بڑی بی! سلام دعا ،سدا سکھی رہیو، جہاں رہیو خوش رہیوسلامت رہیو۔ ہاں ہاں، صحیح سنا ہے یہاں سب ٹھیک ٹھاک ہے ، پتھراؤ ، جھڑپیں ، سردیاں ، بجلی کی آنکھ مچولیاں ، مہنگائی مار گئی ، یہ تو چلنا ہے۔۔۔ جی نیا حریت کلینڈر بھی نکلا ، کام چار دن تین دن آرام، صحیح سناہے چلہ کلان کے بعد ہوگا انتخابات کا اعلان، اپریل میں پیر وجوان کا نیا امتحان ، اسی روز پتہ چلے گا بائیکاٹ والے اعلیٰ یا ووٹ والے بالا ، بالکل ٹھیک کہا، لال جھنڈے کے منہ میں انتخابی رال، سبز زعفرانی پیچ وتاب بے حال، انشاء کے مکتب جنید کے مدرسے کا درجہ بڑھائیں، وادی کی سیر ننھے منوں سے کرائیں، سکوٹیاں بانٹیں، آگے ٓگے دیکھے ہوتاہے کیا ، امتحانی تیاریاں شروع ۔۔۔ تم بتاؤ، بھئی بڑی چھپی آفت نکلی کہ دنیائے ناپائدار میں ہوں ہاں کر کر کے جئے جا رہی ہو ، عدم توجہی کے طوفان بھی سہہ رہی ہو ، دھکے کھاکر حمد وشکر بھی کہہ رہی ہو۔ ایک ہم ریختہ گو ہیں جب عالم برزخ میں سنا بی بی اردو گئی واویلا کیا ، دل پاش پاش ہوا، کلیجے پر چھریاں چلیں۔ رنج سے خوگر اس بندے نے رو روکر ماتمی اجلاس بلایا، سوچابی کے ایصال ِ ثواب کی محفل جمائیں، اور روئیں اور رُلائیں۔ اقبالؔ نے تعزیتی اجلاس کی صدارت کی ، اکبرؔ نے کفن دفن کا حال احوال بتایا ، جوشؔ نے اپنے رنج وکلفت سے ہوش اُڑائے، جگرؔنے اپنا کلیجہ چبایا، بندے نے نوحہ پڑھا، پریم چند نے سینہ کوبی کی، فراقؔ نے ماتھا پیٹا، فیضؔ نے لوحِ مزار بنایا، حالیؔ نے دل کے چھالے دکھائے۔ سب اشک بار، تاسف کا اظہار، رنج کا دربار ، گردش ِ لیل ونہار سے بیزار، ہائے اردو بی وائے اردو بی کر تے رہے۔غم واندوہ کے کتنے زہر پیالے اندر انڈیل دئے، واللہ شمار نہیں۔۔۔ تعزیتی اجلاس جاری تھا کہ کوئی دل جلا آیا ، چیخ کر بولایارو! یہ منحوس خبر غلط ، محض ا فواہ ، کسی نے بے پر کی اڑائی، اردو بی فی ا لحال عالم ِنزع میں ہے ، سانسیں چل رہی ہیں، دم گھٹ رہاہے ، کوئی حکیم و طبیب نہیں ، دوادارو ندارد، اپنے ہی اشکوں کی خوراک،آہوں کے مرہم پر گزارہ چلائے۔ فی الحال سیاسی محل کے اصطبل میں پناہ گزین ہے۔ دیارِ عشق کے واسیو ! قسم ہالی وڈ کی اردو ابھی مر نہیں سکتی، وہ مر گئی تو کانفرنسوں کی روٹیاں کون توڑے؟ سمیناروں کی زینت کون بنے ؟کہاں کے غیرا دبی رنگے سیار مل کر اردو اکادمی نام کی سُونی سُونی دوکان چلائیں ؟ بی ارود گئی تو اس کے غم میں اپنی خوشیوں کی سودا گری کون کرے؟ ابھی اسے صدیوں مر مر کے جیناہے، اپنے نام کے غم گساروں کی دال روٹی جوچلانی ہے ۔ یہ کلاکار ا سے چین سے مر نے دیں گے نہ اطمینان سے جینے دیں گے۔ آپ حضرات ماتم نہیں جشن مناؤ۔۔۔ کاش ! آپ کو بھی کوئی یہاںاردو کانفرنس بلا نے کا نفع بخش خیال آتا، ایک ووسرے میں تمغے بانٹ کر’’ من تُرا حاجی بگویم تو مرا حاجی بگو‘‘ گنگنانے کا کرتب آتا، برہمن ومفتی سرکار سے دھن وصولنے کاسوانگ آتا، بی اردو کے نام کے مادر پدر بن کراس کی سر چادر نیلام کر نے کا ایک ودوتین سیکھا ہوتا! چھڑو جی! میں مملکت بے داد میں بی اردو کی عیادت ابھی ابھی کر کے آیا ۔ اس نے یہ چند نئے اشعار آپ کوسنانے کو کہا، ملاحظہ کیجئے ؎
