’غلو‘۔۔۔شِرک کی اصل جڑ

صحیح بخاری میں ابنِ عباس ؓ نے حضرت عمر ؓ سے ایک حدیث روایت کی ہے،حدیث کا متن یہ ہے ۔اللہ کے رسولؐ نے فرمایا ہے’’لَاتُطْرُونِی کَمَا اَطْرَتَ النَّصَارٰی ابْنِ مَریَمَ فَاِنَّمَا اَنَا عَبْدُہُ وَلٰکِنْ قُولُوا عَبدُاللّٰہِ وَرَسُولُہُ‘‘یعنی مجھے میرے مرتبے سے نہ بڑھائو جیسے کہ نصاریٰ نے عیسیٰ ابن مریم ؑ کو بڑھایا۔میں اللہ کا بندہ ہوں لہذا تم یہی کہا کرو کہ میں (محمدؐ)اللہ کا بندہ اور اُس کا رسول ہوں[3445]۔
’’اَطْرَ‘‘یعنی کسی چیز ‘کسی انسان ‘کسی ولی یا کسی پیغمبر کی تعریف میں غلو اور زیادتی(Exaggeration)اختیار کرنا ‘یا کسی کو اُس کے مقام و مرتبہ سے بڑھا کر پیش کرنادین ا سلام میں قطعًاجائز نہیں ہے۔بقول ابو نعمان سیف اللہ خالدحفظہ اللہ ‘حقیقت یہ ہے کہ دین میں جو بھی خرابی آئی ہے وہ اسی غلو کی وجہ سے آئی ہے ۱؎۔قوم نوحؑ کی مثال اس ضمن میں سب سے بڑی اور واضح مثال ہے‘آپ کو بتادوں کہ نوحؑ کی قوم نے اپنے بزرگوں ‘ولیوں اورصالحین کی تعظیم میں غلو یعنی زیادتی اختیار کی اُ ن کو اُن کے مقام و مرتبہ سے بڑھایا اور نتیجے کے طور پر وہ شرک و ضلالت میں پڑگئے۔پھر جب نوح ؑ نے ان کو سمجھایا تو قوم کے چند امراء نے لوگوں کو طرح طرح سے روکا ،جس کا نقشہ قرآن کی اس آیت میں کھینچا گیا ہے’’ وَقَالُوْالَاتَذَرُنَّ اٰلِہَکُمْ وَلَاتَذَرُنَّ وَدًّاوَّلَاسُوَاعًَاوَّلَایَغُوثَ وَیَعُوقَ وَنَسْرًا‘‘ اور انہوں نے کہا کہ ہر گز اپنے معبودوں کو نہ چھوڑنا اور نہ ہی ودّ ‘سواع‘یٰغوث‘یعوق اور نسر کو چھوڑنا۲؎۔یہ وُد‘سوا ع‘یغوث‘ یعوق اور نسر کون تھے ،جن کو چھوڑنے کے لئے چند امراء اپنی قوم سے کہہ رہے ہیں۔یہ دراصل اللہ کے نیک بندے ‘صالحینِ قوم اور اولیاء اللہ تھے ۔جب یہ ایک ایک کرکے فوت ہوئے تو لوگوں نے ان کے تئیں غلو اور زیادتی اختیار کی‘ان کی تعظیم میں حدیں پار کیں ،ان کی تصویروں کو عقیدتًا اپنے گھروں میں سجایا،اِن کوانِ کے جائز مقام و مرتبہ سے بڑھایا اور پھر شرک و ضلالت اور بت پرستی میں پڑگئے۔ عبداللہ ابن عباسؓ سے مرفوعًا روایت ہے ‘اور فرماتے ہیں ’’ اسماء رجالٍ صالحین من قومٍ نوحٍ فلمّا ھلکوا او حی الشّیطان الی قومھم ان انصبوا الی مجالسھم الّتی کانوا یجلسون انصابٍا و سموھاباسمائھم ففعلوا فلم تعبد حتی اذا ھلک او لئِک و تنسّخ العلم عبدت‘‘کہتے ہیں کہ یہ پانچوں حضرت نوح ؑ کی قوم کے نیک لوگوں کے نام تھے ،جب ان کی موت ہوگئی تو شیطان نے ان کے دل میں یہ ڈالا کہ اپنی مجلسوں میں جہاں یہ بیٹھتے تھے، ان کے بُت قائم کرلیں اور ان بُتوں کے نام نیک لوگوں کے نام پر رکھ لیں ۔چنانچہ ان لوگوں نے ایسا ہی کیا ،اُس وقت ان بتوں کی پوجا نہیں ہوتی تھی لیکن جب وہ لوگ بھی مر گئے جنہوں نے یہ بُت قائم کئے تھے اور پھر جب علم لوگوں میں نہ رہا تو ان کی پوجا پونے لگی[البخاری؍4920]۔
