ہر گزرتے لمحے کے ساتھ ساتھ نئی نئی قسم کی آفات زمینی اور سماوی بڑھتی ہی جا رہی ہیں۔2019 میں ایک زہریلا وائرس ہمارے پڑوسی ملک چین سے وارد ہوا۔اور دیکھتے ہی دیکھتے دنیا بھر کے عربوں لوگوں کو متاثر۳ کر دیا۔لاکھوں جانیں تلف ہوگئی۔ بے بسی اور لاچارگی کا یہ عالم کہ دوسال گزرنے کو ہیں مگر کوئی معقول دوائی تجویز یا دریافت نہ کرسکے۔ اس وباء کے کہرام سے ہمارا وطن ہندوستان بھی نہ بچ پایا۔اس لہر میں کڑوڑوں لوگ کروناسے متاثرہوئے۔ جن میں سے لاکھوں لوگ اپنی جانیں بھی گنواچکے ہیں۔ کرونا وائرس کی دوسری لہر نے پورے ملک کی معیشت کو تباہی کے دہانے پر لاکر کھڑا کردیاہے۔ ا س کی وجہ سے ترقیاتی اور دفاعی سرگرمیوں کو روک کر سرکار کو طبعی شعبہ میں پوری توجہ مرکوز کرنی پڑی۔تب ہماری ریاستی یامرکزی سرکاری اداروں کو آکسیجن پلانٹ،ونٹیلیٹر جو برسوں تباہ حال تھے یاد آگئے۔ لیکن تب تک نظام ہاتھ سے نکل چکاتھا۔ اس وباء سے سب زیادہ غریب متاثر ہوئے ہیں۔
جموں وکشمیر کا سرحدی ضلع پونچھ بھی اس وبا سے متاثر ہوئے بغیر نہ رہ سکا۔تحصیل منڈی کی متعدد پنچائیتوں میں عوام کو سخت پریشانیوں سے دوچار ہوناپڑاہے۔کرونا وائرس کے چلتے سرکار نے راشن کا انتظام ایک مخصوص طور پر دینے کا نظم کیا۔ صرف بی پی ایل اوراے اے وائی میں اندراج لوگ راشن سے فیض یاب ہوئے۔لیبر کارڈ ہولڈر کو ایک ہزار روپیہ لاک ڈاؤن کا بہتہ دیاگیا۔طبعی عملہ کو تنخواہ سے اضافی معاونت کا اعلان بھی کیاگیا۔تو کیایہ سب کچھ اس کرونا وباء کے دوران تمام لوگوں کو کافی تھا؟ مزدور، کسانوں اور عام ریڑھی مالکان اور ڈرائیوروں کے لئے کیا کیاگیا؟یاپھر انتظامیہ اس وبائی مرض میں عوام کی کتنی مسیحائی کررہی ہے؟
یہی کچھ جب عام لوگوں سے جاننے کی کوشش کی تو کچھ الگ نقشہ نظر آیا۔ تحصیل منڈی سے پانچ کلومیٹر دور اڑائی گاوں کی پنچائیت اڑائی ملکاں کا باشندہ عبدالرحمان، جس کا خاندان گیارہ افراد پر مشتمل تھا۔ تین بیٹیوں کی کم عمری میں ہی شادی کردی گئی۔توجہ طلب بات تو یہ کہ یہ بیٹیاں ہوش سبنھالنے سے شادی تک دوسروں کے گھروں میں پوچھاجھاڑو کی غرض سے نوکرانی بن کررہیں۔بس گھر اسی دن لایاگیاجب دلہن بناکر سسرال پہونچانا تھا۔عبدالرحمان جس کی عمر 47سال ہے،اس حوالے سے بتاتے ہیں کہ دو سالوں سے لاک ڈاؤن کی وجہ سے زندگی اجیرن بنی ہوئی ہے۔ بیٹیوں سے دوسروں کے گھروں میں کام کروانے کی یہ مجبوری تھی کہ میری آمدنی اتنی نہیں ہے کہ ان کے لئے اسکول میں داخلہ کروانے کے لئے فیس دے سکوں۔ ان کے لئے بیگ، کاپی،پنسل کے لئے بھی پیسے میسر نہیں تھے۔یہاں تک کہ کھانا اور کپڑے کے لئے بھی زر پاس نہیں تھا تو مجبور ہوکر ان معصوم بچیوں نے نوکری کی۔ ستم تو یہ کہ میرا راشن کارڈ بھی اے پی ایل بنایا گیا ہے۔نہ پچھلے سال رلیف کا راشن مل پایا اور نہ ہی اس سال کا مل پایا ہے۔ لیبر کارڈ بنا نہیں تو کیسے ملے گا ایک ہزار روپیہ؟ کمانے والا ایک ہوں۔لاک ڈاؤن میں گھر بیٹھا ہوں۔ کچھ کمانے اور بچوں کو کھلانے کو نہیں ہے اور اب تک پی ایم اے وائی اسکیم سے بھی محروم ہوں۔