چکبست ؔاور فراقؔ کے ماتھے کا تلک ہوں میں
اقبالؔ کے نغمات میں آیات کی جھلک ہوں میں
دوہوں میں کبیر ؔکے محبت کی مہک ہوں میں
کیوں مجھ کو کہہ رہے ہو کہ مسلمان ہوں میں
ہندوستان کی شان میں اردو زبان ہوںمیں
یکایک مجلس ایک بھلے مانس نے کسی جاویدا ختر کی نظم سناڈالی۔ سلام نہ دعا ، طیش اس کی زبان ، غصہ اس کا بیان ، احتجاج اس کی روشِ کلام، ہم سب مبہوت ہوگئے ۔ا س نے ادبی ساہوکاروں پر لفظوں کے تیر یوں چلائے ؎
شہر کے( اردو) دوکاندارو
کاروبار ِ الفت میں
سود کیا زیاں کیا
تم نہ جان پاؤگے
دل کے دام کتنے ہیں ؟
خواب کتنے مہنگے ہیں ؟
اور نقدِ جاں کیا ہے ؟
تم مریض ِ دانائی
مصلحت کے شیدائی
راہ ِ گمراہاں کیا ہے ؟
تم نہ جان پاؤگے
جانتا ہوں میں تم کو
’’ذوق شاعری بھی ہے‘‘
شخصیت سجانے میں
اک یہ ماہری بھی ہے
پھر بھی حرف چنتے ہو
صرف لفظ سنتے ہو
ان کے درمیان کیا ہے
تم نہ جان پاؤگے
میں نے شرمندہ ہوکر دل جلوں سے ہاتھ جوڑے معافی مانگی ۔ تعزیتی اجلاس برخواست کروایا۔ ا کبرؔ مجھ پر لپکا، گریبان سے پکڑا۔ پوچھا اور او!یوانے یہ منحوس خبر دی کیوں بڑی بی چل بسی، کیوں کیوں کیوں ؟ اکبر ؔ نے اس کے بعد یہ نئی تازہ سنائی ؎
کہا احباب نے دفن کے وقت
کہ ہم کیونکر وہاں کے حال جانیں
لحد تک آپ کی تعظیم کردی
اب آگے آپ کے اعمال جانیں
اکبرؔ شرمسار، میں خجل وخوار ، شاعر ان ِوطن مجھ سے بیزاراور میں بے یارو مدگار ۔
جان ِ من !کیا سچ میں تم زندہ ہو ؟ ایک بار پار سشما مہارانی کا تم ست دلا ر دیکھا، باچھیں کھل گئیں، وہ کب سے تمہاری سگی سہیلی ہوئیں ؟ واللہ یہ ایک پہیلی ہے ۔ اس نے تمہیں بھی اپنے ہمراہ مملکت خداداد بھی پہنچایا، دل ِ ایشیاء میلے کا لطف اُٹھوایا ۔ کیا تم نے مہارانی کے تن پہ زعفرانی نہیں سبز ساڑھی چڑھوائی؟ ایک معمہ یہ ہے کہ ملک کشمیر میں صاحبہ کے ایک عدد سبز عبایہ کو لوگ ہزار نام دیتے ہیں، شاہِ ہند کے دربار میں بھی سبز لباس ِ زیب تن ہو ،حاشاء وکلا! کشمیر کی بات الگ ہے ۔ یہاںکسی بندے کے منہ میں دانت ہونہ پیٹ میں آنت، لیکن جیب میں سبز رومال ہو ئی تو مانومر گیا، بچاراہلالی پرچم کے جرم میں مسرت عالم کی طرح زندان کی حسرت بنے گا۔ سمجھ نہ آوئے پار سنگھ کے لئے سبز حلال ، یہاں حرام کیوں؟ پار جو بھی سنگھ والا جاؤے اُنہی کے رنگ میں رنگ جاؤے۔