عورت کیا ہے ؟اس سوال کا جواب ہر کوئی اپنے اپنے نقطہ نظر کے مطابق پیش کرتاہے۔کوئی عورت کو بے وفا کہتا ہے ، کسی کے لئے یہ سراپا حسن ہے، کسی کے لئے عورت کبھی نہ سلجھنے والی پہیلی ہے۔ ہماری نظر میں عورت کے معنی ایک نایاب احساس کے ہیں جو دنیوی مطلب سے پاک ہے، وفا ہے، محبت ہے، دُعا ہے، جذبۂ ایثار ہے، خود کو بھلا کر اپنوں کے خاطر جینے والی ہستی ہے، جس کے لئے اپنی خواہشات اور اپنی خوشیوں سے بڑھ کر اپنوں کی خوشیاں اور خواہشات اہمیت رکھتی ہیں، جو اپنے وجود سے بڑھ کر اوروں کی فکر کرتی ہے۔ویسے تو دنیا میں عورت کی پہچان کئی رشتوں اور کئی ناموں سے کی جاتی ہے:ماں،بیوی، بیٹی، بہن،اور ایک باوفا دوست لیکن یہ بھی حقیقت ہے کہ لوگ دوستی والے رشتے کو قبول نہیں کرتے جب کہ نفسانی خواہشات سے پرے کچھ ایسے بےنام سے پاکیزہ رشتے ہوتے ہیں جو اپنے آپ میں شرائط وحدود کےساتھ قابل احترام ہیں۔
اللہ سبحانہ و تعالیٰ نے جب عورت کو پیدا کیا تو کائنات میں عورت کا سب سے پہلا رشتہ شریک حیات کا بنا۔ماں حوا ؑ انسان اول آدم علیہ السلام کی شریکِ حیات بن کر دنیا میں آئیں تو بےرنگ اور ویران دنیا میں ہرسو خوشیوں کے رنگ بکھر گئے، بےجان وادیاں خوشبوؤں سے مہکنے لگیں، ماں حوا کے ساتھ سے باپ آدم علیہ السلام کی سُونی دنیا آباد ہوگئی، کیونکہ عورت وہ ہے جو بیوی کے روپ میں شوہر کے ایمان کی تکمیل کی علامت ہے، سکونِ قلب، پیکر وفا، سکھ دُکھ کی ساتھی ہے۔ اگر دل سے چاہو تو محبوبہ بھی ہے کیونکہ جب ایک عورت اپنی رضامندی سے مرد کے نکاح میں آجاتی ہے ،پھر ہنسی خوشی ازدواجی زندگی کا آغاز کرتی ہے اور اپنے خاوند کے لئے اللّٰہ سبحانہ تعالیٰ کی طرف سے نایاب تحفہ کی طرح ہوتی ہے جس کو پلکوں پہ سجائے رکھنا ہر شوہر کی ذمہ داری ہے، یہ عظیم رشتہ خون کے رشتوں سے نہیں بلکہ قلب وروح کے سے جڑا ہوتا ہے۔عورت وہ ہے جو اپنا سب کچھ چھوڑ کر اپنوں کی خوشی کے لئے نئے ماحول میں ایک اجنبی شخص کو اپنی زندگی کی متاعِ گراں مایہ مان کر بنا کسی شکوہ شکایت ہنستے مسکراتے اپنی ساری زندگی اُس کے نام کردیتی ہے۔عورت تو وہ ہستی ہے جس کے نہ ہونے سے دنیا بے رنگ وبے نور ہے۔اسی عورت کا دوسرا رشتہ ماں کے نام سے موسوم ہے۔ماں مطلب زندگی، ماں مطلب ممتا، ماں مطلب قربانیاں اور جب عورت بیوی سے ماں بن جاتی ہے تو ماں کے روپ میں صبر اور قربانیوں کی جیتی جاگتی مثال ثابت ہوتی ہےجو اپنی زندگی سے لڑ کر ایک نئی زندگی کو جنم دیتی ہے۔