غلط سماجی روایتوں کا درد سہتی نوعمر لڑکیاں اور خواتین

ڈیجیٹل اور ٹیکنالوجی کے لحاظ سے کسی بھی ملک کی ترقی 21ویں صدی کا اہم حصہ ہے۔ ہندوستان نے بھی آسمان سے لیکر زمین تک کی گہرائیوں کی پیمائش کرنے کی کافی حد تک صلاحیت حاصل کر لی ہے۔ سوشل میڈیا کے تقریباً تمام پلیٹ فارمز کی کمان ہندوستانیوں کے ہاتھ میں نظر آتی ہے۔ لیکن دوسرا رخ یہ ہے کہ اتنی کامیابیاں حاصل کرنے کے بعد بھی آج لوگوں کے ذہنوں سے حیض سے متعلق غلط فہمی کو دور نہیں کر سکے ہیں۔ اب بھی معاشرے میں اچھوت لفظ سے اِس کا اظہار کیا جاتا ہے اور اس دوران نوعمر لڑکیوں اور خواتین کے ساتھ امتیازی سلوک ہوتا ہے۔ یہ تصور شہروں کی نسبت دیہی علاقوں میں بہت گہرا ہے۔ افسوس کی بات ہے کہ اس ملک میں کئی طرح کی اسکیمیں چلائی گئی ہیں لیکن آج تک حیض سے متعلق عوام کی غلط فہمیوں کو دور کرنے کے لیے کوئی اسکیم سامنے نہیں آسکی ہے۔
مسلم بستیوں کے مقابلہ میں غیر مسلم علاقوں میں اس سے جڑی غلط فہمیاں زیادہ ہیں۔ملک کے دور دراز دیہی علاقوں کی طرح اتراکھنڈ کے باگیشور ضلع میں واقع کپکوٹ بلاک کے کئی گاؤں بھی اسی طرح کے عقائد اور تصورات سے دوچار ہیں۔ جہاں آج بھی ماہواری یعنی حیض کو ایک لعنت سمجھا جاتا ہے اور اس دوران نوعمر لڑکیوں سے لے کر خواتین تک کو جسمانی اور ذہنی اذیت سے گزرنا پڑتا ہے۔ انہیں ماہواری کے دوران گھر سے باہر گائے کو باندھنے والی جگہ یعنی گؤشالہ میں رہنے کو مجبور کر دیا جاتا ہے۔ جہاں کسی قسم کی کوئی سہولت میسر نہیں ہوتی ہے۔ اس سلسلے میں جگن ناتھ گاؤں کی ایک نوعمر لڑکی رینو اپنا تجربہ بتاتی ہیں کہ گؤشالہ گھر سے قریب ہو یا دور، رات میں روشنی کی سہولت ہو یا نہ ہو، کسی کو کوئی پروا نہیں ہے۔ ماہواری کے دوران لڑکیوںاور خواتین کا پورا وقت وہیں گزارنا پڑتا ہے۔اس دوران ہمیں صبح 4 بجے اٹھ کر نہانے کے لیے دریا پر جانا ہوتاہے، پھر موسم گرم ہو یا سردی، لڑکی چھوٹی ہو یا بڑی، چاہے دریا گھر سے دور ہی کیوں نہ ہو، وہاں جا کر غسل کر نا پڑتا ہے۔
دوسری جانب کپکوٹ کے کستوربا گاندھی انٹر کالج کی 16 سالہ طالبہ مالا دانو،جو جکاتھانہ گاؤں کی رہنے والی ہے، ماہواری کے دوران ہونے والے رویے پر اپنا تجربہ بتاتی ہیں اور کہتی ہے کہ اس دوران اسے پیٹ میں بہت درد ہوتا ہے۔ لیکن یہ بات اُسے کسی کو بتانے میں شرم آتی ہے۔وہ کسی کے ساتھ بھی شیئر کرنے سے قاصر ہے اور خاموشی سے اسے برداشت کرتی ہے۔ مالا کا کہنا ہے کہ ماہواری کے دوران جب انہیں صبح اکیلے دریا پرنہانے کے لئے جانا پڑتا ہے تو وہ بہت خوفزدہ ہوتی ہے، پھر بھی وہ جانے پر مجبور ہے۔ اسی گاؤں کی رہنے والی 18 سالہ بھاونا کہتی ہے کہ اسے حیض کے دوران نہ صرف گائے کے گوشالہ میں اکیلے رہنا پڑتا ہے بلکہ اس دوران اسے کسی چیز کو ہاتھ لگانے کی بھی اجازت نہیں ہے۔
ماہواری کے دوران نوعمر لڑکیوں کو نہ صرف جسمانی اور ذہنی طور پر مشکلات کا سامنا کرنا پڑتا ہے بلکہ اس دوران ان کی تعلیم بھی متاثر ہوتی ہے۔ اس حوالے سے پوتھنگ گاؤں میں واقع پرائمری اسکول اُچھٹ کی ٹیچر نیلو شاہ کا کہنا ہے کہ ماہواری کے دوران نوعمر لڑکیوں کی تعلیم پر سب سے زیادہ منفی اثر پڑتا ہے۔ وہ اسکول آنا بھی چھوڑدیتی ہیں جس کی وجہ سے وہ پڑھائی میں پیچھے رہ جاتی ہیں۔ بعض اوقات لڑکیاں اس خوف سے اسکول آنا چھوڑ دیتی ہیں کہ اگر اچانک ماہواری شروع ہو جائے تو اس میں گڑبڑ ہو جائے گی اور پھر گھر کے لوگ بھی اسے ہی کوسیں گے۔ خاندان کی خواتین بھی ایسے وقت میں اس کا ساتھ دینے کی بجائے اسے ذہنی طور پر ہراساں کریں گی، جس کی وجہ سے کئی بار نوعمر لڑکیاں گھبراہٹ کی وجہ سے اسکول چھوڑنا ہی بہتر سمجھتی ہیں۔
