دنیا میں جس نے لایا ہے بے مثل انقلاب
ہم بد نصیب ہیں نہ پڑھی ہم نے وہ کتاب
کس دور میں نصیب ہوئی ہم کو زندگی
باہر بھی اضطراب ہے اندر بھی اضطراب
آئو کہ ساری رنجشوں پہ خاک ڈال دیں
اک دوسرے کو پیش کریں ہنس کے ہم گُلاب
وہ بھی تو دن تھے شہر میں رونق تھی چار سُو
اب یہ بھی دن ہیں زندگی ہر لمحہ اک غذاب
اب شہرِ نامراد میں رہنا ہے چند روز
اب تو جفا سے ہاتھ ذرا کھینچ لیں جناب
دنگے، فساد، قتل کی خبریں رُلائیں گی
اِمسال لیڈران ِ وطن کا ہے انتخاب
اپنے ہی قائیدین نے تاراج کر دیا
راجور ہو یا پونچھ ہو یا خطہء چناب
بسملؔ تمام عمر کٹی معصیت کے ساتھ
یہ سن رکھا تھا رحمتِ یزداں ہے بے حساب
خورشید بسملؔ
تھنہ منڈی، راجوری
موبائل نمبر؛9086395995
لوگ جو دل فگار ہوتے ہیں
شاعروں میں شمار ہوتے ہیں
جنگ میں احتیاط لازم ہے
پیٹھ پیچھے بھی وار ہوتے ہیں
روز اک خواب ٹوٹ جاتا ہے
روز ہم سوگوار ہوتے ہیں
لوگ سب یہاں تماشائی
اب کہاں غمگسار ہوتے ہیں
وقت جب مہرباں نہیں ہوتا
خاک پہ شہسوار ہوتے ہیں
آنچ جب بھی چمن پہ آتی ہے
پھول کیسے نثار ہوتے ہیں
کیا دکھائیں تجھے یہاں دامن
کس طرح تار تار ہوتے ہیں
جب بھی وہ گل بدن مہکتا ہے
راستے مشک بار ہوتے ہیں
جب کئیں بھی چراغ بجھتا ہے
ہم بہت اشکبار ہوتے ہیں
ہر کوئی ہے یہاں نشانے پر
دیکھنا کب شکار ہوتے ہیں
گھُٹ رہا ہے یہاں پے دم راحتؔ
ختم کب یہ حصار ہوتے ہیں
رئوف راحتؔ
روز لین ایچ ایم ٹی ، سرینگر،9149830023
ہواؤں سے تیرا پتہ پوچھتے ہیں
ابھی سے نہیں، ہم سدا پوچھے ہیں
وہ جس سے کہ تجھکو لگیں ہم بھی اچھے
دکھائیں وہ کیسے ،ادا پوچھتے ہیں
تیرے ہجر میں راکھ جل کر ہوئے ہیں
کہاں ہے تو بادِ صبا پوچھتے ہیں
تیری آرزو تھی غلطی ہماری
ملی ہے یہ کیسی سزا، پوچھتے ہیں
غمِ ہجر کا درد جس سے مٹا ہو
بتا دو ہے کوئی دوا، پوچھتے ہیں
ہوئے جارہے دل ہیں پتھر یہاں کیوں؟
شب و روز تجھ سے خدا پوچھتے ہیں
سحرؔ اب تلک وہ ہوئے کیوں نہ میرے
کریں اور کتنی دعا پوچھتے ہیں
ثمینہ سحرؔ مرزا
بڈھون …راجوری
غم ہی غم ہم کو آئے نظر آج تک
پڑھ نہ پائے خوشی کی خبر آج تک
آس منز ل کی آنکھوں میں پالے ہوئے
ہم تو ہو تے رہے دربدر آج تک
آنکھ کُھلتے حقیقت کُھلی خواب کی
ہم رہے جن سے تھے بے خبر آج تک
ہر طرف بس مکاں ہی مکاں تھے ملے
ڈھونڈتے ہی رہے اپنا گھر آج تک
پتھّروں کی جہاں روز بارش ہوئی
ہم بچا تے رہے اپنا سر آج تک
عمر یوں ہی کٹی جان پائے نہیں