ایڈوانی گیا، مرقدِ قائد کو سلام کیا ، قائد کو بڑا نیتا کہا، پریوار نے بچارے کا پتہ کاٹ دیا ، پتلے جلوائے، چھی چھی چھی کے زُکام سے بچارے کو بے حساب چھینکی آئیں ۔ اب اسے قید تنہائی میں اپنی حسرتیں یاد کر کے سر جھکائے قسمت رُلائے ، جاؤجسو نت سنگھ کا حال دیکھیو نہ گھر کا رہا نہ گھاٹ کا، قائد پہ کتاب کس نے لکھنے کو کہا تھا ؟ اب عمر بھربھگتو۔بڑی بی! تم نے ا س روز سشما پر ضرور کوئی جادو ٹونا چلایا تھا، اُن کی زبان اسلام آباد میںسنسکرت کی کالی مرچیں نہیں اردو کی دار چینی الائچی اور عرق گلاب کی بھینی بھینی خوشبو ئیں بکھیرگئی۔۔۔ یہ بھی ا یک معمہ ہے کہ اپنے سیاست کارکوئی عرب کے البیرونی نہیں کہ ایک ’’کتاب ا لہند ‘‘ کے لئے سنسکرت سیکھنے سمجھنے میں عارنہ کریں، نہ یہ کوئی ذاکر نائیک ہیں کہ وید سمجھنے کے لئے ہندی کے دربار میں عرقِ انفعال لٹائیں۔ سیاست دان ہوتے ہیں کرسی کے یار ، اسی کے دست بستہ غلام جس کی کوئی بھا شا نہیں ، جس کا کوئی رنگ نہیں ڈھنگ نہیں ، قومیت نہ نسل ، رندی سے واسطہ نہ پارسائی سے رابطہ ، نہ قلم دوات، نہ ہل نہ کنول، کرسی کا رسیا اقتدار کامن بسیا۔ ۔۔ لو جی ج بیگم! کسی نے اپنے بہرے کان میں یہ بھنک ڈال دی ؎
یہ بازارِ سیاست ہے یہاں خود داریاں کیسی
سبھی کے ہاتھ میں کاسہ ہے مٹھی کون باندھے گا
میں ہوں باؤلا ،عقل سے پیدل ، حالات سے بے خبر ، حقائق سے بے گانہ، دنیا سے نابلد ، رنگ بدلتے موسموں سے ناواقف۔ خانہ خراب یہ تک نہ جانے ستم رسیدہ بیگم ارود ابھی حیات ہے ، ممات کی سرحد سے تھوڑا سا اِدھر، پشت بہ بہاراںرُخ بہ خزاں، نزع کی آخری ہچکیاں ، کفن دفن کی تیاریاں، نہ نام لیوا نہ پانی دیوا ، کئی قبیلے دشمن ِ جاں، کئی طائفے لال پیلے، کئی مخالف رنگ رنگیلے ۔ یہ ان کی ہی کارستانیاں ہیںکہ اردو بی ریاست بدر، دفتر وںسے غائب ، جے کے بنک سے طلاق یافتہ، سروس سلیکشن بورڈ میں راندہ ٔ درگاہ، عدالت سے بے دخل، ایوان کی حلف برداری سے دستبردار، پٹوار خانہ سے مفرور، کوتوالی میں معذور، اخبار سے دور بہت دور، شالی سٹور میں ڈیڈ سٹاک بوری۔ رہے یہ اردو بی کے طرف دار ؟ سب مطلب کے یار، اپنے ا پنے فن ِسوداگری میں پختہ کار ، مکر وفریب کے علمبر دار، گشتی سیاسی عیار، کردار سے خالی گفتار،شعر سے شغف نہ زبان سے سروکار۔ یہ اردو کے رشتہ دارہوئے تو ایک شعر بھی نہ کہنے والے شاعرزماںکیوں نہ کہلاوئیں؟جن کو خبر کی خبر نہ ہو وہ نام کا صحافی بی کا غم خوار کیوں نہ مانے جاوئیں ؟ ماشاء اللہ اردو بی کے ٹھیکیداروں میںجو جتنا نابکار وہ اتنا عزت دار، صاحبِ جبہ ودستار اور جو واقعی ہونہار وہ جوتم پیزار۔ مولا! بی کی قسمت میں گر ا تنے غم لکھے تھے دل بھی اتنے دئے ہوتے۔ ماچسؔ جی کے منہ میں گھی شکر، خوب کہا ہے ؎
ہوئی ہے کیسی دنیائے اَدب زیروزبر غالبؔ
مگرتم کو کہاں اس بات کی ہوگی خبر غالبؔ
