داستانِ غم سنانے لگ گیا
پھر کوئی مُجھکو رُلانے لگ گیا
میں نے یونہی تشنگی کی بات کی
وہ مُجھے دریا دِکھانے لگ گیا
خودبخود ہی جل اُٹھا بُجھتا دِیا
پھر مرے گھر کو جلانے لگ گیا
تُم اسے قسمت کہو کہ معجزہ
ڈُوب کر بھی میں ٹھکانے لگ گیا
کٹ رہی تھی ڈور میری سانس کی
اور وہ احساں جتانے لگ گیا
آزمائش سے ابھی نکلا ہوں میں
کون مُجھکو آزمانے لگ گیا
سردارجاویدخان
مینڈھر پونچھ،موبائل نمبر؛9419175198
مرا یہ سایا کہاں گیا کر چراغ روشن
ہو گھر کے باہر ہو گھر کے اندر چراغ روشن
میں تب کے مانوں ترے وظیفے اے میرے مرشد
کہ جب تو کر لے تہہِ سمندر چراغ روشن
بڑا عجب ہے کہ روز کمرے میں اب نمی ہے
یہ کون کرتا ہے مثلِ پیکر چراغ روشن
کوئی تو ہے اب جو مجھ کو چُپکے سے دیکھتا ہے
سو میرے گھر پر ہے رہتا اکثر چراغ روشن
مری لحد سے ذرا سی مٹی جلا کے سن لے
تو روز کرنا مرے مجاور چراغ روشن
یہ بات ہے اور کہ مجھ کو مارا ہے تیرگی نے
مگر ہمیشہ رہے گا در پر چراغ روشن
یہ کیسا عالم ہوا یہاں اب کہ اس کے آنے
پہ وقتِ رقصاں ہوا قلندر، چراغ روشن
مرے ستائے ہوئے دھویں کی دعائیں لے لو
تو نے کیا ہے مجھے بُجھا کر چراغ روشن
پھر آج آنکھوں سے ان کی یادیں بیاں ہوئی ہیں
نہ کر یہاں پہ ابھی ستمگر چراغ روشن
عقیل آسراؔ
بانڈی پورہ،موبائل نمبر؛7006354200
تو میری زندگی اگر نہیں آتی
موت بھی کیوں کر نہیں آتی
کیجئے نا نفرت ہی مجھ سے
محبت تجھے اگر نہیں آتی
وہ روز میرے شہر آتی ہے
پر کبھی میرے گھر نہیں آتی
جس کی تلاش زندگی بھر رہی
وہ نظر، نظر نہیں آتی
دوست تو آتے جاتے ہیں لیکن
وہاں سے کوئی خبر نہیں آتی
محبت میں تم کو جفاکاری
ظالم ! آتی ہے پر نہیں آتی
بات ہو تو آنکھوں سے ہو
سمجھ مجھ کو اگر مگر نہیں آتی
دشت وحشت میں آہ پر آہ مسلسل
مگر کوئی آہ بر نہیں آتی
بے خودی کے عالم میں کہیں سے
کوئی صدا رات بھر نہیں آتی
ہائے میرا یہ حال دیکھ کر کبھی
اس کی آنکھ بھر نہیں آتی
کیا عجب بات ہے شہریار!
چلتی زندگی نظر نہیں آتی
میر شہریار
سریگفوارہ، اننت ناگ
موبائل نمبر؛7780895105