سرینگر// حریت (گ )چیرمین سید علی گیلانی نے روزوں کے اس مقدس مہینے اور گرمی کے موسم میں بھی سینکڑوں آزادی پسند قائدین وکارکنوں کو جموںکے دور دراز جیلوں میں مقید رکھنے کو ستم بالائے ستم اور ریاستی دہشت گردی کی انتہا قرار دیتے ہوئے عید سے قبل تمام سیاسی قیدیوں کی رہائی پر زور دیا ہے۔ انہوں نے کہا کہ مسرت عالم بٹ، آسیہ اندرابی، فہمیدہ صوفی، ڈاکٹر غلام محمد بٹ، امیرِ حمزہ شاہ، محمد یوسف لون، میر حفیظ اللہ، محمد یوسف فلاحی، ماسٹر علی محمد، رئیس احمد میر،محمد شعبان ڈار، عبدالغنی بٹ، محمد رستم بٹ، دانش ملک، مشتاق احمد ہُرہ، عبدل احد پرہ، محمد رفیق گنائی، عبدالسبحان وانی، شکیل احمد یتو، شوکت احمد حکیم، طارق احمد گنائی، بشیر احمد بویا، عبدالمجید راتھر، محمد یوسف بٹ شیری، شکیل احمد بٹ، فاروق احمد توحیدی، بشیر احمد قریشی، حاجی غلام محمد میر، شیخ محمد رمضان، شوکت احمد، محمد امین آہنگر، عبدل حمید پرے، سرجان برکاتی، محمد شفیع وگے، مشتاق احمد کھانڈے، شوکت احمد، محمد شفیع خان، اسداللہ پرے، منظور احمد بٹ، سلمان یوسف، مفتی عبدالاحد، غلام حسن شاہ، حاکم الرحمان، منظور احمد کلو، غلام محمد تانترے، پرویز احمد کلو، عبدالخالق ریگو، عبدالعزیز گنائی، غلام حسن ملک، جاوید احمد میر، بشیر احمد بٹ، مشتاق احمد میر، محمد اشرف بیگ، محمد رمضان میر، سراج الدین، محمد صدیق، سفیر احمد لون، شوکت احمد ڈار، بشیر احمد صالح، اعجاز احمد ہرہ، جاوید احمد فلے، نذیر احمد مانتو، مفتی ندیم، محمد امین پرے، محمد امین آہنگر، امتیاز احمد، بشیر احمد صوفی اور معراج الدین نندہ سمیت سینکڑوں آزادی پسند احتیاطی نظربندی کے نام پر آج بھی پبلک سیفٹی ایکٹ کے تحت حبسِ بے جا میں رکھے گئے ہیں جبکہ ڈاکٹر محمد قاسم، ڈاکٹر شفیع شریعتی اور غلام قادر بٹ سمیت 50سے زائد کشمیری عمر قید کی سزا کے تحت مختلف جیلوں میں نظربند ہیں۔بیان میں حریت چیرمین نے کہا کہ 2016ءکی عوامی تحریک کے دوران میں 20ہزار کے لگ بھگ جو آزادی پسند لوگ حراست میں لیے گئے تھے، ان میں سے ابھی بھی 500کے قریب مختلف جیلوں اور انٹروگیشن سینٹروں میں پابندِ سلاسل ہیں۔ انہوں نے کہا کہ بیشتر قیدیوں پر عائد پبلک سیفٹی ایکٹ کو عدالتِ عالیہ نے اگرچہ کالعدم (Quash)کیا ہوا ہے البتہ انہیں چھوڑا نہیں گیا اور ان پر لگاتار دوسرا اور بعض پر تیسرا پی ایس اے عائد کیا گیا ہے۔ انہوں نے کہا کہ ایک بڑی تعداد ایسے قیدیوں کی بھی ہے، جن پر کوئی کیس عدالتوں میں زیرِ سماعت نہیں ہے، البتہ انہیں بھی حبس بے جا میں رکھا گیا ہے اور احتیاطی نظربندی کے نام پر ان کی غیر قانونی حراست کو طو¾ل دیا جارہا ہے۔ انہوں نے کہا کہ وادی میں سرینگر سینٹرل جیل کے علاوہ مزید چار جیلیں قائم ہیں اور ان میں تمام نظربندوں کے لیے کافی سے بھی زیادہ جگہ دستیاب ہے البتہ کشمیری حریت پسندوں کو محض انتقام گیری کے تحت گھر سے سینکڑوں میل دور جموں کی جیلوں میں رکھا جاتا ہے۔ یہ ایک قسم کی سزا ہے، جو انہیں دی جاتی ہے اور یہ سزا ان کے ساتھ ساتھ ان کے بال بچوں اور اہل خانہ کو بھی مل رہی ہے۔ حریت چیرمین نے کہا کہ جموں کشمیر کے جیلوں کی حالت ابو غریب اور گونتاناموبے جیسی بن گئی ہے اور یہاں سیاسی قیدیوں کے ساتھ جرائم پیشہ لوگوں جیسا سلوک روا رکھا جاتا ہے۔ جیل کے اندر بھی انہیں سیاسی انتقام گیری کا نشانہ بنایا جاتا ہے اور انہیں جیل قوانین کے مطابق ملنے والی سہولیات سے بھی محروم رکھا جاتا ہے۔ حریت چیرمین نے ایمنسٹی انٹرنیشنل، عالمی ریڈ کراس کمیٹی اور حقوق بشر کے لیے سرگرم دیگر اداروں سے اپیل کی کہ وہ کشمیری نظربندوں کی حالتِ زار کا نوٹس لیں اور ان کی عید سے پہلے پہلے رہائی کے لیے اپنے اثرورسوخ کو استعمال میں لائیں۔