تُم بتاؤ تو سہی بات میں کیا رکھا ہے
ہوں نہ مُخلص تو ملاقات میں کیا رکھا ہے
میرا دل ہے کہ کھنچا آئے تُمہاری جانب
تُم دکھاؤ تو سہی ہات میں کیا رکھا ہے
حُسن تیرا جو نہ ظاہر ہو مرے لفظوں سے
ایسے بے معنی مُقطعات میں کیا رکھا ہے
لوگ ملتے ہیں یہاں اور بچھڑ جاتے ہیں
عُمر بھر ہجر کے صدمات میں کیا رکھا ہے
عاشقی جسم نہیں روح طلب ہوتی ہے
حُسن والے تری خیرات میں کیا رکھا ہے
خاک سمجھو گے زمانے کی حقیقت جاویدؔ
کوئی سمجھا ہے کہ ذرّات میں کیا رکھا ہے
سردارجاویدخان
مینڈھر پونچھ
موبائل نمبر؛ 9419175198
مرا دین و مذہب مری جاں ہے اُردو
مرا حاصلِ ماہ تاباں ہے اردو
ہر اک سمت ہو ہو ثنا خوانِ اردو
زمیں پر بھی یہ عرش ساماں ہے اردو
نہ ڈر ہے کسی کا نہ منت کسی کی
جو وقتِ ازل سے ہراساں ہے اردو
غزل ،مرثیہ اور قصیدہ ،رُباعی
چلی ہے انھیں سے خراماں ہے اردو
تب و تاب گردش میں رقصِ شرر ہے
دمِ پیر سے ہی فروزاں ہے اردو
ہوے آشنا تجھ سے ارباب ِ دانش
چلی پھر انھیں سے فراواں ہے اردو
جگرؔ، یاسؔ، فانیؔ و حسرتؔ کا نعرہ
ہمارا ملن مُونسِ جاں ہے اردو
میں خونِ جگر سے یہ لکھتا ہوں یاورؔ
اُجالا ہے اُردو ،شِتاباں ہے اردو
یاورؔ حبیب ڈار
بڈکوٹ ہندوارہ،موبائل نمبر؛6005929160
تاریکی اور نور کی کچھ تو یاری ہے
دن پر رات کا سایہ کیوں کر طاری ہے
جیت نہیں سکتا وہ دِل کی بازی بھی
جس نے درد کی ہر اِک بازی ہاری ہے
پڑھتے ہو فرمان مری بربادی کا
ہونٹوں پر مُسکان عجب سی جاری ہے
مالی جب سے سوداگر کا یار ہوا
پھولوں کی رنگت ہی کچھ بازاری ہے
مر مر کے جینا ہو یا جی کر مرنا
دو لفظوں کی بات مگر یہ ساری ہے
مضطرؔ داغ نہیں چہرے پر باقی اب
آئینے اور آنکھ کی ساجھے داری ہے
اعجاز الحق مضطر
قصبہ کشتواڑ
موبائل نمبر؛9419121571
چند لمحوںکا سفر ہے سوچ ذرا
زندگی مختصر ہے سوچ ذرا
کچھ تو سامان ساتھ اپنے رکھو
آخری کوں سا گھر ہے سوچ ذرا
کچھ تو تم سیکھ لو اسی سے سبق
تنہا ہر بحر و بر ہے سوچ ذرا
موت ہر فرد واسطے ہی سہی
ایک اچھی خبر ہے سوچ ذرا
کتنا بھی سجائو اپنا گھر تو یہاں
قید خانہ مگر ہے سوچ ذرا
کچھ تو آ زاد ؔ دیکھ کر یہ عمل
کیوں پریشاں نظر ہے سوچ ذرا
ایف آزاد دلنونی
دلنہ بارہمولہ،موبائل نمبر؛6005196878
بہاریں رہیں نا،مہکتے گلاب
بہت ہیں خزاں کو کھٹکتے گلاب
لیے ہاتھوں میں کوئی پاؤں تلے
رگڑتے مسلتے کچلتے گلاب
کسی دیوانے کا دِلِ چاک چاک
ہیں خوشبو کی صورت بھٹکتے گلاب
یہ بادِ صبا کو جگانے کی خُو
یوں چہرے سے شبنم جھٹکتے گلاب
کہیں ہے سمادھی کہیں سیج ہے
غموں میں خوشی میں برستے گلاب
سوکھے ہیں نشانی کتابوں میں بھی
کہیں گیسوؤں میں مچلتے گلاب
یہ اعزاز ہیں تو عقیدت کہیں
یہ مالا ،ہاروں میں لٹکتےگلاب
سبھی کو جہاں میں ہیں طارق ؔپسند
بڑے خوبصورت چمکتے گلاب
ابو ضحی طارق
اونتی پورہ ۔پلوامہ
موبائل نمبر؛8825016854
جس شہر کی یہ کہانی ہے
ہے قصّہ وہ طولانی ہے
ہر سر پہ جو منَڈلاتی ہے
ہے آفت وہ اِنسانی ہے
ہر ماّں غمّوں کی ہے ماری
ہر بہن پھرے دِ یوانی ہے
ہے آنگن آنگن حَشر بَپا
ہر گھر میں نوحَہ خَوانی ہے
ہر ایک یہاں چپ سادھے ہے
ہر جذبہ پانی پانی ہے
ہر لَب کی جَنبِش کہتی ہے
یہ کس کی کارسَتانی ہے
اے ! ظالم جابر بس بھی کر
اب کس کی دنیا لُٹانی ہے
مشتاقؔ یہ غفلت چھوڑ ذرّا
یہ دنیا آخر فانی ہے۔۔۔
خوشنویس میر مشتاق
ایسو ( اننت ناگ)
اب جینے کا کچھ مزاد آتا نہیں
کہ تیرا غم مجھے اب ستاتا نہیں
کرتا ہوں دل لگی میں کیسے سنگدِل سے
میرے ناز و تخرے وہ اُٹھاتا نہیں
یہ کرتی ہے طے خود اپنی مسافت
فطرت کو کوئی کچھ سِکھاتا نہیں
کرتا ہے مصافحہ غیر سے سَر محفل
جلن میرے دِل کی وہ سمجھتا نہیں
طلب ہر کسی کو ہے جامِ خوشی کی
کوئی غم کا ساغر اُٹھاتا نہیں
صورتؔ سنگھ
رام بن، جموں
موبائل نمبر؛9622304549