درحقیقت حیض کے دوران نوعمر لڑکیوں اور خواتین کے ساتھ کیا جانے والا یہ غیر انسانی فعل صدیوں پرانے عقائد اور غلط تصورات کا نتیجہ ہے۔ عقیدے کا نام دے کر پدرانہ معاشرہ عورتوں کواس پر یقین کرنے کے لئے مجبور کرتا ہے۔ مقامی لوگوں کے مطابق ان کا خدا پر یقین ہے اور اگر وہ ماہواری کے دوران اُن برائیوں پر عمل نہیں کریں گے تو خدا ان سے ناراض ہو جائے گا، جس سے انہیں یا ان کے خاندان کو بھی نقصان پہنچ سکتا ہے۔ حیران کن بات یہ ہے کہ نسل در نسل اس قسم کی سوچ اور غلط تصورات کو منتقل کرنے میں خود مقامی خواتین ہی ذمہ دار ہوتی ہیں، جو کہ ایمان کا حوالہ دیتے ہوئے نوعمر لڑکیوں کو سختی سے اس پر عمل کرنے پر مجبور کرتی ہیں۔ اس سلسلے میں کھائی باگڈ گاؤں کی بزرگ مالتی دیوی ماہواری کے دوران نوعمر لڑکیوں اور خواتین کو علیحدہ گاؤں میں رہنے پر مجبور کرنا مناسب سمجھتی ہیں۔ وہ اسے روایت اور ایمان سے جڑا مسئلہ سمجھتی ہیں۔ ان کے مطابق یہاں ایک روایت ہے، جسے ترک نہیں کیا جا سکتا۔ انہوں نے کہا کہ اگر ہم ایسا کریں گے تو ہم پر کوئی مصیبت آئے گی اور خدا ناراض ہو جائے گا۔ جس سے پورے خاندان اور گاؤں کو کوئی نہ کوئی سنگین نتائج بھگتنے پڑ سکتے ہیں۔
لیکن ایسی غیر انسانی روایت پر عمل کرتے ہوئے معاشرہ یہ نہیں سوچتاہے کہ اس دوران نوعمر لڑکیوں کو کس تکلیف سے گزرنا پڑتا ہے۔ یہ وہ حالت ہوتی ہے جب ایک طرف اسے پیٹ میں شدید درد ہوتا ہے تو دوسری طرف وہ جسم میں ہونے والی تبدیلیوں کی وجہ سے ذہنی طور پر پریشان رہتی ہے۔ بعض اوقات مناسب غذائیت کی کمی کی وجہ سے کچھ نوعمر لڑکیاں انتہائی اور ناقابل برداشت درد کی وجہ سے بیہوش بھی ہوجاتی ہیں۔ اس دوران جب اسے اپنے گھر والوں کی بہت ضرورت ہوتی ہے تو کوئی اس کے ساتھ نہیں ہوتا۔ شاید ہی کسی نے سوچا ہو گا کہ اس سے ایک نوعمر لڑکی کی صحت اور دماغ پر کتنا برا اثر پڑتا ہو گا۔
سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ عدم تحفظ کے خوف سے معاشرہ لڑکیوں کوا سکول بھیجنے پر پابندی لگاتا ہے لیکن دسمبر اور جنوری کی سخت سردی میں بھی صبح 4 بجے اسے لڑکیوں کو اکیلے دریا پر بھیجنے پر اعتراض کیوں نہیں ہوتا ہے؟ اس وقت اسے لڑکی کی حفاظت کا خیال کیوں نہیں آتا ہے؟ جبکہ اس دوران اس کے ساتھ کسی ناخوشگوار واقعے کا سب سے زیادہ خطرہ ہوتا ہے۔ درحقیقت وہم اور غیر انسانی تصورات سے گِرا ہمارا معاشرہ اس قدر تنگ نظری کا شکارہو چکا ہے کہ اپنی بچی کی صحت یا حفاظت کو داؤ پر لگانا بھی وہ مذہب کا فرض عمل سمجھتا ہے۔ ایسے میں لوگوں کو بیدار کرنے کی ضرورت ہے۔ انہیں بتانے کی ضرورت ہے کہ حیض کوئی بیماری، لعنت یا خدا کا عورت پر آیا کوئی عذاب نہیں ہے بلکہ یہ صرف ایک قدرتی تبدیلی ہے۔ حیض کے وقت اپنی بچی کا ساتھ دیں، اس کا خیال رکھیں۔ یہ کیوں بھول جاتے ہیں کہ جب بیٹی عذاب نہیں ہے تو اس کے جسم میں آنے والی تبدیلی عذاب کیسے ہو گئی؟
(کپکوٹ، اتراکھنڈ)(مصنفہ کستوربا گاندھی آواسیئے اسکول،کپکوٹ میں 11ویں جماعت کی طالبہ ہے)۔