ادھم پور// علیحدگی پسندوں کو ہدف تنقید بناتے ہوئے ریاستی وزیراعلیٰ محبوبہ مفتی نے الزام عائد کیا کہ وہ وادی میں سکولوں کو اس لئے کام کرنے کی اجازت نہیں دے رہے ہیں کیونکہ وہ ناخواندہ جوانوں کی نئی نسل چاہتے ہیں جو پتھر پھینکنے کے علاوہ توپ کی رسد کے طور استعمال ہوسکیں۔ انہوں نے کہا کہ علیحدگی پسند غریب کنبوں کے بچوں کوفوجی کیمپوں،پولیس تھانوں اور سی آر پی ایف کیمپوں پر حملہ کرنے کیلئے اکسا کران کااستحصال کررہے ہیں جبکہ ان کے اپنے بچے محفوظ ہیں۔پولیس آفیسروںکی پاسنگ آئوٹ پریڈ سے خطاب کرتے ہوئے محبوبہ نے علیحدگی پسندوں پر نشانہ سادھ کر کہا ’’اگر نوجوان تعلیم حاصل کریں تو وہ اُن کیلئے پتھر نہیں پھینکیں گے ۔ علیحدگی پسندلیڈر شپ ناخواندہ جوانوں کی ایک نسل چاہتی ہے جو ان کیلئے پتھر پھینک سکیں‘‘۔ان کا مزید کہناتھا’’آج میں دیکھتی ہوں کہ بڑے لیڈر سوچ رہے ہیں کہ اگر سکول کھلے تو غریب بچوں کو تعلیم ملے گی اور پھر ان کے پاس پتھر پھینکنے کیلئے وقت نہیں ہوگا یا وہ اس کیلئے تیار نہیں ہونگے‘‘۔مستقبل اور بچوں کی تعلیم کو ترجیح دینے والے لیڈروں کی ضرورت پر زور دیتے ہوئے انہوںنے کہا کہ ایسے لیڈر ہمیںنہیں چاہئیں جوبچوں کو توپ کی رسد کے طور استعمال کررہے ہیں۔ان کا کہناتھا’’تین ماہ سے ہمار ے سکول بند ہیں ۔ہم نے کوشش کی ،یہاں تک کہ دہلی نے بڑے وفود بھیجے‘‘۔محبوبہ کا مزید کہناتھا’’ہمارے وزیر داخلہ راجناتھ سنگھ تین بار یہاںآئے ۔ہمارے وزیر خزانہ وہاں گئے اور ایک کل جماعتی وفد بھی ان سے ملنے گیا تاہم انہوں نے اس وفد کیلئے دروازے بند کئے‘‘۔محبوبہ نے مزید کہا’’یشونت سنہا کی سربراہی والے وفد ،جنہوںنے کشمیر کا تین روزہ دورہ کل مکمل کیا ،کی گزارش کا جواب دو سکول جلانے سے دیا گیا‘‘۔وزیراعلیٰ نے کہا’’ایک سیول سوسائٹی وفد علیحدگی پسندوں سے ملنے گیا ۔ٹیم نے اُن سے گزارش کی کہ بچوں کیلئے سکولوں کے دروازے کھول دئے جائیں کیونکہ ان کا مستقبل تباہ ہورہا ہے اور خدا کیلئے سکولوں کوکھلنے دیں اور جواب دو سکولوں کے جلنے کی صورت میں آگیا‘‘۔وزیراعلیٰ نے الزام لگایا کہ علیحدگی پسندچاہتے ہیں کہ بچے زخمی ہوں اور تاکہ پارہ گرم رہ سکے ۔انہوں نے کہا’’وہ سوچتے ہیں کہ غریبوں کے بچوں کو مرنے دیں ۔کیا ہوگا اگر وہ زخمی ہوجائیں گے یا مر جائیں گے کیونکہ وہ امیروں کے بچے نہیں ہیں۔