دِل میں پلتا رہا کیسا ڈر آج تک
لاکھوں انجمؔ سدا نور کرتے رہے
مٹ نہ پایا اندھرا مگر آج تک
پیاسا انجم ؔ
ریشم گھر کالونی جمّوں،9419101315
آسماں پہ سُنا بادل ہے چلا اور کوئی
اب کے دریا بھی سمندر میں گرا اور کوئی
اب کے شبنم بھی نہیں برسی چمن پہ یارو
اب کے لائی ہے خبر بادِ صبا اور کوئی
جان رہزن سے چھڑائی تھی بمشکل لیکن
دوسرے موڑ پہ رہزن تھا کھڑا اور کوئی
کس قدر جاری ہے یہ سلسلہ رنج و غم کا
اِک بھرا بھی نہ تھا کہ زخم ملا اور کوئی
کام آیا نہ کوئی نسخہ طبیبو اب تک
زخم بھرنے کی مجھے دے دو دَوا اور کوئی
یہ طلب گار تیری دید کا مدت سے ہے
مقصَدِ زیست نہیں تیرے سوا اور کوئی
درد سہنے کی مجھے اب ہوگئی ہے عادت
پھر سے جبّارؔ کرو زخم ہرا اور کوئی
عبدالجباربٹ
۱۶۹،گوجرنگر،جموں۔موبائل نمبر؛9906185501
جینا ہے تو مرنا سیکھو
اتنا کام تو کرنا سیکھو
دِل کی بات اگر ہو کہنی
اشک آنکھوں میں بھرناسیکھو
لڑنا ہو قانون سے گر، تو
ساگر بیچ اُترنا سیکھو
یہ بھی کا کام ہے دنیا والو
مددکسی کی کرنا سیکھو
ٹھوکر کھاکے بگڑے ہوگر
اپنے آپ سنورناسیکھو
جان جو حق کی خاطر دے دیں
ان لوگوں سے ڈرناسیکھو
وعدے جو ہتاشؔ کئے ہیں
اِن پہ پورا اُترنا سیکھو
پیارے ہتاشؔؔ
دور درشن گیٹ لین جانی پورہ جموں
موبائل نمبر؛8493853607
یا الٰہی! دید وہ دل شاد کر
سب غم و آلام سے آزاد کر
بس کہ غافل یوں نہ میں ہرگز رہوں
یاد کا اپنی مجھے معتاد کر
دشمنانِ دینِ حق کو، اے خدا!
ہر جگہ ہر سمت میں برباد کر
بارِ غم سے ہوگیا ہے یہ نڈھال
سینۂ بسمل کو اب فولاد کر
مشکلیں تو خود کبھی ہوں گی نہ کم
آپ اپنے ہی کو تُوفرہادؔ کر
عالمِ شعر و ادب میں، اے خدا!
خواہشِؔ نادان کو استاد کر
چل ذرا، خواہش! غزل کے شہر میں
اک نیا طرزِ عمل ایجاد کر
خواہش کشمیری
شہرِ خاص، سرینگر
موبائل نمبر؛9469366682
تیری نظروں سے مجھے، ٹھیک ہے، گرنا پڑا
دُکھ یہ ہے پھر بھی مگر دیکھو یہاں جینا پڑا
درپہ تیرے آیا تھا تجھ کو مسیحا جان کر
بزم میں تیری مگر کیسے مجھے مرنا پڑا
کثرتِ غم میں بھی ہنستے رہنا سیکھا تھا بہت
خار گل بوٹوں پہ اُگ آئے تو پھر رونا پڑا
امتحانِ شیشۂ دل سنگ دل نے جب لیا
پتھرئوں کو ہی ہمیں پھر دیوتا کہنا پڑا
آگ یہ کیسی لگی ہے، ساقیا بُجھتی نہیں
آگ کو پانی کی مانند پی لیا، جلنا پڑا
واعظوں کی بھیڑ نے جب کردیا تنہا سعیدؔ
گرتے پڑتے کھردری راہوں پہ پھر چلنا پڑا
سعید احمد سیدؔ
احمد نگر سرینگر، کشمیر
موبائل نمبر؛8082405102