یہ بدقسمتی صرف کسی ایک عبدالرحمان کی نہیں ہے،بلکہ محمد بشیر چوہان جن کی عمر 50سال ہوگی، ان کا بھی کچھ یہی حال ہے۔کرونا کی وبا اور لاک ڈاؤن کی وجہ سے گھر کی آمدنی ختم ہو چکی ہے۔ لیکن ابھی تک بی پی ایل راشن کارڈ تک نہیں بناہے۔ ان کی شکایت ہے کہ کھانے پینے والوں کے نام بی پی ایل راشن کارڈ بنا ہوا ہے لیکن ہم جیسے ضرورت مند اس سے محروم ہیں۔چکھڑی بن لورن ساوجیاں کی پنچائیتوں میں اس طرح کے دسیوں حیران و پشیمان غریب لوگ ہیں۔لیکن نہ تو یہ راشن اور نہ لیبر کارڈ سے مستفید ہورہے ہیں۔ عبدالسبحان جن کی عمر 30سال ہے، ایک پاؤں سے معزور ہے۔ کہتے ہیں کہ ریڑھی لگاتاتھااور اپنے گھر کا خرچہ چلاتاتھا۔لیکن لاک ڈاؤن نے بے روزگار کردیاہے۔
اتنا ہی نہیں اس وبااورلاک ڈاؤن کی وجہ سے ڈرائیورں طبقہ میں سوموں ڈرائیور اور بس ڈرائیور بھی پریشان ہیں۔ تیل ایک سو روپے ہوچکاہے۔سواریوں کو صرف نصف بیٹھا کر تیس فیصدی کرایا وصول کرنا ہوگا۔ غرض ہر طبقہ پریشان ہے۔ اسی سلسلہ میں سومو ڈرائیور ارشاد احمد جن کی عمر 36سال ہے،نے بتایاکہ دس سال کے عرصہ سے ڈرائیوری کرتا چلا آرہا ہوں۔گاڑی کی بنک قست نکلا کر گھر کا خرچہ اور گاڑی خرچہ نکل آتا تھا۔لیکن گزشتہ دو سالوں سے لاک ڈاؤن اور بندشوں نے اس قدر پریشان کردیاہے کہ گاڑی بیچنے پر مجبور ہوں۔ لیکن کوئی خریدار نہیں ہے۔د
یہ صورت حال صرف جموں کشمیر کی نہیں ہے بلکہ اس ملک کے چپہ چپہ کے غریبوں کی یہی داستان ہے۔ راشن کے معاملہ میں جب محکمہ خوراک کے آفیسر رنجیت سنگھ سے بات کی تو ان کا دوٹوک جواب تھاکہ جس کا آدھار کارڈ ہوگا وہی راشن کا حقدار ہوگا۔چاہے بزرگ، نوجوان ہو کہ معذور یا بیواہ،۔آدھار کارڈ کے بغیرکچھ نہیں ملنے والا ہے۔ اسی طرح لیبر کارڈ دفتر جب بات ہوئی تو وہاں سے جواب آیا کہ لیبر کارڈ ہوگا تو انہیں معاونت دی جایگی۔لیبر کارڈ بناے جارہے ہیں۔لوگ بنائیں گے تو مستفید ہونگے۔ ڈرائیونگ کے حوالے سے انتظامیہ کا واضح اور حتمی فیصلہ ہے کہ جو سڑک پر چلے گا،وہ قوانین کی پاسداری کریگا،ورنہ سخت نتیجے بھگتنے ہونگے۔ لاک ڈؤان کیا لگا،اس منڈی میں کسان مجبور، ڈرائیور مجبور،ریڑھی والے مجبور،دوکاندار مجبور،عام غریب مجبور،بیوائیں اور معذور مجبور،یہاں تک کہ ملازم اور آفیسرتک مجبور ہیں۔ہر گزرتے دن کے ساتھ یہ مجبوریاں کم نہیں ہوتی۔کرونا وباء ہے کہ حکومت اور انتظامیہ کو مجبور وبے بس کردیاہے۔ حلانکہ حکومت اور انتظامیہ وہ کام اب کررہی ہیں، جو صدیوں پہلے کرنے تھے۔ سوال یہ ہے کہ ایسے مشکل وقت میں یہ غریب عوام کس طرح اپنااور اپنے پریوار کا پیٹ پال سکیں گے؟اور کس طرح انتظامیہ انہیں دو وقت کی روٹی میسر کرنے کے لئے راستہ ہموار کرسکے گی؟کوئی تو غریبوں کی سنو! (چرخہ فیچرس)
�������