تاریخ انسانی کے ہر دور میں ایسے نفوس کا جنم ہوا ہے جنہوں نے اپنے وقت کے مشکلات حالات کا مقابلہ کر کے ایسے کارہائے نمایاں انجام دئے جو رہتی دنیا تک یاد رکھنے کے لائق ہیں۔ چنانچہ اس سلسلے میں ہر صدی کے اوائل اور اواخر میں ایسے لوگوں نے اس دنیائے فانی میں ایسے ایسے کام کئے کہ آج بھی ان کا نام بڑے ہی آن بان اوراحترام سے لیا جارہا ہے۔ علم کے سمندر میں علماء کی ایک بڑی کھیپ جو ہر صدی میں جنم لیتی ہے لیکن ان علماء وفضلاء کے درمیان میں چند ایسے نمونے اللہ تبارک وتعالیٰ کی طرف سے بھیجے جاتے ہیں جن کے ہاتھوں سے اس قدر ذہنی ،فکری اور اصلاحی کام ہوتے ہیں کہ دوست تو دوست دشمن بھی نہ چاہتے ہوئے ان کے مدح خواں بن جاتے ہیں۔ یہ ایک ایسی چلتی راہ ہے جس پر ہر آئے روز نئے نئے مسافر اپنا رخت سفر باندھ لیتے ہیں لیکن اس سفرِ خاردار میں ثابت قدمی سے سرشار چند ہی لوگ دکھائی دیتے ہیں۔ علم وفہم کے بڑے بڑے شہسوار اگرچہ دور حاضر میں موجود ہیں تاہم علم وفہم کے ساتھ ساتھ عمل کے میدان کے شہسوار اور اپنے نصب العین پر ثابت قدمی کے جاں نثاروں کی تعداد کم ہی قرار ہوتی ہیں۔
ریاست جموں وکشمیر جس کی آبادی کا ایک بہت بڑا حصہ مسلمانوں پر مشتمل ہے، اور اس آبادی میں مختلف قسم کے طبقات و گروہ اپنی اپنی حیثیت کے مطابق یہاں کام کرتے آئے ہیں، جنہیں اپنی کارکردگی کے نتیجے میں نام بھی حاصل ہوا تاہم چند ایک ’’بے نام نفوس‘‘ بھی یہاں جنم لے چکے ہیں جنہوں نے دین اسلام کی سربلندی اور اس کی ترویج واشاعت کے لیے مختلف قسم کی قربانیاں دے کر، ثابت قدمی دکھا کر کام کیا ہے۔ ان ناموں کی ایک فہرست اگر تیار کی جائے تو وہ بھی چند نہیں بلکہ سینکڑوں کی تعداد میں جمع ہو جائے گی۔ جن کی ایک ایک کر کے حیات وخدمات اور تعارف بیان کرنا فی الوقت مشکل ہے تاہم ایک سرسری جائزہ اور مشاہدہ اس بات کے لیے ابھارتا ہے کہ کم وبیش انہیں جب کہ وہ اب اس دنیائے فانی میں موجود نہیں ہیں، کا پوری قوم کو ایک تعارف پیش کیا جائے تاکہ لوگ اس بات سے مستفید ہو جائیں کہ یہ زمین بنجر نہیں بلکہ زرخیز زمین ہے تاہم آج اس زرخیر زمین کو لالہ زار کر دیا گیا ہے اور جس کی وجہ سے ’’انمول موتی ‘‘ یا ’’پرانے چراغ‘‘ مزید سے مزید تر بے نام ہوتے جارہے ہیں۔ریاست جموں وکشمیر میں ان بے نام مخلصین اور ثابت قدمی کی پیکر شخصیات میں سے ایک شخصیت غلام محمد بابا المعروف ’’خرقہ صاحب‘‘ مر حوم ہٰن۔ موصوف کا تعلق چرار شریف میں شیخ نور الدین ولی ؒکی زیارت گاہ کے سجادہ نشین خاندان سے تھی۔ان کا آبائی پیشہ بھی اسی آستانے کے نذر ونیار سے وابستہ تھا۔ قدرتی بات ہے کہ اس کے اعتقادات بھی وہیں تھے جو ان کے آباواجداد سے منسلک تھے۔ ان کی پیدائش ۱۹؍ اپریل ۱۹۴۰ء کو ہوئی۔ بچپن میں ہی ان کو اپنے والد صاحب مرحوم عبد العزیز بابا کے سایہ سے محروم ہونا پڑا۔ والدہ صاحبہ نے ان کی تعلیم وتربیت پر پورا دھیان دیا۔ وہ بہت ہی دین پسند، صوم وصلوٰۃ کی پابند، زیرک اور نیک و پارسا خاتوں تھیں۔ یہی وجہ ہے کہ بچپن سے خرقہ صاحب کی عادات دوسرے بچوںسے الگ تھے۔ ماںکی بدولت ہی وہ بچپن سے ہی نمازوں کے علاوہ فرض روزوں کے پابند رہا کرتے تھے بلکہ بقول خرقہ صاحب کے ہی کہ وہ بچپن سے ہی ماں کے ساتھ نفل روزے بھی رکھتا تھا۔ سکول میں سارے استاد صاحبان ان سے بہت پیار کرتے تھے، خرقہ صاحب ابھی دسویں میں ہی زیر تعلیم تھے کہ اچانک ماں کا سایہ رحمت ان کے سر سے اٹھ گیا۔
خرقہ صاحب نے میٹرک پاس کر کے محکمہ اینمل ہسبنڈری میں ملازمت اختیار کی ،پہلی پوسٹنگ بھدرواہ میں ہوئی۔ وہاں کئی ماہ گزارے، اس مختصر وقفے کے دوران وہ وہاں ایک دکاندار سے ’’اسلامی ناولیں‘‘ کرایہ پر پڑھنے کو لاتے تھے۔ ان ایام میں انہوںنے کافی تعداد میں ان اسلامی ناولوں کا مطالعہ کیا، جن کی وجہ سے اسلامی تہذیب اور تاریخ میں کافی مہارت حاصل ہو گئی۔ بھدرواہ سے تبدیل ہو کر وادیٔ کشمیر میں آئے اور یہاں بیروہ میںویٹنری کے نزدیک پرائیوٹ ’’مظہر الحق ہائی اسکول ‘‘ چل رہا تھا جس کو اس زمانہ کا جامع مسجد کے میر واعظ مرحوم علی شاہ صاحب چلا رہے تھے۔ اس ہائی اسکول میں اسلامیات پر کافی تعداد میں لٹریچر میسر تھا۔ بیروہ میں بھی انہوں نے صرف 6؍ماہ اپنی ڈیوٹی انجام دی۔ ان مہینوں میں انہوںنے وہاں ’’علامہ شبلی نعمانیؒ ‘‘کی ’’سیرت النبیﷺ ‘‘کی پہلی دو جلدیں اور ’’الفاروق ‘‘کا گہرائی سے مطالعہ کیا،اقبالیات پر ’’شرح بانگ درا اور بال جبریل ‘‘کو پڑھا اور اسی دوران مطالعۂ تفسیر قرآن کے سلسلہ میںبیان سبحانی کا بھی مطالعہ کیا۔
۱۹۶۱ء کے اوائل میں چرار شریف تبدیل ہونے کے بعد انہوں نے تاریخ اسلامی کا مطالعہ برابر جاری رکھا۔ ستمبر ۱۹۶۱ء میں ان کی شادی خانہ آبادی ہوئی۔ مرحوم نے اپنی اہلیہ محترمہ کو قرآن پڑھایا، نماز سکھائی کہ عمر بھر وہ قرآن پڑھنے والی اور پابندی کے ساتھ نمازی بن گئیں۔ یہ فضل الٰہی ہی تھا کہ آگے چل کر اس پاک طینت خاتون نے مرحوم خرقہ صاحب کا ایسا ساتھ نبھایا کہ سن کر کوئی بھی شخص عش عش کر ے ۔ چرار شریف میں ہائر سیکنڈری اسکول چند سال پہلے قائم ہو چکا تھا۔ ریاست کے ایک نامور داعیٔ دین اور جماعت اسلامی جموں و کشمیر کے بانی ارکان میں سے ایک مرحوم قاری سیف الدین صاحب نے وہاں چند ماہ کام کیا تھا اور وہ بستی میں ’’مودودی‘‘کے نام سے مشہور ہو گئے ۔ ان کے بعد انہی کے خاندان سے تعلق رکھنے والے محمد شفیع قاری وہاں تبدیل ہو کر آئے اور ان کے ساتھ غلام محمد صفی صاحب کے بھائی مرحوم عبد العزیز بھی تبدیل ہو کر آئے تھے۔ دونوں حضرات نے مل کر چند نوجوانوں کو ساتھ ملا کر چرار شریف میں ایک لائبریری قائم کی اور اس میں زیادہ تر لٹریچر مولانا سید مودودیؒ کا رکھا گیا ۔جب مطالعہ کا حلقہ بڑھتا گیا تو چرار شریف میں مشہور ہوا کہ یہاں’’مودودی ازم‘‘ کا پرچار کیاجا رہا ہے۔ مخالفت نے زور پکڑا مگر پھر بھی دست درازی سے اجتناب کیا جارہا تھا۔ اسی زمانہ میں چرار شریف زیارت گاہ کی تعمیر زیر نگرانی بخشی غلام محمد ہو رہی تھی جس کے لیے وقتاً فوقتاً وہ خود آکر کام کا جائزہ لیا کرتے تھے۔ ایک دن وہ یہاں آیا تو لوگوں نے اس سے شکایت کی اسکول کے دو اساتذہ یہاں پر نوجوانوں میں ’’بداعتقادیت‘‘ پھیلا رہے ہیں۔ بخشی غلام محمد نے ان نوجوانوں کو حاضر خدمت کرایا اور اپنے سامنے ان کی مار پیٹ کروائی ،وہاں پر قائم کی گئی اسلامی لائبریری کو تتر بتر کروایا اوران دونوں اساتذہ کو تبدیل کر دیا گیا۔چنانچہ اُس وقت خرقہ صاحب ڈیوٹی کے سلسلے میں چرار شریف سے باہر تھے،بعد میں جب انہوں نے یہ حال احوال سنا تو انہوں نے بھی اس پر دل ہی دل خوشی محسوس کی کیونکہ مرحوم خرقہ صاحب کوبچپن اور دورِ شباب کی ابتداء میں جماعت اسلامی کے نام سے ہی نفرت تھی ۔ دورانِ میٹرک ان کا گزراکثر وبیش تر نواب بازار سری نگر جہاں پر جماعت اسلامی جموں وکشمیر کا پہلا مرکزی دفتر اور درسگاہ قائم کیا گیا تھا ،سے ہوتا تھا، انہوں نے وہاں پر ہی’’ مودودی ازم‘‘ کا لفظ سنا تھا۔اس کے بعد جماعت کے ساتھ ان کی وابستگی کا آغاز کیسے ہوا اس سلسلے میں وہ اپنے ایک تحریری انٹرویو میں خود ہی فرماتے ہیں :
’’ یہ مارچ۱۹۶۲ء کا مہینہ تھا۔راقم (خرقہ صاحب)چرار شریف میں ہی ڈیوٹی دے رہا تھا۔یہاںکے ہائر سکینڈری اسکول میںایک عربی استاد تھا جس کا نام محمد حسین چستی (مرحوم)تھا جو کہ جامع مسجد سرینگر کا رہنے والا تھا اور ان کا یہاں میرے ایک دوست کے ہاں ڈیرہ تھا۔انہیں اس کے ساتھ تعلقات قائم ہو گئے تھے۔ایک دن میں نے پوچھا:محترم کیا آپ کو کسی ایسی تفسیر قرآن کے بارے میںمعلوم ہے جو آدمی کو مطمئن کرسکتا ہے اور اس کے دل سے اُبھرنے والے سوالات کا جواب معلوم ہو سکتا ہے۔مثلاََاگر اللہ’’رب العالمین‘‘ ہے تو اس کا مدعا ومطلب کیا ہے۔اس نے کہا:ہاں ہے،مگرپھر توقف کیا۔اس خاموشی نے میری آرزو کو مزید بڑھایا۔ میں نے اس سے کہا بتایئے نا کہ کونسی تفسیرہے اورکہاں ملے گی؟