جموں وکشمیر کے ہر بالغ بشر کے ذہن و قلب میں آج بھی یہ بات تروتازہ ہے کہ چار سال قبل جب مرکزی حکومت کی طرف سے یہاں کی سیاسی صورت حال کو تلپٹ کیا گیا اور غیر معمولی تغیر و تبدل کے تحت یونین ٹریٹری کی شکل دے کر موجودہ گورنر ی حکومت نے اقتدار سنبھالا تو جموں و کشمیر کے عوام کو یقین دلایا گیا تھا کہ اب اْن کے تمام مسائل حل کئے جائیں گے اور اْنہیں اْن مشکلات سے نجات دلائی جائے گی جن میں وہ طویل نامساعد حالات کے دوران شکار ہوچکے ہیںاورجنہیں یہاں کی مخلوط سیاسی حکومتیں بھی اپنے دورِ اقتدار میں نجات دلانے میں ناکام رہی ہیں۔ مرتا کیا نہیں کرتا کے مصداق جموں و کشمیر کے عوام میں موجودہ حکومت کی ان یقین دہانیوں پر اطمینان کا اظہار کیا جانے لگااورپھر انہیں گورنری سرکار پر اعتماد بحال ہونے لگا تھا کیونکہ ابتدائی طور پر موجودہ سرکار نے واقعی کچھ ایسے اقدامات کئے ،جن سے لوگوں کو کچھ سہولتیںمیسر ہوئیںاورجب امن و امان کا مسئلہ کافی حد تک بحال ہوا تو لوگ سرگرمی کے ساتھ اِس سرکار کی اْن کوششوں میں تعاون کرنے لگے جو وہ لوگوں کو درپیش مسئلے حل کرنے کے لئے کررہی تھی۔لیکن جموں وکشمیر کی بدقسمتی سے یہ صورت حال برقرار نہیں رہی اور لوگوں کے مسائل حل کئے جانے کی اْمیدیںوقت گذرنے کے ساتھ ساتھ پھر نااْمیدی میں تبدیل ہونے لگیں،کیونکہ گذشتہ چار سال کے دوران بھی لوگوں کے وہ اہم بنیادی مسائل دور نہیں ہوسکے جو انہیں سابق مخلوط حکومتوںکے دوران لاحق ہوگئے تھے۔چونکہ جموں و کشمیر خصوصاً وادی میں ایک طویل مدت سے جو صورت حال پیدا ہوگئی ہے ،اْس میں لوگوں کے لئے بے شمار مسائل پیدا ہوگئے ہیں۔ان مسائل میں جن بڑے مسائل کو اہم قرا ر دیا جاتا ہے،اْن میں روز گارکے حصول کا مسئلہ سر فہرست ہے۔اقتصادی ترقی کا مسئلہ ہے،بجلی اور پانی کی عدم دستیابی کا مسئلہ بھی پیچیدہ رْخ اختیار کرنے کا ہے،نقلی ادویات اور منشیات کے کاروبار کا عروج پر پہنچنے کا مسئلہ ہے،بڑے پیمانے پرمہنگائی کا مسئلہ ہے،لوگوں کے ساتھ انصاف کا مسئلہ ہے جبکہ عوام کو ایک صاف ستھری اور بدعنوانیوں سے پاک سرکاری انتظامیہ کی فراہمی کا مسئلہ بھی انتہائی اہمیت کا حامل ہے۔یہ وہ مسئلے ہیںجو موجودہ سرکار ہی حل کرسکتی ہے۔چنانچہ سرکار کی طرف سے ان مسائل کو حل کرنے کا کام سرکاری انتظامیہ پر ڈال دیا جاتا ہے اور سرکاری انتظامیہ پر یہ ذمہ داری عائد ہوتی ہے کہ لوگوں کو درپیش ان بنیادی نوعیت کے مسئلے بالکل منصفانہ ،دیانتدارانہ اور غیر جانبدارانہ بنیادوں پر حل ہوں۔لیکن بغور دیکھا جائے تو سرکاری انتظامیہ کی طرف سے ایسا سب کچھ نہ آج تک ہوتا آیا ہے اور نہ آج ہورہا ہے۔ ایسا کرنے کے لئے سرکاری انتظامیہ میں کوئی واضح تبدیلی بھی نہیں لائی گئی اور نہ ہی کارکردگی کے معیار میں کوئی بہتری دکھائی دیتی ہے۔یہاں اس بات کا ذکر کرنا ضروری ہے کہ موجودہ گورنر سرکار میں لوگوں کو عالمی وبائی بیماری کورونا قہر کا بھی شکار ہونا پڑا ۔اگرچہ اْس موقعہ پر سرکاری انتظامیہ نے اپنے تما م وسائل بروئے کار لاکر راحت اور بچائو کاروائیوں میں کوئی کسر نہیں چھوڑی،لیکن جموں و کشمیر کے دور دراز علاقوں میں سرکاری انتظامیہ کی کارکردگی صاف و پاک نہ رہی،بلکہ مختلف قصبوں میں معیار بالکل ناقص رہا جس کے نتیجے میں کئی لوگوںکو مناسب وقت پر طبی امداد کی عدم دستیابی کے باعث جانی نقصان بھی اٹھانا پڑا۔الغرض سرکاری انتظامیہ کی طرف سے جاری اپنی اس روایتی کارکردگی سے لوگوں کے مسائل حل نہیں ہورہے ہیںبلکہ زیادہ تر مسائل میں دن بہ دن اضافہ ہورہا ہے جن سے عام لوگوں میں موجودہ سرکاری انتظامیہ کے تئیں مایوسی پھیل گئی ہے اور بہت سے لوگ بے اطمینانی میں مبتلا ہورہے ہیں۔اس میں کوئی دورائے نہیں کہ وادی میں بے روزگاری ایک ایسا مسئلہ ہے جس سے سماجی طور پر بہت سارے مسائل پیدا ہورہے ہیں۔اسی طرح سردیوں کے ان ایام میں بجلی کی عدم دستیابی کا مسئلہ ہے ،جس پر قابو پانے کے لئے ٹھوس منصوبہ بندی کی ضرورت ہے،جس کے تاحال کوئی آثار کہیں بھی نظر نہیں آرہے ہیں۔آج بھی سرکاری انتظامیہ کا ایک بڑا حصہ ،جوکہ بدعنوانیوں کا عادی ہوچکا ہے بدستور اپنی بد اعمالیوں اور کالی کرتوتوں پر پردہ ڈالتا رہتا ہے،جس کے نتیجے میں تقریباً سارے سرکاری شعبوں میں روایتی پالیسیوں میں کوئی تبدیلی نہیں آسکی ،اسی طرح جس ورک کلچر کا ڈھنڈورا پیٹا جارہا تھا ،وہ بھی وقت گذرنے کے ساتھ ساتھ ٹائیں ٹائیں فِش ہوتا نظر آرہا ہے۔اس صورت حال میں لوگوں کے مسائل حل کرنے کے لئے موجودہ یو ٹی سرکار کے منصوبے ،پروگرام ،حکمت ِ عملیاں سب کچھ دھری کے دھری دکھائی دے رہی ہیں ، لوگوں کے مسائل حل نہیں ہوپاتے ہیںاور اصلاح و احوال کی کوئی صورت نظر نہیں آتی۔