اس لئے ہے زباں پر نام اُس کا
ذکر ہوتا ہے صبح و شام اُس کا
جب ملے وہ چراتا ہے نظریں
یہ ہے جذبۂ انتقام اُس کا
ہر کرم اُس کا دوسروں کے لئے
جو ستم بھی ہے میرے نام اُس کا
کوئی فنکار بھی ہو دُنیا میں
زندہ رکھتا ہے اُس کو کام اُس کا
دل بڑے زور سے دھڑکتا ہے
جب کبھی ملتا ہے سلام اُس کا
پھیل جاتے ہیں یادوں کے سائے
جب خیال آئے وقتِ شام اُس کا
جس کو فردا کی فکر رہتی ہے
ذہن ہوتا ہے تیز گام اُس کا
پیش آتا ہے جو محبت سے
میرے دل میں ہے احترام اُس کا
عرشؔ کو جانتے ہیں مدت سے
پڑھتے رہتے ہیں ہم کلام اُس کا
عرش صہبائیؔ
ریشم گھر کالونی جموں،موبائل نمبر؛8493876473
حوصلہ تھا، سفر نہیں تھا
مرے مقدر میں گھر نہیں تھا
غموں کی روداد اور بھی تھی
یہ قصئہ مختصر نہیں تھا
اندھیری راتوں میں گھر سے نکلے
تمہیں کسی کا بھی ڈر نہیں تھا
یہ ایک جگنو کی روشنی تھی
یہاں تو کوئی قمر نہیں تھا
سب آشیانے اُجڑ چکے تھے
کہیں پرندوں کاپَر نہیں تھا
تجھے یقینا بچا ہی لیتا
میری دعا میں اثر نہیں تھا
جو رات شعلوں کی ذد میں آیا
کہیں وہ میرا تو گھر نہیں تھا
جہاں سے جاویدؔ مڑ کے دیکھا
کوئی تاحدِ نظر نہیں تھا
سردار جاوید خان
مہنڈر، پونچھ
رابطہ؛ 9697440404
مسافتوں سے میں تھک گیا ہوں
یہاں وہاں دوُر تک گیا ہوں
میں نخلِِ آدم کا اک ثمر ہوں
ہوائے ہستی سے پک گیا ہوں
حسین صورت کا تیری پرَتَو
پڑا تو دل سا دھڑک گیا ہوں
بہت اُڑا کر دھواں غزل کا
میں نام بن کر چمک گیا ہوں
تو نگری تھی نہ میکشی کی
تو اَشک پی کر بہک گیا ہوں
کہیں جو فاروقؔ زخم چیخے
میں لے کے تازہ نمک گیا ہوں
فاروق احمد فاروقؔ
اقبال کالونی۔ آنچی ڈورہ اننت ناگ
9906482111
اُس میں کیا کیا عیّاری مکّاری ہے
بات بات میں دکھلاتا فنکاری ہے
ڈھلکا ہے جو اک مظلوم کی آنکھوں سے
اک قطرہ سو دریائوں پر بھاری ہے
زندہ ہے شیطان ابھی تک اندر کا
خود سے میری جنگ ابھی تک جاری ہے
اُس کے کھیل تماشے فہم سے بالا ہیں
وہ جو اوپر بیٹھا ایک مداری ہے
آوازوں کی بستی میں خاموشی پر
قدم قدم پر کتنی پہرے داری ہے
بھڑک اُٹھے گی جب بھی سورج آئے گا
ظلمت کی اِس راکھ میں اک چنگاری ہے
میں نے پوچھا توڑ رہے ہو رشتہ کیوں
ہنس کر بولا یہ تو دنیا داری ہے
کون بدلتا ہے بے کار ہی لہجہ یوں
کچھ تو ہوگا جس کی پردہ داری ہے
دیپک آرسیؔ
203/A، جانی پور کالونی جموں-180007
رابطہ؛ 9858667006
وہ مجھ سے دور ہوتا جا رہا ہے
بہت مغرور ہوتا جا رہا ہے
بناپتھر مرا دل ایک عرصہ
مگر اب چُور ہوتا جا رہا ہے
ہوا کرتا تھا جو محفل کی زینت
وہ کیوں مستور ہوتا جا رہا ہے
کہاں پر پائوں گا وہ شوخیاں میں
یہ دل مجبور ہوتا جا رہا ہے
تو آہیں بھر رہا ہے، اور کوئی
بہت مسرور ہوتا جا رہا ہے
تمہیں خوشحالؔ دیکھے کس طرح سے
وہ خود معذور ہوتا جارہا ہے
میر خوشحالؔ احمد
دلدار کرناہ
موبائل نمبر؛ 9622772188
پلانے کا نہیں مے ساقیٔ بے گانہ رو ہم کو
نظر آتے ہیں منہ پھیرے ہوئے جام و سبُو ہم کو
ہے فطرت اُن کی عاشق کی اَنا پر چوٹ کرنے کی
بہت مہنگا پڑے گا یوں بچانا آبرو ہم کو
دِلِ دیوانہ خُونے ہم کو مہلت دی نہ کچھ اِس کی
ذرا اہلِ فراست سے تھی کرنا گفتگو ہم کو
نظرآتی ہے اِس میں سے بھی رنگین صورتِ جاناں
اِسی خاطر ہے پیارا یار کا خوش رنگ مُو ہم کو
نظرآتے ہیں ہم کو پھول اب راہوں کے پتھر بھی
خدا نے کردیا یوں آشنائے رنگ وبُو ہم کو
ہماری چشمِ بینا پر یہی احسان کردے تُو
تخیل توکرا سکتا ہے اُن کے روبرو ہم کو
کھڑی ہے تشنگی اپنی ترے در پر گدا بن کر
خدا را بخش دے پھر سے وہ شیریں آب جُو ہم کو
عبث ہی کی کسی کی آرزو بھی ہم نے اے پنچھیؔ
کبھی کب چین لینے دے کسی کی آرزو ہم کو
سردار پنچھیؔ
چیٹھی نگر، مالیر کوٹلہ روڑ، کھنہ۔ 141401، پنجاب
موبائل نمبر؛09417091668