جب اس نے میری تڑپ کو محسوس کیاتو ’’تفہیم القرآن ‘‘ کا ذکر کیااور کہا کہ یہ تفسیر نواب بازار سرینگر میں جماعت ِاسلامی کے مکتبہ سے ملے گا۔یہ نام سن کرمیری نفرت پھر اُبھر کر سامنے آئی مگر اللہ کو میرے حق میں یہی منظور تھاکہ حق پر قائم ہوجائوں۔میری جستجو میں اضافہ ہوا۔دوسرے ہی دن ’’تفہیم القرآن‘‘ خرید کر لایااور اس کا مطالعہ شروع کیا۔جوں جوں میں مطالعہ کرتا گیا میرے انگ انگ میںحرارت بڑھتی گئی،اکیلا تھا،کوئی نہ تھا جس کو درد کا شریک بنا دیتا،میں پاگل سا ہوگیا تھا،دل میں آگ سی لگ گئی جو روز بروز بڑھتی ہی جارہی تھی، میںاپنے ہی ماحول میں اجنبی لگنے لگا۔اپنی اہلیہ کو بھی نہ بتا سکتا تھا کیونکہ وہ قرآن شریف راقم سے سیکھ ہی رہی تھی۔مجھ سے عمر میںپانچ سال چھوٹی بھی تھی یعنی اٹھارہ سال کی تھی۔حقیقت یہ ہے کہ میں کہہ نہیں سکتا ہوںکہ میرا کیا حال ہورہا تھا۔ دن گزرتے گئے اب میں’’تفہیم القرآن‘‘ کے مطالعہ میں غرق ہو کر رہ گیا تھا۔جولائی ۶۲ء میں اپنے بھائی سے بھی الگ ہوگیاکیونکہ اب آبائی معاش بھی غلط لگا ۔ یہ سب کچھ بھائی صاحب کے لئے چھوڑ دیا۔ میںصرف ایک درجن برتن اور ایک بسترہ ساتھ لے کر گھر سے نکل پڑااور ’’ماسی‘‘ کے ہاں ایک کمرہ میںہم میاں بیوی رہنے لگے۔ یہاں آکر اب بیوی کو نماز فجر کے بعد ایک گھنٹہ تک’’ تفہیم القرآن‘‘ سے بنیادی باتیں سکھاتا رہا۔
’’تفہیم القرآن‘‘ کے مطالعہ کے ساتھ ساتھ نواب بازار سرینگر کے مکتبہ ٔ جماعت سے مولانا سیدمودودیؒ کی کتابیں خرید کر بھی لایا کر تا تھا اوراور ان کا بھی مطالعہ ساتھ ساتھ جاری رہا۔ میرے بھائی سے الگ ہونے کے بعد میں نے آہستہ آہستہ اپنے دوستوں سے رابطہ بڑھایا اور ان کو اپنے پاس لا کر کسی نہ کسی کتاب سے کچھ نہ کچھ پڑھا کر سناتا تھا اور اس طرح بعد میں ان کو چھوٹی چھوٹی کتابیں پڑھنے کو دیتا تھا۔ خاص کر خطبات اول، دوم، سوم، سلامتی کا راستہ، شہادت حق وغیرہ۔ آخر کار دوچار ساتھی مل گئے ، ان کے ڈیرہ والے کا لڑکا بھی میرا دوست تھا، اور خطبات حصہ اول بھی پڑھا تھا۔ اُس نے قاری سیف الدین صاحب سے کہا کہ یہاں میرا ایک دوست غلام محمد باباکتابیں پڑھنے کو دے دیا کرتا ہے، توقاری صاحب نے مجھے بلاوا بھیج دیا۔ میں گیا اور انہوںنے جب میرے بارے میں سب کچھ سنا، تو وہ باغ باغ ہو گئے اور میری ہمت افزائی کی۔ بعد میں مرحوم تین چار مہینے کے بعد یہاں تشریف لائے اور مجھے ڈیرہ پر بلا لیتے اور اپنی تربیت سے سنوارتے جاتے تھے۔ اللہ پاک مرحوم کو اجر عظیم سے نوازے۔ ‘‘
