‘‘ حضرت عبد اﷲ بن جعفر طیار ؓ عمرو بن سعید کے پاس گئے اور اُس سے فرمایا : ’’ حضرت حسین بن علی رضی اﷲ عنہ کو ایک خط لکھو جس میں انہیں امان دینے کا اور اُن کے ساتھ نیکی اور احسان کرنے کا وعدہ ہو اور اُن کو لکھو کہ واپس چلے آئیں ۔ شاید اُن کو تمہارے خط سے اطمینان ہو جائے اور وہ اُس راہ سے پلٹ آئیں ۔‘‘ عمرو بن سعید بن عاص نے کہا : ’’ جو آپ ؓکا جی چاہے لکھ کر لے آئیں ، میں اُس پر مہر کر دوں گا ۔ ‘‘عبد اﷲ بن جعفر طیار ؓ نے خط لکھ کر دیا اور فرمایا : ’’ اِس پر مہر لگا کر اپنے بھائی یحییٰ بن سعید بن عاص کے ہاتھ سے روانہ کرو کیونکہ اُس کے جانے سے اُ ن کو اطمینان ہو جائے گا اور وہ سمجھ جائیں گے کہ جو کچھ تم نے لکھا ہے ،دل سے لکھا ہے ۔‘‘ عمرو بن سعید بن عاص مکۂ مکرمہ میں یزید کی طرف سے گورنر تھا اُس نے ایسا ہی کیا اور حضرت عبد اﷲ بن جعفر طیار اور یحییٰ دونوں حضرت حسین بن علی رضی اﷲ عنہ کے پاس پہنچے ۔یحییٰ نے خط دیا اور دونوں شخصوں نے واپسی پر بہت اصرار کیا ۔ حضرت حسین بن علی رضی اﷲ عنہ نے فرمایا : ’’ میں نے میرے نانا جان رسول اﷲ صلی اﷲ علیہ وسلم کو خواب میں دیکھا ہے اور انہوں نے جو حکم مجھے دیا ہے میں اُسے پورا کرنے جا رہا ہوں ۔ مجھے اِس سے کوئی غرض نہیں ہے کہ میرا نفع ہوتا ہے یا نقصان ۔‘‘ دونوں نے پوچھا : ’’ وہ خواب کیا ہے ؟‘‘ آپ رضی اﷲ عنہ نے فرمایا : ’’ میں نے اسے کسی سے بیان نہیں کیا اور نہ ہی کسی سے آگے بیان کروں گا یہاں تک کہ اﷲ تعالیٰ سے ملاقات کر لوں گا۔‘‘علامہ عماد الدین ابن کثیر لکھتے ہیں : حضرت عبد اﷲ بن جعفر رضی اﷲ عنہ نے آپ ؓ کو خط لکھا اور آپ رضی اﷲ عنہ کو اہل عراق کے متعلق انتباہ کیا اور اﷲ کا واسطہ دیا کہ اُن کی طرف نہ جائیں ۔حضرت حسین بن علی رضی اﷲ عنہ نے آپ ؓ کو جواب میں لکھا : ’’ میں نے ایک خواب دیکھا ہے اور میں نے اپنے نانا جان رسول اﷲ صلی اﷲ علیہ وسلم کا دیکھا ہے کہ آپ صلی اﷲ علیہ وسلم نے مجھے ایک حکم دیا ہے اور میں اُسے کر گزرنے والا ہوں اور میں اِس خواب کے متعلق کسی کو نہیں بتاؤں گا یہاں تک کہ میں اپنے اﷲ سے ملاقات کروں۔‘‘
حضرت حسین بن علی رضی اﷲ عنہ مکۂ مکرمہ سے کوفہ کی طرف روانہ ہوئے تو یزید کو اِس کی خبر مل گئی کیونکہ اُس نے دمشق سے مکۂ مکرمہ تک ہر منزل پر اپنے آدمیوں کو مقرر کر رکھا تھا جو حضرت حسین بن علی رضی اﷲ عنہ کی ہر حرکت کے بارے میں اطلاع کرتے رہتے تھے ۔یزید نے کوفہ اور بصرہ کے گورنر عبید اﷲ بن زیاد کو حضرت حسین بن علی رضی اﷲ عنہ کے بارے میں حکم دیا ۔