ہنر مندوں پہ غالب آگئے ہیں بے ہنر غالبؔ
جو نابینا ہیں بن بیٹھے ہیں اہل ِ نظر غالب ؔ
گیا وہ دوراُستادی کا جب معیار ہوتا تھا
وہ اب اُستاد ہے جو شعر کہہ لے سال بھر غالب ؔ
جلانا چاہتاتھا اور بھی ماچس ؔ زمانے کو
مروت سے کہے اشعار لیکن مختصر غالب ؔ
لسانِ من! سشما نے بہت پہلے تجھ سے یاری دلداری کی، سنسکرت میں نہیں ٹھیٹھ اردو میں تجھے ملکی زبان بتایا۔ بات اچھی کہی سچی کہی، کوئی احسان نہ کیا۔ سیاست کار منظر شناس ہوتے ہیں، ہر منظر کا اپنا اپنامکالمہ حریت بیانوں کی طرح رٹتے رہتے ہیں۔ یادہے نا واجپائی نے سری نگر میں مہجورؔ کا کشمیری نغمہ’’ ولو ہا نوجوانو نو بہارک شان پیدا کر‘‘ مفتی کو سنایا، محفل گرمائی مگر ارضِ کشمیر ابھی تک آن بان شان اَمان سے تہی دامن ، انسانیت کے دائرے سے بدون ہے ۔تاریخ کے شکستہ دل اوراق کھول کے پڑھیو، ایک ورق بی کی زبان میں بولے انقلاب زندہ باد، دوسرا بولے ’’وطن کی راہ میں وطن کے نوجوان شہید ہو‘‘ تیسرا ورق رام پرشاد بسملؔ کا یہ شعر سنائے ؎
سر فروشی کی تمنا اب ہمارے دل میں ہے
دیکھنا ہے زور کتنا بازوئے قاتل میں ہے
چوتھا ورق سرسید ، حالی ، آزاد ، محمد علی جوہر ،پریم چند، برج نارائین چکبستؔ، رگھو پتی سہائے فراق ؔ، کرشن چندرکے دفاتر کھولے۔ پانچواںورق اقبال ، اکبر، نظیر اکبر آبادی، فیض اور فراز کی شکلیں دکھائے ، چھٹا ورق بتائے موتی لال نہرو پشت در پشت عربی فارسی اردو کا بحرزخار، پنڈت نہرو کا شادی رقعہ تک اردو بی سے ہی مزین و مزیدار، گیانی ذیل سنگھ بی کا پیش کار ، نرسمہاراؤ اس کا دلدار، اندر کمار گجرال اس پہ نثار، منموہن سنگھ اس کا جان کار، این این ووہرا بی کا عاشق ِ نامدرا، جگموہن زُلف ِبی کا گرفتار، گریش سکسینہ شعر وسخن کا نگہدار ، جسٹس کا ٹجو اور جسٹس تیرتھ ناتھ ٹھاکر بڑی بی کے حامی و مددگار لیکن صرف مفتیاں بی اردوسے برہم وبیزار ۔ ساتواں ورق دکھائے اکارڈ سے زبانِ اردوکا بگاڑ آیا، شیخِ کشمیر نے اس کے برگ وبار سے’’ آتش ِچنار‘‘ ضرور سلگائی، اقتدار بھی ہاتھ آیا تو ترنگے کے رنگ میںبی گم اردوکو بھنگ کیا، دینیات بھی آں دفتر گا ؤ خوردکی اور آوارہ گردوں تک کو دَنگ کیا ۔ قائدثانی وثالث آئے تو نشان ِرفتہ کو رباب وچنگ کیا۔ اردو بیگم! یہ گردشِ دوران بھی دیکھ کہ تم ہو دبستان دلی و لکھنو کی لاڈلی مگر کشمیر تا کنیا کماری تم ہی دیس نکالا۔خیر مر نے سے پہلے کرم مہربانی کرئیو کسی مہارانی سے اپنی یہ آخری خواہش ضرورکہیو مہارانی صاحبہ ! کم نصیب پر اب یہ احسان بھی کریئو غالب خستہ کے آب وخور اور کام چور اردو موالیوں کے حقہ پانی کے لئے پریوار محل کے ساتویں تنخواہ کمیشن میں تھوڑا بہت وظیفہ منظور فرما کر اُن کا منہ میٹھا کرئیو۔
وظیفے کا طالب غالب