کولگام //جاں بحق حزب جنگجووں داوﺅد علائی عرف داوﺅد خان کی ماں اپنے بیٹے کی میت بھی نہیں دیکھ سکی کیونکہ وہ دماغی نس پھٹنے کی وجہ سے سرینگر کے صدر اسپتال میں زندگی کی جنگ لڑ رہی ہے۔ داﺅوخان کی ماں کی دماغی نس دواﺅد کے مارے جانے سے 6گھنٹے قبل پھٹ گئی جبکہ اس کا بیٹا داوود رات کے دوران جھڑپ میں جاں بحق ہوگیا۔ 48سالہ عتیقہ بانو اسوقت اچانک بے ہوش ہوگئی جب اتوار کی شام اچانک داوود اپنی ماں سے ملنے آیا تھا۔عتیقہ کوجہاں ضلع اسپتال اننت ناگ میں دماغ کی نس پھٹنے کیلئے داخل کیا گیا تھا مگردوسری جانب کھڈونی میں جھڑپ کے دوران اس کے بیٹے کے مارنے کی خبر پھیل گئی تھی۔ بیٹے کی موت سے بے خبر داﺅود کے ماں کی حالت مزید خراب ہوگئی جب آورہ قیمو میںاسکے بیٹے کے آخری رسومات انجام دی جارہی تھی۔ عتیقہ کو فوراًسرینگر کے صدر اسپتال منتقل کیا گیا جہاں ڈاکٹروں کا کہنا ہے کہ اسکی حالت کافی نازک ہے۔ داﺅود کے رشتہ داروں کا کہنا ہے کہ عتیقہ سال 2012سے ہی مختلف امراض میں مبتلا تھی جب داﺅود کو پہلی مرتبہ چار سال کیلئے گرفتار کیا گیا ۔ رشتہ داروں نے بتایا کہ 23سالہ داﺅد جب جنگجووں کے صفوں میں شامل ہوگیا تو اسکی حالت مزید خراب ہوگئی۔ وہ اپنے بیٹے کو دن رات یاد کرتی تھی جبکہ داﺅود نے خطرہ اٹھایا اور اپنی ماں کو دیکھنے اتوار کی شام 7بجے ملنے آیا تھا مگر اسکو معلوم نہیں تھا کہ وہ اسکی اپنی ماں کے ساتھ آخری ملاقات ہے۔ رشتہ داروں نے بتایا کہ داوود مارچ سے ابتک صرف دو یا تین مرتبہ گھر ماں سے ملنے آیا تھا۔ رشتہ داروں نے بتایا کہ جوں ہی اس نے اپنے بیٹے کو دیکھا تو وہ بے ہوش ہوگئی ،جس کے بعد اس کو اسپتال منتقل کیا گیا ۔ رشتہ داروں نے بتایا کہ ماں کی حالت سے پریشان داﺅود اسوقت چلاگیا جب رشتہ داروں نے اسے یقین دلایا کہ اسکے ماں کی حالت اب بہتر ہے۔ مقامی لوگوں نے بتایا کہ داوود کے اہل خانہ کو رات کے وقت ہی داﺅود کے مارے جانے کی خبر سنا دی گئی۔ ایک ہمسایہ نے نام ظاہر نہ کرنے کی شرط پر بتایا ” جوں ہی کھڈونی کے نجی سکول کے صحن میں داﺅود کے مارے جاننے کی خبر ملی تو اسکے رشتہ دار داﺅد کی لاش لانے رات کو ہی گئے جبکہ چند رشتہ دار داﺅود کی ماں کی تیمارداری کیلئے اسپتال میں ہی رکے رہے۔ داوﺅد کی دونوں بہنےں اسکی میت پر آنسوں بہا رہی تھیں۔ داﺅود کی دنوں بہنیں چلا رہی تھی ” ماں دیکھوں داﺅود تمہیں ملنے آیا ہے۔“ داﺅود کے والد سال 1998میں درخت سے گرنے کی وجہ سے فوت ہوگئے تھے۔ داوﺅد اپنے پیچھے دو بھائیوں ،ماں اور دو بہنوں کو چھوڑ گیا۔ داوود کے گھر والوں نے بتایا کہ پولیس اور فوج نے داوﺅد کو عسکریت میں شامل ہونے سے قبل کافی تنگ کیا تھا۔ انہوں نے کہا ”8فروری 2012کو داﺅود کو فورسز اہلکاروں نے اپنے دو دوستوں یونس احمد لون آوورہ مشپورہ اور رمیز احمد ڈار ساکنہ رڈونی گھاٹ کو مقامی سرپنچ کی ہلاکت کے سلسلہ میں حراست میں لیا تھا۔ انہوں نے کہا کہ تینوں نوجوانوں کو امنو کلگام میں قائم ایس او جی کیمپ میں رکھا گیا تھا جہاں فورسز اہلکار لگاتار 48دن تک انکو اذیتیں دیتے رہے اور بعد میں چار سال تک سرینگر کے سینٹرل جیل میں رکھا گیا اور سال 2016کے آغاز میں رہا کیا گیا ۔ داﺅود کے اہلخانہ نے بتایا کہ فورسز ہمیشہ اسے تنگ کررہے تھے جب کہیں پر بھی کچھ ہوتا تھا تو فورسز اہلکار اسکو اٹھاتے تھے اور اذیتیں دیتے تھے۔ انہوں نے کہا کہ یونس اور رمیس نے رہائی کے فوراًبعد جنگجووں کے صفوں میں شمولیت اختیار کی جبکہ داوﺅد نے امسال مارچ میں جنگجووں کے ساتھ شمولیت اختیار کرلی۔ یونس امسال فروری میں کولگام کے فریصل علاقے میںمارا گیا جبکہ داﺅود سوموار کو مارا گیا۔تینوں دوستوں میں اب صرف رمیس ہی زندہ ہے۔ داوﺅد کے بھائی بشیر احمد نے بتایا کہ داﺅﺅد کو صورہ میدیکل انسٹیچوٹ میں کئی جراحیوں سے گزرنا پڑا کیونکہ ٹارچر سے داﺅود کو کافی نقصان پہنچا تھا جبکہ یونس بھی جسمانی طور پر ٹھیک نہیں تھا جسکی وجہ سے وہ دوران علاج ہی جھڑپ میں مارا گیا ۔ بشیر احمد نے کہا کہ تینوں دوستوں کو سرپنچ کے قتل میں فرضی طور پر پھنسایا گیا ۔ بشیر احمد نے بتایا کہ داوﺅد پڑھائی میں کافی ذہین تھا مگر وہ 12ویں کے بعد پڑھائی جاری نہیں رکھ سکا کیونکہ وہ جیل میں تھا اور بعد میں جنگجووں کے صفوں میں شامل ہوگیا ۔