سرینگر//پیپلز کانفرنس چیئرمین سجاد غنی لون نے ایک بار پھر دہرایا کہ 2014اسمبلی انتخابی نتائج ظاہر ہونے کے بعد عمر عبداللہ حکومت سازی کیلئے طریقہ کا ر پر تبادلہ خیال کی خاطر بی جے پی کی اعلیٰ قیادت سے ملے۔ انہوں نے کہا کہ انہیں معلو م ہے کہ عمر عبداللہ نے اْنہیں کیا کہا ہے اور وہ صرف حقیقت بیان کررہے ہیں۔ اْن کا کہناتھا’’یہ حقیقت ہے کہ عمر عبداللہ بی جے پی کی اعلیٰ قیادت سے ملے اور ان کے ساتھ تفصیل سے حکومت سازی پر تبادلہ خیال کیا۔عمر عبداللہ کو یہ مشکل درپیش ہے کہ اس میٹنگ کے کئی گواہ موجود ہیں۔عمر عبداللہ اْس وقت بی جے پی کی جانب سے ایسی کسی بھی ملاقات سے انکار کے تردیدی بیان کے پیچھے نہیں چھپ سکتے اور نہ ہی یہ حقیقت بدل سکتی ہے کہ میٹنگ ہوئی ہے۔جب سیاسی جماعتوں کے درمیان بات چیت چل رہی ہو تو ایسے انکار معمول ہوتے ہیں‘‘۔یہ عمر عبداللہ کی مرضی ہے کہ وہ کس کے ساتھ اتحا دکرے لیکن چونکہ انہوں نے اپنی ساری الیکشن مہم میں اپنے آپ کو بی جے پی کے خلاف تنہا سپاہی کے طور پیش کیا تو ان کے بیانات سے غیر مبہم طور پر یہ تاثر ملا کہ بی جے پی کے ساتھ اتحاد کرنا سیاسی گناہ ہے تاہم حقیقت جو عیاں ہوئی ،وہ یہ ہے کہ عمر عبداللہ کوئی مجاہد یا سپاہی نہیں بلکہ ایک مرطوب اور مسترد شدہ عاشق کی طرح برتائو کررہے ہیں۔اْن کابی جے پی کے گناہ کے ساتھ معاشقہ تھا اور اس گناہ میں شریک ہونے کی خواہش رکھتے تھے تاہم انہیں مسترد کردیا گیا۔کشمیری عوام کو یہ جاننے کا حق ہے کہ یہ شخص جوہمیں بی جے پی کی برائیوں کے خلاف وعظ فرماتا تھا،تو 1999کی طرح 2014میں بھی ان کے ساتھ اتحا دکرنے میں کوئی قباحت یا شرم محسوس نہیں ہورہی تھی‘‘۔یہ گناہ کا مرتکب نہ ہونے کی عمر عبداللہ کی بے گناہی ہے جوگناہ کرنے کا مرتکب ہونے پر گناہگار ہونے کی بجائے عمر عبداللہ کوستارہی ہے۔میٹنگ میں شامل تمام مہمانوں کی فہرست اپنے پاس ہونے کا دعویٰ کرتے ہوئے سجاد غنی لو ن نے کہا کہ بات اس حد تک آگے بڑ ھ چکی تھی کہ بی جے پی اور این سی سے تعلق نہ رکھنے والے ممبران کے حمایتی خطوط بھی حاصل کئے جاچکے تھے۔انہوںنے کہا’’وہ کتنا جھوٹ بولیں گے؟ اور اس سچائی کو چھپانے کیلئے انہیں مزید اور کتنے جھوٹ بولنے پڑیں گے؟۔اگر عمرعبداللہ کی یاداشت کمزور یا چنندہ ہے تو مجھے انہیں اس ڈیل کی کڑیوں کی یاد دہانی کرانے دیں۔یہ کوئی سرکاری بنگلہ نہیں بلکہ ایک فلیٹ تھاتاکہ میٹنگ کو صیغہ راز میں رکھا جاسکے۔یہ کناٹ پیلس کے علاقہ میں تھا۔وہاں کم از کم ایک اور کشمیری تھا جو آپ کی جماعت سے تعلق نہیں رکھتا تھا ‘‘۔