عید الاضحی کی آمد آمد ہے ۔بازاروں میں چہل پہل بڑھنے لگی ہے ۔لوگ عید خریداری میں محوہیں لیکن اس چہل پہل سے بے نیاز کچھ معصوم بچے ایسے بھی ہیں جن کی عید نہیں ہے ۔وہ یتیم خانوں میں زیر کفالت ہیں اور وہیں اپنی بے بسی پر ماتم کناں ہیں۔عید کی خوشی کا اظہار ہر مسلم کا حق ہے لیکن سوال پیدا ہوتا ہے کہ حقیقی معنوں میں عید کی اصل خوشی کا حقدار کون ہے ۔آج جب کہ ہم عید کی مناسبت سے لذیذ زیافتیں پکانے اور عمدہ لباس تیار کرنے میں مگن ہیں اور ہماری کوشش ہے کہ ہمارے اہل خانہ کی عید اچھی ہو،ایسے میں عیدکے ان پُر مسرت لمحات میں ہمیں اپنے اڑوس پڑوس میں اُن یتیم بچوں اور بیوائوں کو بھی نہیں بھولنا چاہئے جو عید منانا چاہتے ہیں لیکن ان کے ہاں کھانے تک کیلئے کچھ نہیں ہے۔یتیم خانوں کا قیام احسن اقدام ہے لیکن جس طرح آج کل ہر گلی اور بازار میں لوڈاسپیکروں پر یتیم خانوں کے نام پر لوگوں سے ،زکواۃ اور صدقات وصول کئے جارہے ہیں ،شایدیہ بھی کوئی اچھا رجحان نہیں ہے ۔کئی دفعہ ایسے معاملات بھی سامنے آئے جب یہ معلوم ہوا کہ یتیم خانوں کے نام پر چندہ جمع کرنا کئی لوگوں کیلئے روزگار اور تجارت کا ذریعہ بن چکا ہے ۔اگر اسلام کے تابع اپنی زندگی بنائی جائے تو شاید ہمیں بازاروں میں چندہ جمع کرنے اور لائوڈ سپیکروں کے ذریعے لوگوں سے منت سماجت کرنے کی ضرورت نہیں پڑے گی۔اسلام مکمل ضابطہ حیات ہے ۔یتیم خانوں کا قیام تو جدید دور کی سوچ ہے جبکہ رسول اللہ ؐ کے وقت میں یتیم خانے نہیں تھے بلکہ اُس وقت صحابہ کرام ؓ یتیموں کی کفالت کا ذمہ اٹھاتے ،یہاں تک خود رسول اللہ ؐ کئی یتیموں کی کفالت کرتے رہے ہیں۔یتیم خانے بچوں کی پرورش تو کرتے ہیں لیکن گھر سے دور ضرور انہیں احساس محرومی کا شکار ہونا پڑتا ہے ۔کتنا ہی اچھا ہوتا کہ ہم مقامی سطح پر محلہ ،گائوں اور قصبہ میں اپنے آس پاس کے یتیموں اور بیوائوں کا خیال رکھتے تو شاید آج نوبت یہاں تک نہ آپہنچتی ۔یتیموں کی کفالت کرکے ہم ان پر کوئی احسان نہیں کررہے ہیں بلکہ یہ ہمارا ملی اور مذہبی فرض ہے جبکہ قیامت کے روز اس بارے میں پوچھ تاچھ ضرور ہوگی ۔یتیموں اور بیوائوں و محتاجوں کی پرورش و اعانت حقوق العباد میں آتی ہے ۔اللہ اپنے حقوق میں غفلت معاف کرسکتا ہے لیکن حقوق العباد میں معافی کی کوئی گنجائش نہیں ہے ۔پر آشوب حالات کی وجہ سے وادی میں یتیموں ،ناداروں ،بیوائوں اور محتاجوں کی ایک فوج تیار ہوچکی ہے ،ایسے میں ہم پر زیادہ ذمہ داریاں عائدہوتی ہیں کہ ہم اپنی خوشی کے ساتھ ساتھ ان کی خوشیوں کا بھی خیال رکھیں ۔اس وقت سینکڑوں لوگ جیلوں میں مقید ہیں ،ان کے اہل خانہ بھی کسمپرسی کی حالت میں ۔عید کے ان ایام میں ہمیں قومی غیرت و حمیت کا مظاہرہ کرتے ہوئے انہیں بھی نہیں بھولنا چاہئے بلکہ اس بات کو یقینی بنانا ہوگا کہ وہ بھی عید کی خوشیوں میں شامل ہوسکیں ۔ہلاکت خیز ماحول کے بیچ شاید حالات اس بات کی اجازت نہیں دیتے ہیں کہ ہم اصراف سے کام لیں ۔اخلاق کا تقاضا ہے کہ عید سادگی سے منائی جائے اور کوشش کی جائے کہ مفلسوں و محتاجوں کو عید منانے کے قابل بنایا جائے۔اُسی میں ہماری دنیا وی واُخروی بھلائی کا راز پنہاں ہے۔جہاں تک ارباب اختیار کی ذمہ داریوں کا تعلق ہے تو ان پر بھی لازم آتا ہے کہ وہ عید سے قبل تما م سیاسی قیدیوں و نوجوانوں کی رہائی عمل میںلائیں تاکہ وہ بھی اپنے کنبہ کے ساتھ عید کی خوشیوں میں شامل ہوسکیں ورنہ ایسے کنبو ں کی عید کیا ہوگی ،جن کے لخت جگر اور سرپرست ان کی آنکھوں سے کہیں دور پس دیوار زندان ہوں۔انسانیت کا تقاضا ہے کہ عید کے اس مقدس موقعہ پر ہر فرد کو خوشی منانے کا موقعہ فراہم کیا جائے اور خوشیاں تبھی نصیب ہوسکتی ہیں جب ہر گھر خوشحال ہو۔اس تناظر میں یہ وقت کی ضرورت ہے کہ حکومت محروسین کی رہائی عمل میں لائے تاکہ ستم رسیدہ کنبوں میں افسردگی کا اندھیرا چھٹ کر خوشی کا نیا صبح طلوع ہوسکے۔ حکومت کا یہ خیر سگالی اقدام حالات کی بہتری کا ذریعہ بن پائے گااور لوگ اس کو ہاتھوں ہاتھ لیں گے ۔اعتمادسازی کے ماحول کو فروغ دینے کا اس سے اچھا موقعہ سرکار کے پاس نہیں ہوسکتا ہے لیکن افسوس کے ساتھ کہا جاسکتا ہے کہ یہاں الٹا نوجوانوں کو زینت زندان بنایا جارہا ہے ۔یہ پالیسی حالات بہتر بنانے کی بجائے صورتحال بگاڑنے کا موجب بن سکتی ہے لہٰذا فوری طور اس طرح کی پالیسی سے باز آنے کی ضرورت ہے ،ساتھ ہی زخموں کو مندمل کرنے کی سبیل کرنی ہوگی ۔بہر کیف عوام اور حکمران طبقہ کو عید کی مناسبت سے اپنی اپنی ذمہ داریاں ہیں ،دونوں سے ان ذمہ داریوں کے بارے میں پوچھا جائے گا ،کون کس حد تک اپنی ذمہ داریاں نبھانے میں کامیاب ہوجائے گا ،اس کا فیصلہ وقت ہی کرے گا لیکن اگر آج ہم عملی طور کچھ کرسکے تو کل روز محشر میں سرخروئی نصیب نہیں ہوگی ۔اللہ ہمیں اُس دن کے عذاب سے بچائے(آمین)۔