علامہ عماد الدین اسماعیل بن کثیر لکھتے ہیں : یزید نے عبید اﷲ بن زیاد کو لکھا : ’’ مجھے اطلاع ملی ہے کہ حسین بن علی ؓ کوفہ کی طرف روانہ ہو چکے ہیں اور زمانوں میں سے تمہارے زمانے کو اور شہروں میں سے تمہارے شہر کو اور اُمراء ( گورنروں ، حاکموں) میں سے تجھ سے اُن کا پالا پڑگیا ہے ۔اب اِس موقع پر تُو آزاد ہو جائے گا یا پھر غلاموں کی طرح دوبارہ غلام بن جائے گا ۔‘‘ ایک اور روایت میں ہے کہ یزید نے عبید اﷲ بن زیاد کو لکھا : ’’ مجھے معلوم ہوا ہے کہ حسین بن علی ؓ عراق کی طرف روانہ ہو چکے ہیں ۔پس دیکھنے کی جگہیں اور میگزین تیار کرو اور محفوظ رہو اور تہمت پر قید کرو اور پکڑو اور جو تجھ سے جنگ کرے صرف اُسے قتل کرو اور جو صورت ِ حال پیدا ہو اُس کے متعلق مجھے لکھو ۔والسلام ۔‘‘
حضرت حسین بن علی رضی اﷲ عنہ مسلسل کوفہ کی طرف رواں دواں تھے اور ادھر کوفہ میں عبید اﷲ بن زیاد اپنے حکمراں یزید کے حکم کے مطابق آپ رضی اﷲ عنہ کو روکنے کے لئے اپنے سپاہیوں اور پولیس افسروں کا بھیج رہا تھا ۔اِسی دوران مقام ’’زبالہ‘‘ میں حضرت حسین بن علی رضی اﷲ عنہ کو حضرت مسلم بن عقیل رضی اﷲ عنہ کا پیغام ملا کہ آپ رضی اﷲ عنہ واپس چلے جائیں ۔علامہ محمد بن جریر طبری لکھتے ہیں : محمد بن اشعث نے ایاس طائی کو جو کہ قبیلہ بنو طے کا ایک شاعر تھا اور اُس کے پاس بہت آیا جایا کرتا تھا ۔اُس سے کہا : ’’ تم حضرت حسین بن علی رضی اﷲ عنہ کے پاس روانہ ہو جاؤ اور یہ خط اُن تک پہنچا دو ۔‘‘ خط میں جو جو باتیں حضرت مسلم بن عقیل رضی اﷲ عنہ نے شہید ہونے سے پہلے فرمائی تھیں وہ سب اُس نے لکھ دیں اور کہا: ’’ لو یہ زاد راہ ہے اور یہ سامان ِ سفر ہے اور یہ تمہارے اہل و عیال کے لئے ہے ۔‘‘ ایاس نے کہا : ’’ میرے پاس اونٹ بھی نہیں ہے کیونکہ میرا اونٹ بہت بوڑھا ہو چکا ہے ۔‘‘ محمد بن اشعث نے اسے ایک اونٹ پالان سمیت دیا اور حکم دیا کہ جلد از جلد حضرت حسین بن علی رضی اﷲ عنہ تک یہ خط پہنچا دو ۔ ایاس تیزی سے روانہ ہوا اور چار دن کا سفر کر کے مقام ’’زبالہ‘‘ پر حضرت حسین بن علی رضی اﷲ عنہ سے جا کر ملا اور وہ خط آپ رضی اﷲ عنہ کو دے دیا ۔حضرت حسین بن علی رضی اﷲ عنہ نے خط پڑھا اور فرمایا : ’’ جو مقدر میں ہونے والا ہے وہ ہو گا اور اپنی اپنی جانوں کے تلف ہونے اور قوم کی برائی کرنے کو ہم نے اﷲ تعالیٰ پر چھوڑ رکھا ہے ۔‘‘ اِس کے بعد آپ رضی اﷲ عنہ آگے روانہ ہو گئے ۔ ادھر عبید اﷲ بن زیاد نے حکم دیا کہ ملک شام اور بصرہ اور کوفہ تک کے راستوں کی ناکہ بندی کر دی جائے اور کسی کو اِس راستے سے آنے اور جانے نہیں دیا جائے ۔ حضرت حسین بن علی رضی اﷲ عنہ کو اِن باتوں کی مطلق خبر نہیں تھی اور وہ اسی طرف آر ہے تھے ۔راستے میں کچھ اعرابی (دیہاتی) ملے ۔آپ رضی اﷲ عنہ نے اُن سے حالات معلوم کئے تو انہوں نے بتایا کہ ہمیں تو کچھ نہیں معلوم سوائے اِس کے کہ ہم کہیں آ جا نہیں سکتے ہیں ۔علامہ عبد الرحمن بن خلدون لکھتے ہیں : عبید اﷲ بن زیاد کو حضرت حسین بن علی رضی اﷲ عنہ کی روانگی کا حال معلوم ہوا تو اُس نے محکمہ پولیس کے سربراہ حصین بن نمیر تمیمی کو روانہ کیا ۔اُس نے مقام ’’قادسیہ‘‘ پر پہنچ کر پڑاؤ ڈال دیا اور اپنے سواروں یعنی پولیس والوں کو قادسیہ سے خفان تک ایک جانب اور قادسیہ سے قطفطانہ اور کوہ لعلع تک دوسری جانب پھیلا دیا ۔
حضرت حسین بن علی رضی اﷲ عنہ کوفہ کی طرف آرہے تھے اور آپ رضی اﷲ عنہ کو روکنے کے لئے ہر طرف سے ناکہ بندی کر لی گئی تھی ۔راستے میں ایک مقام ’’حاجر‘‘ پر آپ رضی اﷲ عنہ نے قیام کیا اور کوفہ والوں کے نام ایک خط لکھ کر اپنے قاصد کے ذریعے روانہ کیا ۔علامہ محمد بن جریر طبری لکھتے ہیں : عبید اﷲ بن زیاد کو جب معلوم ہوا کہ حضرت حسین بن علی رضی اﷲ عنہ کوفہ کی طرف آرہے ہیں تو اُس نے اپنے پولیس کے سربراہ حصین بن نمیر کو روانہ کیا ۔وہ قادسیہ میں اُترا اور آس پاس کے تمام علاقوں کی ناکہ بندی کر لی ۔لوگوں نے یہ دیکھ کر کہا کہ یہ حضرت حسین بن علی رضی اﷲ عنہ کی عراق کی طرف آمد کا اشارہ ہے ۔بطن الرمہ میں جو مقام ’’حاجر‘‘ ہے وہاں پہنچ کر حضرت حسین بن علی رضی اﷲ عنہ نے اہل کوفہ کو ایک خط لکھا اور اپنے قاصد حضرت قیس بن مسہر صیدادی کے ہاتھ روانہ کیا :’’ بسمہ اﷲ الرحمن الرحیم ! (حضرت) حسین بن علی (رضی اﷲ عنہ) کی طرف سے اُن کے برادران ایمانی اور اسلامی کو اسلام و علیکم ! میں تم سے اﷲ کی حمد کرتا ہوں جس کے سوا کوئی معبود نہیں ہے ۔ حضرت مسلم بن عقیل رضی اﷲ عنہ کا خط مجھے ملا ۔تم لوگوں کے حسن عقیدہ اور تم سب کی مدد پر اور میرے حق کی طلب پر متفق ہونے کا حال معلوم ہوا ۔میں اﷲ سے دعا کرتا ہوں کہ ہم پر احسان کرے اور تم لوگوں کو اِس بات کا اجر عظیم دے ۔میں تمہارے پاس آنے کے لئے آٹھ (۸) ذی الحجہ کو مکۂ مکرمہ سے روانہ ہو چکا ہوں ۔جب میرا قاصد تمہارے پاس پہنچے تو اپنے کام میں جلدی کرو اور کوشش کرو ۔میں انہیں دنوں میں تمہارے پاس انشاء اﷲ آجاؤں گا ۔والسلام علیکم و رحمتہ اﷲ و برکاتہ۔‘‘
