طارق شبنم
’’ واہ ۔۔۔۔۔۔واہ۔۔۔۔۔۔ سو چوہے کھا کے بلی حج کو چلی گئی‘‘۔
’’میں نے شاہد کے پاس کرسی پر بیٹھتے ہی پُبھتی کستے ہوئے کہا‘‘۔
’’کیوں بھائی کیا ہوا؟‘‘
’’یار یہ داڑھی کس خوشی میں بڑھائی ہے‘‘ ۔
’’ ارے یار ۔۔۔۔۔۔اپنا کیا ہے ،آڈر آیا اور رکھ لی‘‘۔
’’کیوں باس کا آڈر ہے کیا؟‘‘
’’باس کون ہوتا ہے یار۔۔۔۔۔۔‘‘۔
’’پھر کس کا؟‘‘
’’مجھ پر حکم اسی کا چلتا ہے جس کا میں غلام ہوں‘‘۔
اس نے اپنے مخصوس فنکارانہ انداز میں مسکرا کرچہرے پر سلیقے سے سجی داڑھی پر ہاتھ پھیرتے ہوئے اپنی بات جاری رکھی۔
’’تُو تو پندرہ دن کی چھٹی پر گیا ہے اِدھر کیسے آنا ہوا؟‘‘
’’تم سے ہی ملنے آیا ہوں ‘‘۔
’’کیوں خیر تو ہے نا؟‘‘
’’ ہاں یار۔۔۔۔۔۔ اچھا یہ بتا پرسوں توکہاں جا رہا ہے ؟‘‘
’’وہیں جہاں کا بلاوا ہوگا‘‘۔
’’ارے با با ۔۔۔۔۔۔ پرسوں چھٹی ہے اور نصرت کو اسپتال میں داخل کرانا ہے‘‘ ۔
’’چھٹی کا تو معلوم ہے ،لیکن ضروری نہیں کہ نصرت کو اسی دن اسپتال داخل کرایا جائے‘‘۔
’’کیسی بات کرتا ہے یار۔۔۔۔۔۔ ڈاکٹرنی نے تو پرسوں کا ڈیٹ دیا ہے‘‘۔
’’ڈاکٹرنی کو کیا پتہ ہے ۔۔۔۔۔۔خیر تو جب بھی نصرت کو اسپتال لے جائے گا ،میں وہیں رہنے کی کوشش کرونگا، اگر کہیں اور سے بلاوا نہیں آیا تو‘‘۔
اس نے شک وشبہ سے لبریز لہجے میںکہا اور لکٹتے مٹکتے مستانہ انداز میں گنگناتے ہوئے گھر کی اور چل پڑاکیوںکہ دفتر کا وقت ختم ہوچکا تھا۔
’’اس لُچے،لفنگے کا کوئی بھروسہ نہیں ہے ۔پتہ نہیں کس جھمیلے میں پھنسا ہے ؟ہر وقت کسی کے اشارے کا منتظر رہتا ہے‘‘ ۔
سوچتے سوچتے میں بھی غصے کی حالت میںبوجھل قدموں سے گھر کی طرف جانے لگا۔
شاہد اور میںپچھلے کئی سالوں سے ایک ہی کمپنی میں کام کرتے تھے ۔وہ میرا اچھادوست تھا۔ پہلے سے ہی ہر قسم کی آرزو مندی سے بے نیاز ،لا پرواہ قسم کا بے غم ،مُنہ پھٹ ا ور پل میں تور پل میں ماشہ مزاج والا انسان تھا ۔ ہر وقت اوٹ پٹانگ باتیں کرتا رہتا تھا۔کمپنی کے باس کے ساتھ بھی آنکھیں ملا کر بات کرتا تھا اور کھبی خائف نہیں ہوتا تھا۔بڑی سے بڑی پریشانی کے وقت بھی یہ کہہ کر مسکراتا رہتا تھا کہ میرا وکیل سب سنبھالے گا ۔۔۔۔۔۔اس کا یہ وکیل کون تھا ؟کسی کو بھی معلوم نہیں تھا ۔کمپنی میں یہ بھی چمہ گوئیاں ہو رہی تھیں کہ وہ کسی بڑے سیاست دان کے لئے خاص چمچہ ہے اور اسی کے دم پر یہ بڑی بڑی باتیں کر رہا ہے ۔اس طرح وہ ہر وقت خوش رہتا تھا ،اپنی ہی دھن میں مست، اپنے ہی ڈھنگ کی الگ طرح کی زندگی گزارتا تھا اور اپنے ہی وضع کردہ اصولوں سے ہرگز سمجھوتہ نہیں کرتا تھا ۔جو بھی کام کرتا تھا بڑے ہی اعتماد اور اطمینان سے کر تا تھا۔کبھی کبھی اس کی باتوں سے مجھے بھی شک ہوتا تھا کہ ہو نہ ہو شاہد نے ضرور اپنے آپ کو کہیں گروی رکھا ہے اور اس کے پیچھے ضرور کوئی طاقت ور خفیہ سہارا ہے ۔۔۔۔۔۔ سو چوں کی بھول بھلیوں میں گُم مجھے پتہ ہی نہیں چلا کہ میں کب گھر کی دہلیز پر پہنچ گیا اور شبینہ کے کراہنے کی آوازیں میری سماعت سے ٹکرانے لگیں ۔شبینہ درد سے تڑپ رہی تھی اور اس کی حالت غیر ہو چکی تھی ۔میں نے اس کو اسی وقت اسپتال پہنچایا ،جہاں اس کو ایک دم لیبر روم میں شفٹ کیا گیا اور ڈاکٹروں نے تین پوائینٹ خون کا انتظام کرنے کے لئے کہا ۔پریشانی کی حالت میں میںنے فون کرکے شاہد کو ساری صورت حال بتائی۔
