دھڑکنیں قید ہیں زندان کی دیوار کے بیچ
شور کیسا ہے یہ زنجیر کی جھنکار کے بیچ
آئینہ دیکھ کے آ جائیں گے سب یاد تُمہیں
میرے نالے نہیں چھپتے کسی اخبار کے بیچ
خس وخاشاک سے آنچل کو بچا لو جاناں
خاک ہی خاک ہے اب تک دلِ مسمار کے بیچ
اے مسیحا تری آمد پہ ہی دم توڑ گیا
کوئی حسرت ہی نہیں تھی ترے بیمار کے بیچ
تُم تصّور میں بھی آتے ہو کئی حِصوں میں
کیوں اُترتے نہیں یکسر مرے اشعار کے بیچ
عین ممکن ہے کہ مل جائیں نصیبوں سے تمہیں
ہم وہ یوسف نہیں آ جائیں جو بازار کے بیچ
میں نے بھی رکھ دیا جاویدؔ جلا کر دل کو
حوصلہ دیکھئے کتنا ہے مرے یار کے بیچ
سردارجاویدخان
مینڈھر، پونچھ
موبائل نمبر؛ 9419175198
اک عکس نے آئینےمیں اظہار کیا ہے
جذبوں نے ترے تجھ کو گرفتار کیا ہے
ہے حسُن اُسکا جوشِ جنوں سے ہی نمایاں
روح سے تمہاری، جسم نے جو پیار کیا ہے
فطرت کے رنگ جم کے جھلکتے تھے ہرطرف
تم نے ہی نہیں اُس پہ اعتبارکیا ہے
اخلاص و مروّت جو گفتگو میںآئے ہیں
انکی بس اک نگاہ نے سرشار کیا ہے
منزل سے یاسؔ دور تھی بے رنگ و بے صدا
میرے خدا نے مجھ کو ہمکنار کیا ہے
یاسمینہ اقبال
گھر با ر نہیں میر ا دلدار کو آنے دو
اس شہرِ خزاں میں تم گلزار کو آنے دو
مقصود نہیںلوگوہم نام بنا لیں گے
تب آہ و فغاں ہو گی ،اغیار کو آنے دو
اس بزمِ سخنداں میں مل جائے سکوں کیسے
پروا ہے جسے میری اُس یار کوآنے دو
اک بات کہوں تم سے دل کا یہ ارادہ ہے
اک یار بنا لیں گے دلدار کو آنے دو
لوگوں کی عداوت سے دل مر سا گیا لیکن
اک سانس یہ کہتی ہے اظہار کو آنے دو
اک شمع جلائونگا اس شہرِ خموشاں میں
اللہ عطا کر دے ایثار کو آنے دو
ہے بات نہیں جھوٹی یاورؔ کا یہ وعدہ ہے
غم سارے مٹادونگا غمخوار کو آنے دو
یاورؔ حبیب ڈار
بڈکورٹ، ہندوارہ
شعبۂ اردو کے۔یو سرینگر
موبائل نمبر؛9622497974
چمکتے ضوریز گال سا ہے
یہ چاند تیرے جمال سا ہے
جواب ہوں آ گلے لگا لوں
تو اک مجسم سوال سا ہے
کہاں سے لاؤں جواب اس کا
وہ تو عدیم المثال سا ہے
تمہارے خوابِ حسیں کے صدقے
فراق اب کے وصال سا ہے
اٹھا لیا ہے جو اس نے بڑھ کے
ہمارا گرنا اُچھال سا ہے
ہے لمسِ انگشت کا کرشمہ
اُسے جو یہ اشتعال سا ہے
ہے جب سے اس کے بدن کو دیکھا
مرے لہو میں اُبال سا ہے
نہ جانے آیا ہے وہ کہاں سے
کہ اُس کا چہرہ نڈھال سا ہے
جب ان سے پہلی نظر ملی تھی
وہ لمحہ بس لازوال سا ہے
حضور کیا ناگوار گزرا
یہ رخ پہ کیوں اشتعال سا ہے
ذکی طارق بارہ بنکوی
سعادتگنج۔بارہ بنکی،یوپی۔
کون پوچھے ہے بھلا کِس کو خبر جاتی ہے
آہ جب تھک کے شکستہ ہو تو مر جاتی ہے
سحر کے وقت پِروتا ہوں اُمیدوں کی لڑی
شام ہوتے ہی وہ ہر روز بکھر جاتی ہے
زندگی، خواب میں دیکھا کہ، سفر پر تھی رواں
تیرے کوچے میں پہنچتے ہی ٹھہر جاتی ہے
لوگ کوشاں ہیں کہ برباد ہو تقدیر مری
ہائے قسمت کہ یہ ہر روز سنور جاتی ہے
جانتا ہوں کہ تیرے رُخ پہ ٹھہرے گی نہیں
بے حِسی میں ہی مگر اُٹھ کے نظر جاتی ہے
وسعتِ قلب ذرا دیکھ مِری اور یہ بتا
کون سی تنگ گلی تیرے نگر جاتی ہے
تابناکی ہے ترے دیدئہ تر میں بھی بہت
اور مضطرؔ تری صورت بھی نکھر جاتی ہے
اعجاز الحق، مضطرؔ
قصبہ کشتواڑ
موبائل نمبر؛ 9419121571
جہاں پہ تھا وہیں پر ہے مُسلسل اک جگہ ساکتِ
کبھی پربت کو محَور سے ہٹتے تم نے دیکھا ہے؟
پکارو ہر دفعہ رو کر نہ لوٹا ہے نہ لوٹے گا
گیا جو چھوڑ کر دنیا پلٹتے تم نے دیکھا ہے؟
تیرے گھر میں چراغاں ہے حنائی ہاتھ ہیں تیرے
میری چھوٹی سی دنیا کو لٹُتے تم نے دیکھا ہے؟
حسینی خون کو تم نے چھُپانے کی سعی کی ہے
شفق پر آکے ٹھہرا ہے کیا مٹتے تم نے دیکھا ہے؟
پروں کو وہ پٹختے ہیں پرندے خون روتے ہیں
شجر آنگن کا تنہا سا کیا کٹتے تم نے دیکھا ہے؟
کہے یہ باپ اب بچے الگ رہنے لگے ہیں سب
جگر کو میرے ٹکڑوں میں کیا بٹتے تم نے دیکھا ہے؟
کیوں صدیوں بعد ہونٹوں پر سجایا پھر تبسم ہے
فلکؔ کیا غم کے بادل کو چھٹتے تم نے دیکھا ہے؟
فلک ریاض
حسینی کالونی چھتر گام کشمیر
موبائل نمبر؛6005513109
دل مضطر اُداس رہتا ہے
تیرا غم جب سے پاس رہتا ہے
گرچہ تجھ سے جدا ہوا ہوں
پھر بھی کیوں تو ہی پاس رہتا ہے
وہ تو دیوانہ ہے تیرا جاناں
ہر نظر میں جو خاص رہتا ہے
تیرے جانے سے جاں ہوا یوں ہے
شہر سارا اُداس رہتا ہے
چھوڑ تو سب گئے مگر خاناں
اک تیرا غم ہے پاس رہتا ہے
اعجاز طالب
حول سرینگر
موبائل نمبر؛ 9906688498