اب جماعت اسلامی سے خرقہ صاحب کا دلی لگائو پیدا ہو گیا تھا۔ ۱۹۶۴ء کے اگست مہینے میں ضلع سرینگر کا سالانہ اجتماع گائو کدل میںایک مکان کے ہال میں منعقد کیا گیا ۔ غلام محمد خرقہ جماعت کے اس اجتماع میں شریک ہوا۔ اس اجتماع میں ضلعی نظم کے ساتھ ساتھ مرکزی نظم کے سبھی معززین شامل تھے۔ ان کی نظریں بقول ان کے جب اس کے وقت کے امیر جماعت مولانا سعد الدینؒ کے نورانی چہرہ پر پڑ یں تو وہ دیکھتا ہی رہ گیا اور بار بار دیکھتا رہا، اور جب انہوںنے مرحوم احرار صاحبؒ کو دیکھا تو اس مردِ قلندر کا وہ چہرہ ان کی نظروں میںگھومنے لگا جب کہ بھدرواہ میں انہوںنے ایک جمعہ کو تقریر کرتے انہیں دیکھا تھاجو کہ شیر کی طرح گرج رہے تھے، جب کہ دوسرے ہی دن ان کو بھدرواہ سے نکال دیا گیا کیونکہ مشہور ہو گیا تھا کہ یہ آدمی ایک ناسور ہے۔ خرقہ صاحب نے بھی جب اس کے بارے میں سنا تو ان کے دل میں بھی اس سے نفرت پیدا ہو گئی تھی۔ اسی دوران مرحوم کو پندرہ دنوں کے لیے ڈوڈہ بھیج دیا گیا ،جس دن وہ ڈوڈہ روانہ ہوا تھا وہ جمعہ کے ساتھ ساتھ عاشورہ کا دن تھا ،بعد نماز جمعہ وہاں جامع مسجد میں حسینی مجلس کا انعقاد ہوا۔ چند ایک چھوٹی موٹی تقریروں کے بعد یہ آدمی ڈائس پر آیاجس کو میں بھدرواہ میں دیکھا تھا ، جوں ہی وہ خطاب کرنے لگا تو خرقہ صاحب نفرت کی جلن میں وہاں سے چل پڑے، دوسرے دن انہوں نے ایک د وکاندار سے اس کے بارے میں پوچھاتو اس نے بتایا کہ مودودیؒ جماعت کا آدمی ہے۔ کشمیر سے آیا ہوا ہے۔ یہاں کئی مہینوں سے قرانی درسگاہ چلا رہاہے۔ بہت ہی بڑا مقرر ہے۔ اس کے ساتھ یہاں کے بہت سارے نوجوان ملے ہوئے ہیں۔ آج نواب بازار کی مجلس نور میں وہ فقیر خدا مست مرحوم غلام محمد خرقہ کی نگاہوں کے سامنے تھا ،اور وہ اپنے سابقہ سوچ اور خیال پر شرمندہ ہو رہے تھے۔
نواب بازار کے اس اجتماع میں جب خرقہ صاحب نے چرار شریف کی رپورٹ پڑھ کر سنائی تو سب چھوٹے بڑے رفیق خوشی سے جھوم اٹھے کہ چرار شریف میں بھی جماعت کے کام کا آغاز ہو گیا ہے۔ دو دنوں تک اجتماع تھا۔ اجتماع کیا تھا؟ اسلامی کردار اور تہذیب کا جیتا جاگتا نمونہ تھا۔ سب کے سب بلکہ ایک سے بڑھ کر ایک دوسرے کے غم گسار، ہمدرد، مددگار، اور اپنے پر دوسروں کو ترجیح دینے والے تھے، لگتا تھا کہ اسلامی تہذیب کی جیتی جاگتی تصویر تھی۔ سید علی گیلانی صاحب کو اس زمانہ میں کشمیر کا چھوٹا مودودی کہا جاتا تھا۔ انہوںنے گائو کدل کی سڑک کنارے خطاب عام فرمایا۔ لوگ وہاں سے گزرتے گزرتے رُک جاتے اور خطاب سن کر آگے بڑھتے تھے۔ چنانچہ خطاب انہوں نے اردو میں کیا۔ ۱۹۳۱ سے۱۹۶۴ء تک تحریک حریت کشمیر کو تفصیل سے بیان کیا۔
(بقیہ سنیچر کے شمارے میںملاحظہ فرمائیں)