یہ ہمارے لئے بڑا چیلنج ہے کیونکہ اس وقت تک انہوںنے غریب بچوں کے ہاتھوں میں بندوق تھمادی ہے اور اب انہیں شیلڈ کے طور استعمال کررہے ہیں‘‘۔وزیراعلیٰ نے کہا’’زخمیوں یا مہلوکین میں سے 99فیصد چھوٹے بچے ہیں اور ایک بچہ بھی امیر گھرانے سے نہیں ہے ۔ان لیڈروں ایک بچہ بھی زخمی نہیں ہوا ہے بلکہ سارے غریبوں کے بچے ہی زخمی ہوئے ہیں‘‘۔انہوںنے کہا کہ پہلے علیحدگی پسندوں نے سوچا کہ ناخواندہ نوجوان ان کیلئے بندوق اٹھائیں گے تاہم نوجوانوں نے گزشتہ 25برسوں کے دوران اس بات کا احساس کیا ہے کہ بندوق سے کوئی مسئلہ حل نہیں ہوگا۔ان کا کہناتھا’’بچے بندوق اٹھانے کو اب تیار نہیں ہیں۔اب وہ ناخواندہ بچوں کی ایک نسل چاہتے ہیں جو ان کیلئے پتھر پھینک سکیں ،پتھر ہی نہ پھینکیں بلکہ اس عمل کے دوران اپنی جان بھی گنوائیں‘‘۔محبوبہ نے مزید کہا’’مجھے بتایا گیا کہ لڑکیاں سکول جانا چاہتی ہیں تاہم انہیں ڈر ہے کہ سنگ باز ان پر حملہ کرینگے جب وہ انہیں سفید وردی میں دیکھیں گے‘‘۔ پولیس اہلکاروں کی تعزیف کرتے ہوئے وزیراعلیٰ نے کہا’’میں ہمیشہ سے یہ کہتی آرہی ہوں کہ لوگ کسی بھی شئے سے زیادہ اہم ہیں اور پولیس کی وجہ سے انہیں احساس تحفظ مل پائے گا ۔خدا کے بعد اگر کوئی محافظ ہے تو وہ پولیس ہی ہے ۔جموں وکشمیر میں پولیس کو انتہائی مشکل صورتحال میں کام کرنا پڑااور انہیں کافی قربانیاں بھی دینا پڑیں‘‘۔انہوں نے کہا کہ پولیس کو انتہائی سخت رول نبھانا پڑا کیونکہ کئی دفعہ انہیں اپنے ہی پڑوسیوں اور رشتہ داروں سے نمٹنا پڑاکیونکہ انہیں ایک نظریاتی جنگ لڑنا پڑی اور وہ سب سے بڑا نشانہ بن گئے ۔محبوبہ نے کہا کہ ’’میرے والد ہمیشہ کہتے تھے کہ بھارت میں جمہوریت ہے ۔اس کا بڑا دل ہے جو جموں وکشمیر کی انفرادیت اور کثرت کو سما سکتا ہے اور یہی وجہ ہے کہ بھارت نے اپنے آئین میں جموں وکشمیر کو منفرد مقام عطا کیا اور وہاں دفعہ370رکھا‘‘۔انہوں نے مزید کہا’’جموں وکشمیربھارت کے اندر ایک چھوٹا بھارت ہے جہاں ہندو ،مسلم اور سکھ ایک ساتھ رہتے ہیں‘‘۔انہوں نے کہا کہ پولیس والدین کا رول نبھا رہے ہیں اور پولیس سے کہا کہ پتھرائو کرنے والے نوجوانوں کے ساتھ اپنے چھوٹے بھائیوں اور بہنوں کی طرح پیش آئیں۔ان کا کہناتھا’’سب سے بڑا چیلنج جو اس وقت ہمیں درپیش ہے ،وہ یہ ہے کہ 10سے30سا ل کی عمر کے درمیان والے بچے کسی ناراضگی کی وجہ سے پتھر پھینک رہے ہیںجبکہ ریاست میں25سال سے عسکریت بھی جاری ہے اور پولیس کی کوشش ہونی چاہئے کہ وہ مقامی جنگجو مین اسٹریم میں دوبارہ شامل ہوسکیں‘‘۔