کے جذبے کو فروغ دے ،نیز ایسی حرکات سے باز رہے جن سے خواتین کے وقار کو ٹھیس پہنچتی ہو۔51A(f)ملک کی ملی جلی ثقافت کی قدر کرے اور اُسے برقرار رکھے؛51A(g) قدرتی ماحول کو جس میں جنگلات ، جھلیں، دریا اور جنگلی جانور شامل ہیں، محفوظ رکھے اور بہتر بنائے اور جانداروں کے تئیں محبت وشفقت کا جذبہ ر کھے۔1A(h). دانشورانہ رویے سے کام لے کر انسان  دوستی اور تحقیقی واصلاحی شعور کو فروغ دے۔1A(i)سرکاری جائیداد کا تحفظ کرے اور تشدد سے گریز کرے۔ 51A(j)تمام انفرادی اور اجتماعی شعبوں کی بہتر کارکردگی کے لئے کوشاں رہے تاکہ قوم متواتر ترقی وکامیابی کی منازل طے کرنے میں سرگرم عمل رہے اور51A(k) اگر والدین یا ولی ہے، چھ سے چودہ سال تک کی عمر والے اپنے بچوں یا وارڈ، جیسی کہ صورت ہو، کے لئے تعلیم کے مواقع فراہم کرے۔
متذکرہ فرائض کی اہمیت کو مدِ نظر رکھتے ہوئے نیشنل کونسل آف ایجوکیشنل ریسرچ اینڈ ٹریننگ(این سی ای آر ٹی)اور جموں وکشمیر بورڈ آف اسکول ایجوکیشن (JKBOSE)نے اپنی نصابی کتابوں میں بنیادی فرائض کی فہرست کو نمایاں طور اصل نصاب شروع ہونے سے پہلے صفحہ پر شائع کرتی ہے اور یہ فرائض کی یہ فہرست آپ کو دوسری یا تیسری سے لیکر دسویں تک نصابی کتابوںکے شروع میں نظر آئے گی لیکن ہم اِس کو پڑھنے، سمجھنے اور عمل کرنے پر وہ توجہ نہیں دیتے جوبنیادی حقوق پر ہوتی ہے۔ آپ قابل سے قابل بچے کو اگر بنیادی فرائض بارے پوچھیں گے تو جواب دینے والوں کی تعداد بہت کم پاؤ گے۔
حالیہ دنوں قومی یوم ِ آئین کی مناسبت سے ملک بھر میں ہفتہ بھر تقریبات منعقد ہوئیں جس میں مقدس کتاب آئین ِ ہند کی اہمیت، افادیت ، خصوصیات پرماہرین نے روشنی ڈالی لیکن اِن تقریبات کے دوران بھی مشاہدہ میں یہ آیاکہ بنیادی فرائض کے حوالے سے اُتنی زیادہ بات نہیں ہوئی یا ہوئی تو اُس شدت کے ساتھ نہیں جتنی ہونی چاہئے تھی۔
آئین ِ ہند میں درج بنیادی فرائض کے علاوہ ہم گھر سے اگر شروعات کریں تو والدین کے اولاد پر فرائض ہیں، اولاد کے والدین کے تئیں فرائض ہیں۔ پڑوسیوں، دوست واحباب، رشتہ داروں،سماج، ملک ، غیر مذہب کے تئیں بھی آپ کی ذمہ داریاں اور فرائض ہیں جن کو اگر انجام دینے میں لاپرواہی ہوتی ہے تو اِس سے دیگر متاثر ہوتے ہیں۔ اور سماجی عدم توازن پیدا ہوتا ہے۔آج ہمارے معاشرے کا سب سے بڑا مسئلہ ہی یہی ہے کہ ہم اتنے سمجھدار اور پڑھ لکھ گئے ہیں کہ ہمیں اپنا ہر حق یاد ہے ، اُس کے لئے ہم آواز بھی بلند کرتے ہیں لیکن فرائض کی انجام دہی میں اُتنی ہی شدت سے ہم لاپرواہی برت رہے ہیں۔