دنیا کے گردوغبار سے بچاکر پیار، محبت اور اپنی ذات سے کئی کئی قربانیاں دے کر اس ننھی سی جان کو پروان چڑھاتی ہے، صحیح و غلط کی پہچان کرواتی ہے، جینے کے آداب سکھاتی ہے، ایک مکمل انسان بناتی ہے، شاید اسی لئے خدا نے ایک عورت کو ماں کے روپ میں اتنے بلند درجے سے نوازا ہے کہ حدیث میں آیاہے کہ ماں کے قدموں تلے جنت ہے ۔ دنیا میں خدا کو دیکھ پانا ناممکن ہے، شاید اسی لئے خدا نے ماں جیسی ہستی بنائی جس کی ذات میں خدا ئی صفات کی تھوڑی سی جلوت ہوتی ہے اور اگر بچے کی قسمت لکھنا ماں کے بس میں ہوتا تو شاید وہ اپنے بچے کے قدموں میں دوجہانوں کی خوشیاں انڈیل دیتی ۔یہی عورت جب بیٹی ہوتی ہے تو ماں باپ کے لئے بخشش کا ذریعہ بنتی ہے، کیونکہ بیٹیاں ربِ کائنات کی طرف سے رحمت ہوتی ہیں، جس گھر میں بیٹیاں ہوتی ہیں اُس گھر پہ اللّٰہ سبحانہ تعالیٰ کا خاص رحم و کرم ہوتا ہے، وہ گھر رحمتوں اور خوشیوں سے مالا مال ہوتا ہے۔بیٹیاں ماں باپ کی ہمدرد وغم گسار ہوتی ہیں، شان اُن کا بھروسہ ہوتی ہیں، بیٹیوں سے ہی گھروں میں رونق ہوتی ہے۔آپ صلی اللہ علیہ وسلم فرماتے ہیں جب کسی کے گھر بیٹی ہوتی ہے تو اللّٰہ سبحانہ تعالیٰ فرماتا ہے: اے لڑکی! تو زمین پہ اُتر ،میں تیرے باپ کی مدد کروں گا ،سبحان اللّٰہ! یہی عورت بہن کے روپ میں دعا کی طرح ہے، جو ہر حال میں اپنے بھائی بہنوں کے لئے خیر وعافیت چاہتی ہے، ہر مشکل وقت میں ڈھال کی طرح سامنے آتی ہے ،جو وقت آنے پر ساری دنیا سے بھائی کے حق میں لڑ بھڑجاتی ہے۔ عورت دوست بن کر اوروں کی ہمدرد و ہمراز ہوتی ہے۔انہی وجوہ سے عورت احساسات کا مکمل پیکر ہے اور خوب صورت عطیہ الہٰیہ ہے۔اکثر لوگ کہتے ہیں عورت کو سمجھنا ناممکن ہے ، ے شک ناممکن ہے کیونکہ عورت مجسمِ احساس ہے اور ہر احساس کو سمجھنے کے لئے احساس کا ہونا ضروری ہے ،اور یہ ہر ایک کے پاس نہیں ہوتا۔عورت کے احساس تو اندردُھنش کے رنگوں کی طرح خوبصورت ہوتے ہیں، عورت اوس کے بوندوں کی طرح چنچل اور پاکیزہ ہوتی ہے جو بے چاری دنیا کی گردوغبار میں گم ہوکر اپنی پہچان کھونے لگتی ہے۔عورت پھولوں کی خوشبو جیسی ہے جس کے دلکش رنگوں اور خوشبووں سے کائنات مہکتی ہے، عورت چاندنی ہے جو اوروں کو روشن کر کے خود کو گمنام ہوتی ہے، عورت پانی کے بلبلے جیسی نرم ونازک بھی ہے جو ایک تلخ لہجہ سے ٹوٹ جاتی ہے اور وہیں عورت رضیہ سلطانہ جیسی دلیر بھی ہوتی ہے۔عورت کو دل سے سمجھنا چاہو تو آسان کھلی کتاب ہے، ورنہ ان سلجھی پہیلی اور سمندر سے بھی گہری ہے جس کی خوبیوں اور اچھائیوںکا اندازہ آج تک کوئی نہیں لگاسکا۔