انسانی حقوق کی پامالیوں کا مسئلہ اٹھانے والوں کو ہدف تنقید بناتے ہوئے انہوں نے کہا کہ ایسے لوگ سوچ رہے ہیں کہ وہ انسانی حقوق کے چیمپن بن گئے ہیں ۔ان کا کہناتھا’’میں ایسے لوگوں کو بتانا چاہتی ہوں کہ جموں وکشمیر میں محبوبہ مفتی سے بڑا کوئی انسانی حقوق کارکن نہیں ‘‘۔انہوں نے کہا کہ انسانی حقوق کی صورتحال کا جائزہ لینے کیلئے انہوں نے ریاست کے ہر کونے کا دورہ کیا۔ان کا کہناتھا’’میں فیس بک پر بیٹھ کر وہاں تصاویر اپ لوڈ نہیں کرتی ہوں اور جب انہیں نئی تصاویر نہ ملیں تو وہ پرانی تصاویر کو ہی دوسری شکل دیکر اپ لوڈ کرتے ہیں۔میں ہر جگہ گئی ہوں ،یہاں تک جنگل بھی چھان مارے چاہئے وہ ہندوئوں کا قتل عام ہویا بانہال میں سیکورٹی فورسز کے ہاتھوں خواتین کی عصمت ریزی ہو یا پھر جنگجوئوں کے ہاتھوں ہندوئوں کا قتل یا چھٹی سنگھ پورہ میں سکھوں کا قتل عام ہو،میں ہر جگہ پہنچ گئی‘‘۔انہوں نے خواہش ظاہر کی کہ یہ فیس بک جہادی متاثرین کے گھرجائیں اور ان کی حالت زار خود دیکھ لیں۔انہوںنے کہا کہ گمراہ نوجوانوں کو واپس مین سٹریم میں لانا چیلنج ہے اور انہیں کونسلنگ اور محبت کی ضرورت ہے،نہ کہ شرپسندوں یا سنگ بازووںکا لیبل‘‘۔جنگ کو کوئی آپشن نہ قرار دیتے ہوئے وزیراعلیٰ محبوبہ مفتی نے کہا کہ پاکستان کو بھارت کے ساتھ امن قائم کرنے کی پہل کرنی چاہئے اور ذمہ داری پاکستان پر عائد ہوتی ہے۔ہندوپاک کے درمیان بہتر تعلقات پر زور دیتے ہوئے انہوںنے سرحدوں پر فوری امن کی بحالی کی وکالت کی۔ان کا کہناتھا’’میرا ماننا ہے کہ جنگ کسی مسئلہ کا حل نہیں اور بالآخر ہمیں آپس میں بات کرکے ایک دوسرے کے دوست بننا ہے اور اس کیلئے ہمار ے وزیراعظم وہاں گئے لیکن بدقسمتی سے اس کے بعد پٹھانکوٹ ہوا اور ریاست کو ہندوپاک کشیدگی کا خمیازہ بھگتنا پڑا‘‘۔ ان کا مزید کہناتھا’’حالات میں فوری طور بہتری واقع ہونی چاہئے اور دونوں ممالک کو مہذب انداز میں ایک ساتھ بیٹھ کربات کرنی چاہئے جس کیلئے پاکستان کو پہل کرنا ہوگی‘‘۔سرحدی گولہ باری کا حوالہ دیتے ہوئے انہوںنے کہا ’’ایسا ہم پہلی دفعہ نہیںدیکھ رہے ہیں کیونکہ ہم نے1947سے بھارت اور پاکستان کے درمیان کئی جنگیں دیکھی ہیں۔ہم نے1999کا کرگل جنگ دیکھا اور دیگر جنگ بھی دیکھے ۔سرحدی کشیدگی زیادہ دیر تک نہیں رہے گی ،بالآخر ہمیں ایک دوسرے کے ساتھ مل کر رہنے کا ہنر سیکھنا ہوگا‘‘۔