 آپ نے اکثر سنا ،پڑھااور دیکھاہوگاکہ ہوگا یورپین ممالک /مغربی ممالک میں قانون کی بالادستی ہے، وہاں ہرشہری ذمہ داری کا ثبوت دیتا ہے۔ وہاں پر انسانی حقوق کی قدر ہے۔وہاں انسانیت کی قدر ہے، وہاں جانوروں کی قدرہے، وہاں ماحول کے تئیں معاشرے میں سنجیدگی ہے۔ وہ اِس وجہ سے ہے کہ وہاں ہرشخص اور ادارہ اپنے فرائض کی انجام دہی پرغفلت ولاپرواہی سے کام نہیں لیتا،نتیجہ کے طور حقوق کی خلاف ورزیوں کی شرح کم ہے۔
ہم اکثر دیکھتے ہیں کہ سرکاری اُساتذہ تنخواہوں /مراعات میں اضافہ، ترقی ، ٹرانسفر ودیگر مطالبات حکومت سے کرتے ہیں اور اِن کی طرف توجہ مبذول کرانے کے لئے وہ پریس کانفرنسوں، احتجاجی مظاہروں، ہڑتالوں کا بھی سہارا لیتے ہیں، یہ اُن کے حقوق کی بات ہے۔ اسکولوں میں وقت پر پہنچنا اور مقررہ اوقات کار تک وہیں رہنا، بچوں کو پڑھانا یہ اُن کا فرض ہے۔ڈاکٹروں کو اچھی تنخواہ ملے، رہائش کا معقول انتظام ہودیگر مراعات ملیں یہ اُن کے حقوق ہیں۔ ڈاکٹر کی جہاں تعیناتی ہے وہاں وہ باقاعدگی کے ساتھ جائے، مریضوں کا دیانتداری، ایمانداری سے علاج ومعالجہ کرے، اُن کو ضرورت کے مطابق ادویات تجویز کرے ، یہ فرائض کے زمرہ میں آتا ہے۔صرف ڈاکٹر یا ٹیچر ہی نہیں بلکہ اسی طرح ہرشعبہ آپ دیکھ لیں۔
دکانداروں ، کاروباریوں کی یہ ذمہ داری ہے کہ وہ ناپ تول میں ایمانداری برتیں، ملاوٹ خوری، گراں بازاری، منافع خوری سے اجتناب برت کر صارفین کو معیارومقدار کے ساتھ سامان فروخت کریں۔یہ ایک تلخ حقیقت ہے کہ فرائض کی انجام دہی کے حوالے سے ہم سب انفرادی اور اجتماعی طور کسی نہ کسی سطح پر لاپرواہی وغیرسنجیدگی کا مظاہرہ کرتے ہیں جس کا خمیازہ ہمارے اہل خانہ، ہماری اولاد، والدین، پڑوسیوں، سماج، ملک اور قوم کو بھگتنا پڑرہا ہے۔ فرائض کی انجام دہی کے تئیں ہم کتنے سنجیدہ ہیں، اس پر ہمیں اپنا محاسبہ کرنے کی ضرورت ہے۔
حکومتی وانتظامی سطح پر چونکہ اِن دنوں طرح طرح کی بیداری مہمات ایک معمول بن چکا ہے۔ ایک بیداری مہم ختم نہیں ہوتی کہ دوسری شروع ہوجاتی ہے۔ ایسے میں حکومت کو چاہئے کہ بنیادی فرائض کے حوالے سے بھی خصوصی مہم شروع کی جائے۔علاوہ ازیں اسکولوں وکالجوں میں طلبا کو بنیادی فرائض نہ صرف لازمی طور پڑھائے، سمجھائے جائیں بلکہ اِن پر عملدرآمد کرنے کے لئے پریکٹیکل بھی کروائے جائیں۔فرائض میں لاپرواہی کے مرتکب ہوکر ہم حقوق کی بالادستی کا ڈنڈورا نہیں پیٹ سکتے۔اگر ہم صرف اپنے فرائض کو انجام دیں تو خود بخود ہمارے حقوق کی بھی پاسدار ی ہوگی کیونکہ جوہماری ذمہ داری یا فرض ہے وہ دوسروں کا حق ہے۔
(کالم نویس جموں و کشمیر ہائی کورٹ میں وکیل ہیں)
رابطہ۔7006541602
 [email protected]                                                                                               (نوٹ۔ اس مضمون میں ظاہر کی گئی آراء مضمون نگار کی خالصتاً اپنی ہیں اور انہیں کسی بھی طور کشمیر عظمیٰ سے منسوب نہیں کیاجاناچاہئے۔)