دل کے ڈھول کی تھاپ سے اٹھتی ہر لے بڑی سُر یلی ہو
آ و ا ز و ں کے سنگم سے جب شب کی سا نس نشیلی ہو
مجھ میں پھیلی تنہا ئی پر ر نگ نہ کو ئی چڑھ پایا
میر ے من کی محفل کی، پھر کیا رنگت چمکیلی ہو
من نگری میں ڈ و ل ر ہی ہے آ شا ؤ ں کی کٹی پتنگ
دشت میں جیسے بھو لی بھٹکی بد لی کو ئی اکیلی ہو
رنگو ں کے ر نگین جنوں سے چل کر حد سے پار نکل
رنگ سوا ہو جا تا ہے جب د ر د کی د ھا ر نو کیلی ہو
طوفاں جس سے پانی مانگیں، بھنورکاوہ تیراک ہوں میں
ساتھ مجھے لے ڈ و بے کو ئی مو ج ا گر البیلی ہو
عقل کے اندھوں سے یوں ان کا خوابِ حقیقت دور رہا
جیسے بہر و ں کے جھر مٹ میں کو ئی صدا پھڑ کیلی ہو
ڈاکٹر حنیف ترین
نئی دہلی، موبائل نمبر۔8920859337
دعویٰ بھی ہے، دلیل ہے لیل و نہار میں
آیات کی تفصیل ہے برگ و بہار میں
اِک خُوئے بندگی بھی ہے انسان کا جوہر
کم یاب ہے لیکن ہے حّدِ اختیار میں
ایسے گُماں بھی ہیں کہ جو بھٹکائیں راہ سے
خوبی نِہاں جوہے وہ تابِ انتظار میں
معدوم ہوجائے خُشونت میں ہے عکسِ نُور
ملتا نہیں سکون، دل ہے اِنتشار میں
معیوب سمجھا جائےہے یک لحظ جھپٹنا
تسکینِ دل ملے، وہ ہے صبر و قرار میں
کرلیں دُعا دَوا بھی ہم ، بیمار ہے وطن
احباب سے گِلہ نہ کیوں کریں گے پیار میں
کلیوں کو مسلنا تو ہے اغیار کا شیوہ
گُل چیں ہیں باغباں نُما میرے شمار میں
یوں اَدھ کِھلے پُھولوں کو اب ضائع نہ ہونے دیں
دِھیرے سے چل اے تُند ہَوا اِس لالہ زار میں
غیروں کا بوجھ ہے ترے کاندھوں پہ آپڑا
اے ہم وطن! کب تک ہے رہنا بند حصار میں
سوچوں پہ ہے برفانی سِل مدّت سے آپڑی
کچھ دیر رہئے آتشِ برگِ چنار میں
یہ طوقِ سلاسِل کبھی تو پھینکنا ہے میرؔ
یونہی چلا بھی جائے کب تک مُہار میں
ڈاکٹر میر حسام الدّین
گاندربل کشمیر
جسے سنتا نہیں کوئی وہی آواز برسوں سے
مرے سینے میں ہر دھڑکن ہے نغمہ ساز برسوں سے
اُٹھائے جا رہاہوں اس حسیں کے ناز برسوں سے
بسی ہے قصرِ دل میں جو مرے ممتاز برسوں سے
نئے آزار دینا اور پھر اُس پر نمک پاشی
رہے ہیں حسن والوں کے یہی انداز برسوں سے
اچانک ہی نہیں اُڑنے چلا ہوں آسمانوں میں
اکٹھا کر رہا ہوں قوتِ پرواز برسوں سے
یہ گھولا خونِ ناحق کس نے وحدت ہے فضائو میں
فضا میں گونجتی ہے درد کی آواز برسوں سے
وحدتؔ جونپوری
جونپور، انڈیا،موبائل نمبر؛9839888047
زمانے میں کہاں اب تو مروت رہ گئی یارو
ہمارے پاس لے دے کر ندامت رہ گئی یارو
ہمارے پاس اب کچھ بھی نہیں تقسیم کے لائق
فقط تلخی بچی ہے اور عداوت رہ گئی یارو
خلوص ِ دل سے چاہا اس گُل شہکار کوہم نے
نہ جانے اس کے دل میں کیوں شقاوت رہ گئی یارو
رہ الفت میں ہم نے زندگی کا ساتھ چھوڑا تھا
تو کیوں اس شخص اور ہم میں تفاوت رہ گئی یارو
بہت نزدیک آکر زندگی نے رخ بدل ڈالا
کہ جب دو ہاتھ کی ہم میں مسافت رہ گئی یارو
ا عجاز طالب
رابطہ; حول جعفر بیگ ، سرینگر
فون نمبر؛9906688498