’’گھبرائو نہیں یار ۔۔۔۔۔۔نکلتا ہوں‘‘ ۔
کہہ کر اس نے فون کاٹ دیا ۔اس کے بے غرضانہ جواب سے مجھے ذرا بھی بھروسہ نہیں رہا کہ وہ آئے گا ۔لیکن کچھ دیر بعد ہی میری جان میں جان آگئی جب وہ ہانپتے ہانپتے اسپتال پہنچ گیا۔ہم دونوں کی رگوں سے تین پوائینٹ خون نکالنے کے بعد شبینہ کو آپریشن تھیٹر میں لے جا یا گیا ۔ڈاکٹروں نے کچھ کاغذات پر مجھ سے یہ کہہ کر دستخط لئے کہ مریضہ کی حالت انتہائی خراب ہے اور زچہ اور بچہ کے بچنے کے امیدیں بہت کم ہیں ۔شبینہ کی طبعی حالت واقعی بہت خراب تھی، ڈاکٹروں کا یہ نشتر نما جملہ پگھلتے ہوئے سیسے کی طرح میرے کانوں میں اتر گیا ۔ درد کی ایک تیز ٹیس میرے پورے وجود میں دوڑ گئی اور آنکھوں میں آنسئوںکے ڈورے تیرنے لگے ،لیکن شاہد،جو شبینہ کو اپنی سگی بہن سے بھی زیادہ عزیز رکھتا تھا، کے چہرے کے جغرافیہ میں کوئی ہل چل نہیں مچی۔
’’گھبرائو نہیں یار ۔۔۔۔۔۔سب ٹھیک ہو جائے گا ،میں جاتا ہوں ‘‘ ۔
’’کہاں؟‘‘
’’میرے مالک کا بلاوا آگیا‘‘۔
کچھ دیر میرے پاس گُم سم رہنے کے بعد اس نے میرا کاندھا تھپتھپاتے ہوئے کہا اور چلا گیا ۔
’’بکائو کہیں کا۔۔۔۔۔‘‘۔
شاہد کی اس بے تکی بات ،بے اعتنائی اور کج ادائی پر میرا دل بہت آزردہ اور چہرہ غصے سے لا ل ہوگیا ۔جی چاہا کہ اس کے مُنہ پر ایک زور دار طمانچہ رسید کر دوں ۔۔۔۔۔۔بہت دیر تک بے بسی و پریشانی کی حالت میں انتظار کے بعد آپریشن تھیٹر کا دروازہ کھلا اور ایک ملازم باہر آیا ۔
’’مبارک ہو بھائی ۔۔۔۔۔۔ لڑکاہوا ہے‘‘ ۔
’’وہ کیسی ہے؟‘‘ ۔۔۔۔۔۔
’’اب دونوں خطرے سے باہر ہیں ،آپ جلدی سے جا کے بچے کے لئے کپڑے اور ساتھ میں مٹھائی بھی لے کے آو‘‘۔
یہ خوش خبری سن کر میرے بخت جاگ اُٹھے ،چہرے پر جمی افسردگی ایک دم کافور ہوگئی اور دل و دماغ میں خوشیوں کے رباب بجنے لگے ۔ میں ہوا سے باتیں کرتے ہوئے بازار کی طرف نکلا ۔واپسی پر مجھے فریش ہونے کے لئے ٹھنڈے پانی سے ہاتھ مُنہ دھونے کا خیال آیا ،دائیں بائیں کوئی نل نظر نہ آنے کے سبب میں نے اسپتال کے بغل میں موجود مسجد شریف کا رخ کیا۔جونہی میں مسجد کے اندر داخل ہوگیا تو میرے پیروں تلے زمین کھسک گئی، انگ انگ سے خفت اور خجالت کی پیپ بہنے لگی اوراپنا آپ شاہد کے سامنے بہت چھوٹا محسوس ہونے لگا ۔۔۔۔۔۔شاہد دنیا ومافیا سے بے خبر روتے گڑ گڑاتے اوپر والے سے شبینہ اور اور اس کے بطن سے پیدا ہونے والے بچے کے لئے دعائیں مانگ رہا تھا ۔
٭٭٭
اجس بانڈی پورہ کشمیر
موبائل نمبر؛9906526432
[email protected]