حضرت نوحؑ کی قوم نے جب اپنے بزرگوں کی تعظیم میں غلو اور زیادتی اختیار کی تو نتیجے کے طور پر وہاں شرک کی راہ ہموار ہوگئی۔اور اس کے بعد مختلف قوموں نے یہی رَوش اختیار کی ‘کچھ نے بزرک ہستیوں کے تیئن اور کچھ نے پیغمبروں کے متعلق۔چنانچہ اہل کتاب سے فرمایا گیا ’’یٰاَھْلَالْکِتٰبِ لَا تَغْلُوا فِی دِینِکُمْ غَیْرَالْحَقْ وَلَا تَتَّبِعُوا اَھْوَائَ قَوْمٍ قَدْضَلُّوامِن قَبلُ وَاَضَلُواکَثِیرًا وَّ ضَلُّوا عَنْ سَوائٍ السَّبِیلِ‘‘یعنی اے اہل کتاب اپنے دین میں ناحق حد سے نہ بڑھو اور اُس قوم کی خواہشوں کے پیچھے مت چلو جو اس سے پہلے گمراہ ہوچکے اور انہوں نے بہت سوں کو گمراہ کیا اور وہ سیدھے راستے سے بھٹک گئے [المائدہ؍77؍ترجمہ عبدالسلام بن محمد]۔اس آیت کا ایک تاریخی پسِ منظر ہے۔ ‘دین اورعقیدہ میں غلو اختیار کرنا کوئی نیا تصور نہیں ہے ‘بلکہ یہ سابقہ اقوام سے مسلسل چلتا آرہا ہے بالخصوص قومِ نوح سے۔یا اگر میں بہتر انداز میں کہوں تو اس کی جڑ قومِ نوحؑ کے مشرکین سے پیوستہ ہے۔کیوں کہ اسی قوم نے سب سے پہلے اپنے بزرگوں سے متعلق غلو اختیار کیا اور بعد میںیہ مرض نسل در نسل اِس قوم سے اُس قوم منتقل ہوتا رہا۔چنانچہ آج بھی یہ مرض مسلمانوں میں موجود ہے بلکہ انتہا کو پہنچا ہوا ہے‘آپ دیکھتے ہیں کہ ہمارے یہاں بزرگوں اور ولیوں کو مختلف ناموں سے پکارا جاتا ہے ،اُنہیں طرح طرح کے شرکیہ القاب دئے جاتے ہیں۔حد تو یہ ہے کہ بزرگوں اورولیوں کے ناموں کو باعثِ برکت گردانا جاتاہے ‘گھروں اور مسجدوں میں ان کے نام کے پردے اور جھنڈے نصب کئے جاتے ہیں ۔ یہ سب لوگوں کے خود ساختہ عقائد ہیں۔ دین اسلام کے ساتھ ان کو کسی بھی طرح کاکوئی تعلق نہیں ہے‘۔حالانکہ جن بزرگ ہستیوں کی مناسبت سے یہ سب کیا جاتا ہے، وہ سب اس سے نابلد ‘بے خبراوربے زار ہیں۔ انہیں اس کا کچھ بھی علم نہیں ۔سورہ یونس میں آیت موجود ہییََومَ نَحْشُرُ ھُم جَمیْعًا ثُمَّ نُقُولُ لِلَّذِیْنَ اَشْرَکُوْا مَکَانَکُمْ اَنْتُمْ وَشُرَ کَائُ کُم فَزَیَّلْنَا بَیْنَھُم وَقَالَ شَرَکَائُ ھُمَ مَاکُنْتُمْ اِیَّانَاتَعْبُدُونَ فَکَفٰی بَاللّٰہِ شَھِیدًا بَیْنَنَاوَبَیْنَکُمْ اِن کُنَّاعَنْ عِبَادَکُم لَغٰفِلِینَ‘‘اللہ تعالیٰ کہتے ہیں کہ وہ دن بھی قابلِ ذکر ہے جس روز ہم ان سب کو جمع کریں گے۔ پھر مشرکین سے کہیں گے کہ تم اور تمہارے شریک اپنی جگہ ٹھرو، پھر ہم ان کے درمیان پھوٹ ڈال دیں گے اور ان کے وہ شرکا کہیں گے کہ تم ہماری عبادت نہیں کرتے تھے سو ہمارے اور تمہارے درمیان اللہ کافی ہے۔ گواہ کے طور پر کہ ہم
 کو تمہاری عباد ت کی خبر بھی تھی[آیت نمبر؍28-29 ؍ترجمہ جوناگڑہیؒ]۔
سورہ یونس کی متذکرہ بالادوآیات بڑی اہم ہیں۔ ہمارے یہاں اکثر لوگ یہ کہتے پھرتے ہیں کہ اس طرح کی آیات بتوں اور بُت پرستوں سے متعلق ہیں جبکہ ان آیات سے یہ بات واضح طور پر غلط ثابت ہوجاتی ہے۔چنانچہ حافظ صلاح الدین یوسفؒ ان آیات کی تفسیر میں لکھتے ہیں ’’یہ آیت اس بات پر نصِ صریح ہے کہ مشرکین جن کو مدد کے لئے پکارتے تھے ،وہ محض پتھر کی مورتیاں نہیں تھیںبلکہ وہ عقل و شعور والے افراد ہی ہوتے تھے‘‘۳؎۔ یہ بات ہمیشہ یاد رکھیئے کہ شرک کی اصل جڑ غلو ہی ہے۔
جاری۔۔ان شاء اللّٰہ 
)حواشی۔۱؎تفسیر بیان القرآن جلد دوم؍94۔۲؎سورہ نوح؍23  ؍ترجمہ جونا گڑھیؒ۔۳؎تفسیر احسن البیان ؍سورہ یونس کی تفسیر میں)
سیر جاگیر سوپور‘کشمیر
رابطہ۔8825090545