حضرت حسین بن علی رضی اﷲ عنہ کے قاصد حضرت قیس بن مسہر صیدادی جب کوفہ پہنچے تو انہیں گرفتار کر کے عبید اﷲ بن زیاد کے سامنے پیش کیا گیا ۔علامہ محمد بن جریر طبری لکھتے ہیں : حضرت حسین بن علی رضی اﷲ عنہ کا خط لیکر حضرت قیس بن مسہر صیدادی رضی اﷲ عنہ کوفہ روانہ ہوئے ۔ جب قادسیہ پہنچے تو حصین بن نمیر نے آپ کو گرفتار کر لیا اور عبید اﷲ بن زیاد کے پاس بھیج دیا ۔ عبید اﷲ بن زیاد نے اُن سے کہا : ’’ قصر (محل) پر چڑھ جا اور کذاب کو سب و شتم کر ۔‘‘ حضرت قیس بن مسہر چڑھ گئے اور بلند آواز سے فرمایا : ’’ اے لوگو ! حضرت حسین بن علی رضی اﷲ عنہ مخلوق میں اِس وقت سب سے بہتر ہیں ۔ سیدہ فاطمہ زہرہ رضی اﷲ عنہا جو رسول اﷲ صلی اﷲ علیہ وسلم کی بیٹی ہیں اُن کے بیٹے ہیں اور میں اُن کا قاصد بن کر تمہارے پاس آیا ہوں ۔میںنے مقام ’’حاجر‘‘ پر اُن کو چھوڑا ہے ۔تم سب اُن کی نصرت کے لئے جاؤ ۔‘‘ اتنا فرما کر حضرت قیس بن مسہر صیدادی رضی اﷲ عنہ نے عبیداﷲ بن زیاد اور اُس کے باپ پر لعنت کی اور سب و شتم کیا اور حضرت علی بن ابی طالب رضی اﷲ عنہ کے لئے طلب مغفرت کی ۔عبید اﷲ بن زیاد نے سپاہیوں کو حکم دیا کہ اُن کو نیچے پھینک دو ۔حضرت قیس بن مسہر صیدادی رضی اﷲ عنہ کو نیچے پھینک دیا گیا ۔آپ رضی اﷲ عنہ کے ہاتھ پیر ٹوٹ گئے اور سر میں ایسی چوٹ آئی کہ آپ رضی اﷲ عنہ شہید ہو گئے ۔ علامہ عماد الدین اسماعیل بن کثیر لکھتے ہیں: عبید اﷲ بن زیاد نے اُن نے کہا: ’’ محل کی چوٹی پر چڑھ کر (نعوذباﷲ) کذاب بن کذاب علی بن ابی طالب اور اُن کے بیٹے حسین کو (نعوذ باﷲ) گالیاں دو ۔‘‘ حضرت قیس بن مسہر صیدادی رضی اﷲ عنہ محل پر چڑھے اور بلند آواز سے فرمایا:’’ اے لوگو ! بے شک حضرت حسین بن علی رضی اﷲ عنہ اﷲ کی مخلوق میں اِس وقت سب سے بہترین آدمی ہیں اور وہ رسول اﷲ صلی اﷲ علیہ وسلم کی بیٹی سیدہ فاطمہ زہرہ رضی اﷲ عنہا کے بیٹے ہیں اور میں تمہاری طرف اُن کا ایلچی (قاصد) ہوں اور میں وادیٔ ذوالرحمۃ کی بلند جگہ پر اُن سے جدا ہوا ہوں ۔وہ آرہے ہیں ،انہیں جواب دو اور اُن کی سمع و طاعت کرو ۔‘‘ پھر انہوں نے عبید اﷲ بن زیاد اور اُس کے باپ پر لعنت کی اور حضرت علی بن ابی طالب اور حضرت حسین بن علی رضی اﷲ عنہم کے لئے بخشش طلب کی ۔عبید اﷲ بن زیاد کے حکم سے آپ رضی اﷲ عنہ کو محل کی چوٹی سے نیچے پھینک دیا گیا جس سے ہڈیاں ٹوٹ گئیں اور آخری سانس باقی رہ گئی تھی کہ عبد الملک بن عمیر بجلی نے تلوار سے گردن اُڑادی اور بولا : ’’ میں نے اسے تکلیف سے آرام دے دیا َ‘‘ بعض کا قول ہے کہ وہ شخص عبد الملک بن عمیر سے مشابہ تھا ۔ایک روایت میں ہے کہ جو شخص حضرت حسین بن علی رضی اﷲ عنہ کے قاصد تھے آپ رضی اﷲ عنہ کے رضاعی بھائی عبد اﷲ بن یقطر تھے ۔واﷲ و اعلم۔ ……………………………………(جاری)
��������